کپتان کی آخری اننگز


کپتان اپنے پہلے ٹیسٹ میچ کے لیے اپنی ٹیم کے ساتھ میدان میں اترے پورا سٹیڈیم پر جوش نعروں سے گونج رہا تھا۔ تماشائیوں کو یقین تھا کہ کپتان کی ٹیم چوکے چھکے لگا کر رنز کے ڈھیر لگا دے گی۔ کپتان کی مخالف ٹیم میں کافی تجربہ کار کھلاڑی تھے مگر کپتان کی ٹیم تازہ دم اور پرانے کھلاڑیوں کا حسین امتزاج تھی۔ اسی لیے ان کے حامی خوب زور و شور سے نعرے لگا رہے تھے۔ میچ شروع ہوا تو کپتان کی اوپننگ جوڑی نے اناڑی پن سے اننگز کا آغاز کیا۔ جو بال بلے آ رہی ہوتی تھی اسے چھوڑ دیتے تھے اور خطرناک یارکر پر شاٹ کھیلنے کی کوشش کرتے تھے۔

اس صورت حال پر کمنٹیٹرز نے ان کی بیٹنگ پر تنقید شروع کر دی۔ تس پر کپتان غصے میں آ گئے۔ ایمپائرز نے مداخلت کی اور کمنٹیٹرز کو ہدایات جاری کیں کہ وہ مثبت کمنٹری کریں۔ کمنٹیٹرز نے بتایا کہ جس طرح صحافی جو دیکھتے ہیں وہی بیان کرتے ہیں، زرد صحافت نہیں کرتے اسی طرح وہ بھی آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہے ہیں۔ ایمپائرز نے سمجھایا کہ ایسی صورت میں آنکھیں بند کر میچ دیکھیں اور مثبت کمنٹری کریں۔ کپتان کے کئی کھلاڑی ایل بی ڈبلیو ہو چکے تھے لیکن ایمپائرز نے انہیں شک کا فائدہ دے دیا تھا۔

پہلے دن کے اختتام تک بہت سلو رن ریٹ پر صرف اٹھارہ رنز بنائے تھے۔ دوسرے دن کا میچ شروع ہوا تو وہی سست بیٹنگ تھی۔ تماشائی اکتانے لگے تھے۔ کپتان کی مخالف ٹیم بہت مضبوط تھی اور کپتان نے میچ سے پہلے اعلانات کیے تھے کہ وہ مخالف ٹیم کے چھکے چھڑا دیں گے۔ مگر یہاں ان کے اپنے کھلاڑیوں کے پسینے چھوٹے ہوئے تھے۔ شائقین چوکے چھکوں سے مایوس ہو نعرہ بازی کرنے لگے۔ ایک دو کمنٹیٹرز سے اس موقع پر تبصرہ کیا کہ کپتان کی ٹیم بھلے ہی بیٹنگ نہیں کر پا رہی لیکن کپتان ہینڈسم بہت ہے۔ اپنے بیٹرز کو ہدایات دینے کے لیے جب گراؤنڈ میں آتا ہے تو سب کی نظریں اس پر ہوتی ہیں۔ شائقین کچھ دیر کے لیے بہل گئے لیکن انہیں رہ رہ کر یاد آتا تھا کہ وہ یہاں ہینڈسم کپتان کو دیکھنے نہیں آئے میچ سے لطف اندوز ہونے آئے ہیں۔

بہر حال کسی نہ کسی طرح تین دن کا کھیل مکمل ہوا۔ چوتھے دن کا کھیل شروع ہوا۔ مخالف ٹیم کی بیٹنگ شروع ہو چکی تھی۔ کپتان اور ان کی ٹیم شدید دباؤ میں تھی کیونکہ ان کی ٹیم کے رنز بہت کم تھے اور دوسری طرف منجھے ہوئے کھلاڑی تھے۔ بیٹنگ شروع ہوئی تو کپتان کے فیلڈرز نے کیچ چھوڑنے شروع کر دیے۔ کپتان نے اپنے فیلڈرز کی بار بار فیلڈ چینج کی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ مخالف ٹیم چوکے پہ چوکا لگا رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ میچ پانچویں دن سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا۔ کمنٹیٹرز نے تبصرے کیے کہ کپتان ہمیشہ سے نیوٹرل ایمپائرز کے قائل رہے ہیں۔ نیوٹرل ایمپائرز کا آئیڈیا ہی ان کا ہے۔ گراؤنڈ میں موجود ایمپائرز نے یہ بات سن لی اور نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔

اس سے کپتان کو فائدے کی بجائے نقصان ہونا شروع ہوا۔ کیونکہ پہلے تو ایمپائرز ان کی وائڈ بالز بھی اگنور کر دیا کرتے تھے۔ اب میچ بچانا مشکل لگ رہا تھا۔ کمنٹیٹرز بھی کھل کر کپتان کے کھیل پر تبصرے کرنے لگے تھے۔ تب کپتان کو اپنا آزمودہ حربہ یاد آیا۔ کپتان نے کولڈ ڈرنک کا ڈھکن جیب میں رکھا ہوا تھا۔ یہ بال ٹیمپرنگ کا عمدہ ذریعہ تھا۔ یہ حربہ کافی کام آیا اب ایک طرف مخالف ٹیم کا شہباز صفت کپتان بیٹنگ کر رہا تھا اور دوسری طرف کپتان کی باؤلنگ۔ آخری وکٹ تھی۔ کپتان نے بال کروائی اور وکٹیں اڑا دیں۔ کپتان نے آؤٹ کا شور مچایا۔ ان کی ٹیم کے بیشتر کھلاڑی خوشی سے دوڑتے ہوئے ان سے لپٹ گئے۔ لیکن امپائر نے آؤٹ نہیں دیا تھا۔ کچھ دیر کے لیے کھیل روک دیا گیا۔

مخالف کپتان نے ریویو کی اپیل کی تھی۔ اب فیصلہ تھرڈ ایمپائر کے ہاتھ میں تھا۔ ایکشن ری پلے دیکھا جا رہا تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ جس بال پر وکٹیں اڑائیں گئیں وہ نو بال تھی۔ تھرڈ ایمپائر نے فیصلہ دیا کہ بیٹر واپس آئے۔ یہ نو بال تھی۔ لہٰذا فری ہٹ دی جاتی ہے۔ کپتان نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ ایکشن ری پلے غلط ہے ان کا پاؤں لائن پر تھا۔ انھوں نے تماشائیوں سے بھی اپیل کی کہ وہ نعرے لگائیں۔

مگر ایمپائرز ان کی دلیل ماننے کو تیار نہیں تھے۔ کپتان نے بھی وکٹیں اکھاڑ لیں۔ تماشائی گم سم بیٹھے تھے انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس میچ کا نتیجہ کیا ہو گا۔ کپتان کے اوور کی آخری بال تھی اور مخالف ٹیم کو چھ رنز درکار تھے۔ کپتان نے آخری بال کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ لگتا تھا یہ میچ ڈرا ہو جائے گا لیکن پھر ایمپائر نے بال کپتان کے ایک اور باؤلر کو پکڑا دی کہ کوئی دوسرا باؤلر بھی آخری بال پھینک سکتا ہے۔

اس سے پہلے کہ کپتان کوئی ایکشن لیتے باؤلر نے بال کرا دی اور مخالف بیٹر نے چھکا لگا دیا۔ یوں پانچ دن کا ٹیسٹ میچ ساڑھے تین دن میں ہی ختم ہو گیا اور کپتان کی آخری اننگز اختتام کو پہنچی۔ آخری اس لیے کہ کمنٹیٹرز کا تبصرہ ہے کہ کپتان کی اس ہار کے بعد شاید ان کے ہاتھ سے ٹیم کے کھلاڑی ہی نکل جائیں گے۔ کھلاڑی نہیں ہوں گے تو میچ کیسے ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments