ویلکم ٹو پرانا پاکستان


اردو کے خوبصورت لب و لہجے کے شاعر قابل اجمیری کی غزل کا شہرہ آفاق شعر پیش خدمت ہے

وقت کرتا ہے پرورش برسوں۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

ایسے ہی 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان کی کامیابی کا ایک دم سے حادثہ رونما نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے برسوں کی محنت، کوشش، اور پرورش تھی۔ جانے کیا کچھ سوچ کر اس کو نکھارا گیا نوک پلک سنواری گئی۔ ایک ایک خامی پر قابو پایا گیا اس کے ساتھ ایک ایسا ہجوم اکٹھا کیا گیا جو مشرقی اخلاقیات، سیاسی روایات کا انکاری تھا جو تبدیلی کا خواہشمند تھا جس کے نزدیک سیاسی فلسفہ صرف اور صرف کسی کو گالی دینا تھا کسی کی عزت کی دھجیاں اڑانا تھا جن کے نزدیک ہر شخص چور اور غدار تھا

نوجوان نسل میں ایک ہیجان ایک جنون پیدا کیا گیا۔ 30 اکتوبر 2011 میں کپتان کے جلسہ نے گویا بازی پلٹ کر رکھ دی۔ اس کے بعد تو گویا کپتان کی مقبولیت نے ہر سیاسی فلسفے کو روند کے رکھ دیا۔ انسانی نفسیات سے کھیلا گیا کپتان سے اسٹیج پر دوران تقریر ہر وہ بات کرائی گئی جو عوام سننا چاہتی تھی۔ ہر وہ وعدہ کیا گیا جس کو پورا کرنا نا تو ملکی معاشی نظام کے بس میں تھا اور نا ہی اس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ تھا۔ لاکھوں گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان بے روزگار نوجوان نسل کے لیے گویا کسی من و سلوی سے کم نہیں تھا۔

افتخار عارف نے ایک شعر کہا تھا کہ کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے۔ یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا۔ آج 10 اپریل کو جب عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں جب تماشا ختم ہوا تو یہ عقدہ بھی کھل گیا کہ کہانی کس نے الجھائی تھی اور کیوں الجھائی تھی۔ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں سے اگر مارشل لا کے ادوار کو نکال دیا جائے تو باقی ماندہ جمہوری مدت 45 سال بنتی ہے اور اس مدت میں پروان چڑھنے والی جمہوری قوتیں حد درجہ مصائب اور تکالیف دیکھنے کے باوجود اپنے آپ کو اس باب قبولیت کے قابل نا بنا سکیں جہاں سے طاقت اور اقتدار کے چشمے پھوٹتے ہیں۔

ان سیاسی جماعتوں کو ہر بار لولا لنگڑا اقتدار ہی دیا گیا بے سروسامانی کی سی کیفیت رہی۔ ایک دوسرے سے الجھائے رکھا گیا۔ ایک تماشا سا بنا دیا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ عام آدمی کا جمہوریت اور جمہوری قوتوں سے ایمان ہی اٹھ گیا۔ ایسے میں ایک نئی سیاسی قوت تشکیل دینے کا پروگرام بنایا گیا۔ ایک ایسی قوت جس کا چہرہ تو جمہوری ہو مگر اس کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ اور اس کے لیے کپتان سے زیادہ بہتر انتخاب اور کیا ہو سکتا تھا۔

اور پھر غبارے میں ہوا بھری گئی ایک مسیحا کو لانچ کیا گیا۔ مسائل میں گھری ہوئی قوم کے لیے عظیم خیالات کا حامل ایک مہاتما سیاسی میدان میں بھیج دیا گیا۔ ہر ممکنہ مدد فراہم کی گئی۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ طاقتور سیاسی شخصیات کو مجبور کر کے اس کی گود میں ڈال دیا گیا۔ ملک میں دستیاب دیگر مخالف سیاسی شخصیات کو نشان عبرت بنا دیا گیا۔ من پسند کھلاڑی کے لیے گویا میدان ہی صاف کر دیا گیا کہ جیسے چاہو کھیلو۔

سلیکٹرز کی تھپکی اور اعتماد سے کپتان کی پرفارمنس مزید بہتر ہوتی گئی۔ ہر آنے والا دن سیاسی کامیابیوں کی نوید لے کر آیا۔ کپتان کے کھلاڑیوں کا جوش اور جنون بھی انتہا ہو چھونے لگا۔ بالآخر سلیکٹرز نے اپنے دس سالہ منصوبے کو 2018 کے عام انتخابات میں عملی طور پر نافذ کر دیا۔ ملکی سیاسی ماحول میں ایک تبدیلی آ گئی سب کچھ تبدیل ہونے لگ گیا۔ سب کچھ طے شدہ منصوبے کے تحت ہی ہو رہا تھا۔ جہاں کہیں رکاوٹ محسوس ہوئی اس کو فوری طور پر دور کر دیا گیا۔

اب کپتان کے کھیلنے کا وقت تھا۔ یہ شاید پہلا میچ ہو گا کہ جس میں کھلاڑی بھی اپنے، کپتان بھی من پسند اور تماشائی بھی اپنے تھے جبکہ ایمپائر ہی تو یہ میچ کروا رہے تھے۔ سو کامیابی یقینی تھی۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احساس ہونے لگا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لیے جس تدبر، فہم و فراست اور سیاسی اپروچ کی ضرورت ہے اس کا شدید فقدان ہے۔ اس کے لیے نان الیکٹڈ پروفیشنلز مدد کو لائے گئے۔ پے در پے کھلاڑیوں کی پوزیشن تبدیل کی گئی مگر نتیجہ کچھ نا نکلا۔

ایسے میں پہلے سے موجود سیاسی قوتیں جمع ہونا شروع ہوئیں ان کے باہمی ڈائیلاگ میں ایک بات طے ہوئی کہ اس دس سالہ منصوبے سے جان چھڑائی جائے۔ ایک کوشش شروع ہوئی۔ سیاسی میدان پھر سے سجنے لگا کپتان کی پرفارمنس مزید خراب ہوتی گئی۔ جس طرح کامیابی ملی تھی بالکل اسی طرح ناکامی مقدر بنتی گئی۔ ہر ضمنی الیکشن میں شکست، ہوم گراؤنڈ کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست نے تو حوصلے پست کر دیے۔ سلیکٹرز کی مایوسی بھی بڑھتی گئی بلکہ ایک وقت ایسا آیا کہ سلیکٹرز غیر جانبدار ہو گئے جس نے کھیل کو مزید بگاڑ دیا۔

بالآخر بلاول بھٹو کے مطابق ایک غیر جمہوری شخص کو جمہوری جدوجہد کے ذریعے نکالنے کے لیے عملی کوششوں کا آغاز ہوا۔ اور یوں کامیابی متحدہ اپوزیشن کا مقدر بنی۔ سلیکٹرز کے دس سالہ پروگرام کو ساڑھے تین سال میں عدم اعتماد کے ذریعے اپنے انجام تک پہنچا دیا گیا۔ اس پر سیاسی جماعتوں کی دوراندیشی اور انتھک محنت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے اور اس کا سہرا بلاشبہ سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، شہباز شریف، اسفند یار ولی، اختر مینگل سمیت تمام متحدہ اپوزیشن کو جاتا ہے۔

سیاسی سفر جاری رہے گا۔ سیاسی جماعتیں اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتی رہیں گی اور بالآخر ایک مضبوط سیاسی کلچر تشکیل پا جائے گا۔ یہ عمل آہستہ سہی مگر صد شکر کہ رکا نہیں۔ یہی سفر ہی تو ہے جس کی وجہ سے بلاول بھٹو نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ویلکم ٹو پرانا پاکستان اور یوں قوم نے نئے پاکستان کے سراب اور دھوکے سے نجات حاصل کی۔ حرف آخر کہ سلیکٹرز کے دس سالہ منصوبے کی ناکامی پر سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے۔ امید ہے سلیکٹرز کی مداخلت کے بغیر یہ جمہوری سفر اسی طرح جاری رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments