شکر ہے ٹائر تو بچ گیا!


ہمارے گاؤں میں گنا ٹریکٹر ٹرالی پر لوڈ کر کے شوگر مل کی طرف لے جایا جاتا ہے، اس دوران گاؤں میں لیبر کے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ گنا لوڈ ہو چکا اور ٹرالی کو کھیت سے باہر نکالنے کا موقع آیا تو ٹریکٹر کا کرینک شافٹ اور کلچ سسٹم بیکار ہو گیا اور ٹریکٹر کو مجبوراً وہیں روکنا پڑا۔ ایک سادہ لوح انسان وہاں کھڑا یہ دیکھ رہا تھا تو ٹریکٹر مالکان کو تسلی دیتے ہوئے بولا ”شکر ہے ٹائر تو بچ گیا“

آج یہاں یہ مثال دینے کی نوبت اس وجہ سے پیش آئی کہ پاکستان کی سیاسی گہما گہمی اس سے ملتی جلتی ہے۔ پاکستان میں پچھلے چند دنوں میں اتنے گمبھیر واقعات پیش آچکے ہیں جن کے نتائج تادیر ہمیں بھگتنے پڑیں گے۔

سب سے پہلے تو وزیراعظم عمران خان کے خلاف اٹھائیس مارچ کو تحریک عدم اعتماد کا پیش ہونا جس کی ضرورت اس وقت تو بالکل ہی نہ تھی۔ یہ نہ تو متحدہ اپوزیشن کے لیے اور نہ ہی حکومت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی۔ اس تحریک عدم اعتماد کا دلچسپ اور ساتھ ہی ساتھ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں عدم اعتماد کے پیدا ہونے کی کوئی خاص وجہ مہیا نہیں کی گئی یعنی نہ تو سابق وزیراعظم پاکستان عمران کو کرپٹ کہا گیا، نہ انہیں نااہل کہا گیا اور نہ کوئی اور الزامات لگائے گئے بلکہ صرف پارلیمنٹ میں نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ کیا گیا اور تحریک عدم اعتماد پیش کر دی گئی جو کہ پاکستانی سیاسی تاریخ کی منفرد عدم اعتماد کی درخواست تھی۔

اس درخواست کے پیش ہونے تک تو حالات معمول پر ہی تھے لیکن جب حکومت کی وجہ سے قرارداد منظور ہونے کے بعد بھی اس پر ووٹنگ تاخیر کا شکار ہوئی تو اپوزیشن اور حکومت کے درمیان خلا مزید بڑھتا گیا۔ اسی خلا کو دیکھتے ہوئے مختلف اداروں نے اپنا آئینی اور غیر آئینی کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ حکومت نے تین اپریل کو قرارداد پر ووٹنگ کرانے کی منظوری دے دی اور یہ تاریخ وہ تھی جو آئین کی رو سے سب سے زیادہ حکومت کو ووٹنگ کرانے کے لیے دی جا سکتی ہے۔

تین اپریل سے پہلے اسلام آباد جلسے میں وزیراعظم عمران خان نے ایک خط لہرایا اور اسے غیر ملکی مداخلت اور اندرونی سازش سے تعبیر کیا جس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک نے نیا موڑ لے لیا۔ تین اپریل کو اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو حکومت کی طرف سے ایک سرپرائز بم بن کر متحدہ اپوزیشن پر گرا، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے رولنگ سنائی کہ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ عدم اعتماد کی قرارداد غیر آئینی ہے اور غیر ملکی ایجنڈے اور ان کے ایما پر پیش کی گئی ہے اس وجہ سے قرارداد مسترد کی جاتی ہے۔

اس پر حکومتی حلقوں میں جشن کا سماں شروع ہو گیا اور اپوزیشن میں سوگ کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ اسی دن سپریم کورٹ نے اس رولنگ کے خلاف سو موٹو ایکشن بھی لے لیا اور فل کورٹ بینچ بلا کر رولنگ کے خلاف سماعت شروع کر دی۔ اس دوران حکومتی بدقسمتی یہ رہی کہ ان کے اپنے ہی اٹارنی جنرل نے استعفٰی دے دیا اور موقف یہ پیش کیا کہ وہ کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت نہیں کر سکتے۔ دوسرا مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا کہ رولنگ پر دستخط تو سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے موجود تھے لیکن رولنگ سنانے والے قاسم سوری تھے۔ تیسرا مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا کہ جس غیر ملکی خط کو بنیاد پر اپوزیشن کی قرارداد کو مسترد کر دیا گیا تھا اس خط کو دیکھنے کے لیے اپوزیشن تیار نہ تھی اور نہ ہی وہ خط پبلک کیا جاسکتا تھا۔

اپوزیشن نے جان بوجھ کر ایسی صورت حال پیدا کی مجبوراً اس خط کو ڈسکس ہی نہ کیا جا سکے۔ سات اپریل کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے رولنگ کو غیر آئینی اور نو اپریل بروز ہفتہ کو اسمبلی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کے احکامات جاری کر دیے، صدر پاکستان اور وزیراعظم کو اس فیصلے کا پابند کیا گیا اور خلاف ورزی کی صورت میں توہین عدالت کے تحت کارروائی کرنے کا حکم بھی جاری کر دیا گیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس فیصلے میں اس خط کو زیر بحث بھی نہیں لایا گیا جس کی بنیاد پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی۔

نو اپریل کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ساڑھے دس بجے قومی اسمبلی کا اجلاس تو بلا لیا گیا لیکن حکومت نے پوری کوشش کی کسی طرح تقاریر کی طوالت اور اعصاب شکن حملوں کے زور پر اجلاس کو ملتوی کرایا جائے یا اس معاملے کو ہی ٹھپ کرایا جائے۔ حکومت نے یہ سوچ رکھا تھا کہ عدالت عظمی کا حکم بھی مانا جائے اور قرارداد سے بھی جان خلاصی کرائی جائے جو کہ کسی صورت ممکن نہ تھی۔ سارا دن اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان تقریری مقابلہ ہوتا رہا اور اجلاس کو افطار کے بعد پہلے ساڑھے نو اور پھر بارہ بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔

جب اداروں نے دیکھا کہ حکومت ضد پر آ گئی ہے تو وہ بھی حرکت میں آ گئے اور گیارہ بجے سے پہلے ہی فوج اور عدالت عظمیٰ نے اپنی اپنی پوزیشن لے لیں۔ فوج ریڈ زون میں عصر سے ہی داخل ہونا شروع ہو گئی تھی لیکن دس بجے کے بعد چیف آف آرمی سٹاف نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے بھی ملاقات کی۔ اس دوران مختلف افواہیں اور پروپیگنڈے بھی کیے گئے لیکن عمران خان نے ملکی مفاد میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا سوچا، ووٹنگ سے پہلے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔

اگرچہ اس عمل کی میری نظر میں چنداں ضرورت نہ تھی لیکن انہوں نے عمران خان سے اپنی وفاداری کو ثابت کیا جس کو سیاسی بصیرت اور حکمت عملی سے بالاتر سوچ کر سراہا جاسکتا ہے۔ اسد قیصر کے استعفیٰ کے بعد ایاز صادق نے اسپیکر کی کرسی سنبھال کر عدم اعتماد پر ووٹنگ مکمل کرائی اور اس طرح 174 اراکین کی مدد سے عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور عمران خان کا پاکستان سے سفر اختتام پذیر ہوا، کل بروز سوموار کو قائد ایوان کے لیے ووٹنگ شہباز شریف اور شاہ محمود قریشی کے درمیان ہوگی۔ دیکھئے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے لیکن کم ازکم دو بلیوں کی لڑائی میں بندر کو فائدہ تو نہ مل سکا لیکن دو بیلوں کی لڑائی میں مینڈک ضرور مارا گیا اور وہ مینڈک ہم جیسے مڈل کلاس کے لوگ ہیں۔

پھر بھی اس جمہوریت کی بقا پر اتنا کہا جاسکتا ہے
”شکر ہے ٹائر تو بچ گیا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments