عمران خان : ایوان اقتدار میں آمد سے رخصتی تک


سابق وزیر اعظم عمران خان کو مقبول لیڈر بنانے والے عناصر خواہ کچھ بھی ہوں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 2018 کے الیکشن سے پہلے وہ ایک مقبول لیڈر بن چکے تھے۔ تاہم اس قدر مقبول نہیں تھے کہ حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد میں سیٹیں جیت سکیں۔ چنانچہ ”غیبی امداد“ کے نتیجے میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان کے ہاتھ ایک سنہری موقع آیا تھا کہ وہ اپنے دور اقتدار میں ملک و قوم کی ایسی خدمت کرتے کہ آئندہ حکومت انہیں بیساکھیوں کے بغیر ہی حاصل ہو جاتی۔ لیکن بوجوہ ایسا ہو نہ سکا اور ان کی حکومت مقررہ پانچ سال بھی پورے نہ کر سکی۔ قریباً ساڑھے تین سال میں ہی انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہونے والے پہلے وزیر اعظم کے طور پر اپنا نام تاریخ میں لکھوا لیا۔

الیکشن سے پہلے عمران خان چور، ڈاکو، کرپشن، مہنگائی کے نعرے لگاتے تھے۔ ہر مسئلے کی وجہ اپنی سیاسی حریف پارٹیوں کو قرار دیتے تھے۔ عوام کو بڑے بڑے خواب دکھاتے تھے۔ جب اقتدار میں آئے تو پھر بھی ان کے یہی نعرے گونجتے رہے۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، یہ سب کرپٹ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ کارکردگی صفر تھی۔ کروڑوں نوکریاں ملیں نہ لاکھوں گھر، ترقیاتی منصوبے شروع ہو سکے نہ مہنگائی کا جن قابو میں آیا۔ بیرونی قرضے کئی گنا بڑھ گئے اور کرپشن بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی۔

چینی، آٹا، گھی اور روزمرہ کی اشیا بھی عوام کی پہنچ سے دور ہو گئیں۔ خارجہ پالیسی بھی ناکام ثابت ہو رہی تھی۔ ان کے میگا پراجیکٹس میں انڈے، مرغیاں، کٹے، لنگر خانے وغیرہ ہی نمایاں ہیں۔ البتہ ان کے دور میں بد زبانی نے خوب فروغ پایا۔ گالی گلوچ کا کلچر ان کے وزرا سے لے کر ان کے فالورز کی نس نس میں رچ بس گیا۔

عمران خان نے پہلے دن سے ہی اپوزیشن کو برا بھلا کہنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اترنے تک جاری رہا۔ حالاں کہ وزیر اعظم بننے کے بعد انہیں چاہیے تھا کہ تمام تلخیوں کو بھلا کر اپوزیشن کو قومی مفاد میں اپنے ساتھ ملاتے کہ آئیں مل کر ملک کی معیشت کو ٹھیک کریں۔ لیکن ان کا سارا زور اسی بات پر رہا کہ کیسے اپنے سیاسی مخالفین سے انتقام لیں، کیسے انہیں جیلوں میں ڈالیں۔ وہ تقریر جو انہوں نے الیکشن سے پہلے یاد کی تھی، حکومت میں آنے کے بعد بھی اسی تقریر کو دہراتے رہے۔ حتیٰ کہ وہ عوام کو زبانی یاد ہو گئی۔ انہوں نے ہمیشہ نفرت کی سیاست کی۔ جھوٹ اور فریب سے اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالتے رہے۔

کرکٹ کے زمانے سے ہی نرگسیت کا شکار تھے۔ اب یہ بیماری کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ اپنی ہی شخصیت کا بت تراش کر اس کی عظمت کے گیت گاتے رہے۔ اپنے ہم عصر سیاست دانوں کی تضحیک کرنا، ان کی نقلیں اتارنا اور ان پر نت نئے الزامات لگانا ان کا وتیرہ تھا۔

اپنی انا کی تسکین کے لیے اپنے غلط فیصلوں پر بھی ڈٹے رہتے تھے۔ کسی کے مشورے پر عمل کرنا گویا ان کی توہین تھی۔ پنجاب کا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو بنانے کا فیصلہ بھی ایک ایسا فیصلہ تھا جس پر بہت زیادہ تنقید کے باوجود ہمیشہ اصرار کرتے رہے کہ وہ بہترین انتخاب ہیں۔ حتیٰ کہ تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ہی پنجاب بھی ہاتھ سے نکلتا چلا گیا۔

سیاست میں مذہب کارڈ کو بھی خوب استعمال کیا۔ یہ بھی ان کی ناکامی کی دلیل ہے کیونکہ ہمارے جذباتی عوام کو بے وقوف بنانے کا یہ سب سے آسان طریقہ ہے۔ پھر عوام کارکردگی کو بھی بھول جاتے ہیں اور جلسوں میں نعرے لگانے پہنچ جاتے ہیں۔ وہ بھی شاید اس فارمولے پر یقین رکھتے تھے کہ جھوٹ اتنا بولو کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگے۔ اپنے مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگانے سے لے کے امریکی سازش کے قصے تک ان کا یہ طور نہیں بدلا۔

عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد انہیں بخوبی علم ہو چکا تھا کہ ان کے اتحادی انہیں چھوڑ چکے ہیں اور ان کی اپنی جماعت کے لوگ چھوڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔ یہ ایسا موقع تھا جہاں وہ استعفیٰ دے کر باعزت طریقے سے اقتدار چھوڑ سکتے تھے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ میں بہت اچھے کام کر رہا تھا مگر مجھے چلنے نہیں دیا گیا۔ یہ کہتے تو کیسے کہتے جبکہ کارکردگی محض دوسروں کو چور ڈاکو کہنے تک محدود تھی۔ وہ جو دعویٰ کرتے تھے کہ کرسی میرے لیے بے وقعت ہے۔ اگر چند لوگ کہہ دیں کہ ”گو عمران گو“ تو میں اسی وقت استعفیٰ دے کر چلا جاؤں گا۔ وہی اقتدار کی کرسی سے ایسے چمٹ گئے کہ الگ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

ان کے اتحادی جب مخالفوں سے جا ملے تو انہیں لوٹے اور بکاؤ قرار دیا۔ اخلاقیات کا سبق پڑھایا۔ دھمکیاں دیں اور پھر انہیں واپس لانے کے لیے ہر طرح کے لالچ دینے شروع کر دیے۔ اپوزیشن کو ہارس ٹریڈنگ کا طعنے دیے اور خود کوئی مقدس منڈی لگا کر بیٹھ گئے۔ لیکن ان کے اتحادی واپس آنے کو تیار تھے نہ ان کے اپنے ساتھی۔ اس وقت بھی نوشتہ دیوار پڑھنے کی زحمت نہ کی۔ بالآخر جب تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تو تاخیری حربے استعمال کرنے شروع کیے۔

آخر میں تو اتنی پستی میں اتر چکے تھے کہ گھنٹوں کے حساب سے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس قدر شدید اقتدار کی ہوس اس پہلے کبھی ملکی سیاست میں نظر نہیں آئی کہ جب کسی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی ہو اور وہ مختلف حیلوں بہانوں سے ووٹنگ ٹالنے کی کوشش کرتا رہے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنے ڈپٹی سپیکر سے آئین شکنی بھی کروا ڈالی۔ ووٹنگ کے آخری دن اس نے سازشی خط کا بہانہ بنا کر تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی جس کا وہ مجاز نہیں تھا۔

تحریک پہلے سے منظور ہو چکی تھی۔ آئین کے مطابق اب آخری دن تھا اور اس پر ووٹنگ ہونا ضروری تھا۔ اس دن کی کارروائی میں صرف ووٹنگ ہونا تھی اور کچھ نہیں۔ نہ صرف ڈپٹی سپیکر نے آئین توڑا بلکہ خود بھی آئین شکن بن گئے۔ پہلے سے طے کیے گئے پلان کے مطابق ڈپٹی سپیکر نے تحریک مسترد کی، ایک لکھی ہوئی رولنگ پڑھی اور جلد بازی میں سپیکر کا نام بھی بول گئے جنہوں نے تحریر لکھ کر دی تھی۔ اس کے چند منٹ بعد ہی وزیر اعظم نے قومی اسمبلی توڑنے کے مشورے پر مبنی خط صدر کو ارسال کیا اور صدر نے چند منٹ کے اندر ہی اس پر عمل بھی کر ڈالا۔ سارا عمل دس منٹ میں مکمل ہو گیا۔

اپوزیشن سپریم کورٹ میں چلی گئی اور سپریم کورٹ نے اسمبلی بحال کر دی اور شاید ان کی نیت کو سمجھتے ہوئے بڑے واضح احکامات دیے کہ 9 اپریل کو ساڑھے دس بجے تک قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور اس میں صرف ایک ایجنڈا ہو گا۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ۔ لیکن 9 اپریل کو وہ ڈراما ہوا جو ساری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بنا۔ سپیکر نے سپریم کورٹ کے احکامات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے۔ فلور شاہ محمود قریشی کے حوالے کر دیا۔

انہوں نے اپنی طنزیہ تقریر شروع کر دی۔ اپوزیشن نے ہلکا سا ہی احتجاج کیا ہی تھا کہ سپیکر نے غالباً طے شدہ منصوبے کے مطابق فوراً ڈیڑھ گھنٹے کے لیے اجلاس ملتوی کر دیا اور پھر اجلاس دوبارہ ڈھائی گھنٹے کے بعد شروع ہوا تو شاہ محمود قریشی نے وہیں سے تقریر شروع کی جہاں سے منقطع ہوئی تھی۔ حکومت کی نیت صاف نظر آ رہی تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔

بہانے بنا بنا کر چار مرتبہ لمبے وقفوں کے لیے اجلاس ملتوی کیا گیا۔ تقریریں جاری رکھی گئیں۔ ساڑھے نو بجے وزیر اعظم نے کابینہ کا اجلاس طلب کر لیا۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر بھی وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئے۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ صبح سے حکومت محض وقت ضائع کر رہی تھی اسے توہین عدالت قبول تھی مگر ووٹنگ کرانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔ پھر ہائی کورٹ بھی کھل گئی اور سپریم کورٹ بھی کھل گئی۔ تو ہین عدالت کی صورت میں فوری ایکشن کا امکان پیدا ہو گیا۔

پرزنر وین اسمبلی کے باہر آ کر کھڑی ہو گئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور فوجی گاڑیاں بھی سڑکوں پر آ گئیں۔ ایک ہیلی کاپٹر وزیراعظم ہاؤس میں اترا۔ اس کے بعد فوراً سپیکر نے اسمبلی میں جاکر بارہ بجنے سے محض پندرہ منٹ پہلے استعفیٰ دے دیا اور کرسی ایاز صادق کے حوالے کی۔ اس طرح 9 اپریل کو شروع ہونے والا اجلاس 10 اپریل کی تاریخ میں داخل ہوا تو ووٹنگ ممکن ہو سکی اور عمران خان سے وزیراعظم کا عہدہ چھن گیا۔

عمران خان جاتے جاتے رہی سہی ساکھ بھی گنوا بیٹھے۔ جانا اگر ٹھہر ہی گیا تھا تو عزت و وقار سے بھی جایا جا سکتا تھا لیکن خود پسند لوگ عموماً اس راستے کا چناؤ نہیں کرتے۔ عمران خان کارکردگی کی سیاست کے خواب دکھا کر آئے تھے لیکن ”ایشوز“ کی سیاست ہی کرتے رہے۔ جاتے جاتے بھی کارکردگی تو تھی نہیں لہٰذا تحریک عدم اعتماد کو اپنے خلاف عالمی سازش قرار دے دیا۔ اپوزیشن کو غداری کے طعنے دیتے ہوئے رخصت ہوئے۔ قول و فعل میں تضاد، تکبر، غرور، بد اخلاقی، ہٹ دھرمی، خود پسندی، بد زبانی، الزام تراشی، جھوٹ ان کی حکومت کا طرہ امتیاز تھا۔ اس طرح ایک ناکام حکومت کے نا اہل وزیراعظم کی رخصتی ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments