یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا


وقت کبھی کسی کا نہیں ہوا، اور یہ آج ایک بار پھر ثابت ہو گیا۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں زمین بوس ہو گئی۔ عمران خان وزیراعظم سے سابق وزیراعظم بن گئے۔ عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا عندیہ سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک سال قبل یعنی 22 جنوری 2021 کو اپنے اعلان کردہ تحریک عدم اعتماد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے 5 جنوری 2022 کو اپنی پارٹی کے لانگ مارچ کا اعلان کیا۔

اس کے بعد وہ خود اور ان کے والد جو پاکستانی سیاست کے جادوگر مانے جاتے ہیں، عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے متحرک ہو گئے۔ انہوں نے بہت ہی کم وقت میں پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد ایک بار پھر اپنی سیاسی دانشمندی اور معاملہ فہمی سے بکھری اپوزیشن کو متحد کیا۔ گلے شکوے دور ہوئے اور پھر متحدہ اپوزیشن نے یک زباں ہو کر عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا اعلان کیا۔

تحریک عدم اعتماد کے اعلان کے بعد حسب معمول و حسب سابق عمران خان اور ان کی کابینہ کے مہم جو وزراء مشیروں اور معاونین نے اپوزیشن جماعتوں اور ان کی قیادت کو اپنی بندوقوں کی نشستوں پہ لے لیا۔ تکبر، غرور اور گھمنڈ نے انہیں ایک لمحے کے لیے بھی یہ سوچنے کا موقع نہیں دیا کہ اپوزیشن کے اس اعلان کے پیچھے اتنا اعتماد آخر کیوں ہے۔ عمران خان کو یہ لگتا تھا کہ وہ ملک کی واحد اور آخری چوائس ہیں ان کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ اس دوران ایک عوامی جلسے میں عمران خان نے کہا تھا کہ ”یہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اپوزیشن ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آئی ہے اب ان کو بتاؤں گا کہ میں ان کا کیا حشر کرتا ہوں، ایک ساتھ ایک بال پہ تین وکٹیں گراؤں گا“ مطلب ایک طوفان بدتمیزی تھا جو پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے برپا رہا۔

اس دوران حزب اختلاف کی جماعتیں، قیادت کارکنان اپنے مقصد کے حصول کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی سے لانگ مارچ شروع کیا جو سندھ کی حدود سے ہوتا ہوا پنجاب اور پھر اسلام آباد پہنچا۔ اس مارچ کی کامیابی سے پیپلز پارٹی نے دو مقاصد حاصل کیے پہلا پیپلز پارٹی کو سندھ اور پنجاب میں سیاسی طور پر متحرک کیا اور خاص طور پر پنجاب کے ناراض و خاموش بیٹھے جیالوں کو واپس سیاسی میدان عمل میں متحرک کیا اور دوسرا تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی راہیں ہموار کیں۔

اسی طرح مسلم لیگ ن، سمیت دیگر اپوزیشن نے بھی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپنا اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ اس ساری تحریک میں اصل جان پاکستانی سیاست کے امام اور سیاسی مدبر آصف علی زرداری نے ڈالی، انہوں نے عمران خان کی حکومت کے تابوت میں اصل کیل ٹھوکنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ عمران خان کے اپنے اراکین پارلیمان سے لے کر ان کے اتحادیوں تک سے رابطے کر کے انہیں پاکستان کو درپیش سنگین مسائل اور مشکلات سے آگاہ کیا اور عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پہ ساتھ دینے کے لیے قائل کیا۔

انہوں نے عمران خان کو یہ باور کرایا کہ ان کے اپنے اندر سے ان کے آمرانہ انداز حکمرانی کے خلاف چہ میگوئیاں اب بلند آوازوں میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہیں جو عنقریب ان کی صفوں میں طوفان برپا کر دیں گی۔ اس دوران عمران خان اور ان کے حواریوں کا متکبرانہ انداز سیاست جون کا توں جاری رہا، خان صاحب نے اپنے اتحادیوں کو بھی اہمیت دینا گورا نہیں کیا تو اپنے اراکین اسمبلی کے تحفظات کو بھی طاقت و حکمرانی کے گھمنڈ میں پس پشت رکھا اور نتیجہ اقتدار کے سنگھاسن سے رسوا بے عزت ہو کر بے دخلی پہ منتج ہوا۔ عمران خان کی سیاست کی عمارت کو ایمانداری اور دیانتداری کا جھوٹا منافقانہ بیانیہ بنا کر کھڑا کیا گیا تھا، اس بیانیے کو بنانے والوں نے بھی دیکھ لیا کہ جس شخص میں اپنے چند اتحادی اور پارٹی کے ساتھی سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے وہ ملک کو کیسے سنبھال سکتا ہے۔

عمران خان شروع سے اب تک اپنے گھمنڈ، تکبر اور فرعونیت میں سر تا پا ڈوبے رہے، انہوں نے آئینی تحریک عدم اعتماد کو پہلے جوتے کی نوک پہ رکھا پھر جب دیکھا کہ معاملات ہاتھوں سے نکلتے جا رہے ہیں تو اسی تکبر اور گھمنڈ کے نشے میں چور ہو کر انہوں نے آئین کو بھی جوتے کی نوک پہ رکھ دیا۔ انتہائی بے سروپا، بچکانہ قسم کی سازشی کہانیاں گڑ کر تاخیری حربے استعمال کر کے تحریک عدم اعتماد پہ ووٹنگ ہی نہیں کرائی جس کے بعد اپوزیشن نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور آخرکار عدالت عظمیٰ نے متفقہ طور پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہ صرف نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا بلکہ آئین شکنی کی ہر سازش، ہر حربے کو ناکام بناتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کو تحریک عدم اعتماد پہ ووٹنگ کرانے کا حکم دیا، صدر کے جانب سے توڑی گئی اسمبلیاں بحال کر دیں اور وزیراعظم کے اس اقدام کو غیر آئینی غیر قانونی قرار دیا۔

عمران خان نے اپنی تکبر رعونت کی روایات کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے ایک بار پھر آئین سے انحرافی اور عدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کی خلاف ورزی کی جسارت کی اور تحریک عدم اعتماد سے راہ فرار اختیار کرنے کے حربے استعمال کیے مگر قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ ”اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا، جب تک اللہ نہ چاہے“ ایسا ہی ہوا جو عمران نے چاہا وہ نہیں ہوا مگر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ ہوا، آئین، قانون و انصاف کا بول بالا ہوا، جمہور کی فتح ہوئی اور عمران خان اور ان کے حواریوں کے مذموم عزائم ناکام و نامراد ہوئے۔

عمران خان کے تکبر، گھمنڈ اور رعونت نے انہیں ایک آئینی مسئلے سے نمٹنے کا باعزت طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ذلت و پسپائی کے رستے پہ دھکیل دیا۔ عمران خان چاہتے تو باوقار طریقے سے آئینی تحریک کا سامنا کرتے، اپنے ساتھیوں اور اراکین پہ اعتماد کر کے ان کے تحفظات دور کر کے اس تحریک کو ناکام بنا سکتے تھے مگر جس ”میں“ کے نشے میں وہ چور تھے اس ”میں“ نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا اور نتیجہ بڑے بے عزت ہو کر اقتدار کے کوچے سے نکال باہر کیے گئے۔

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments