پر سکون ذہن


پرسکون ذہن کے بغیر زندگی کا کوئی مزہ نہیں اور پر سکون ذہن مثبت سوچ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ مثبت سوچ بالغ نظری اور عالی فکر کے بغیر پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ بلندی خیالی اور عالی ظرفی، بہترین کتابوں کے مطالعہ کی عدم موجودگی میں ناپید ہے۔ مثبت ذہنی حالت کے حصول کے لیے لازم ہے کہ ہم دوسرے انسانوں سے ہمدردی اور رواداری کا جذبہ ہمہ وقت اپنے من میں رکھیں۔ دوسروں کے لیے ہمدردی کا جذبہ اپنے دل میں اخوت اور بھائی چارے کے عنصر کے بغیر نہیں پنپ سکتا۔

دوسروں کے ناروا اقوال و افعال کو صبر و تحمل سے برداشت کرنے کے لیے صبر کا ہونا ضروری ہے اور صبر بغیر علم کے ممکن نہیں۔ علم بغیر عمل کے ہماری روح کا جزو لاینفک نہیں بن سکتا۔ عمل کے لیے ضروری ہے کہ بندہ زندگی کو جیسی ہے ویسی قبول کر کے میدان عمل میں قدم رکھ دے۔ عمل کے میدان میں قدم رکھنے کے لیے لازم ہے کہ لایعنی اور منفی سوچوں سے گریز اور نجات حاصل کی جائے۔ شخصیت کو منفی سوچ کے عناصر کے لیے ضروری ہے کہ کسب حلال کے لیے محنت اور دعا کی جائے۔

اپنے من سے حسد، رقابت، تکبر اور دوسروں سے مقابلہ بازی جیسے منحوس اور منفی عناصر کو نکالنا ضروری ہے۔ اس کے لیے اپنے من سے اپنے نفس سے اپنی خواہشات سے سخت قسم کا جہاد فرض ہے۔ جہاد حقیقت میں سخت قسم کی جدوجہد اور کوشش کا نام ہے اور یہ ساری سخت جدوجہد اپنی خواہشات کے منہ زور گھوڑے کے خلاف تگ و دو کرنے کا نام ہے نہ کہ دوسروں کی زندگی اجیرن کرنے کا نام جہاد ہے۔ ہم میں سے ہر کسی کو اپنے آپ سے شدید قسم کی محبت ہے جس سے ہمیں خود سے شدید قسم کی ہمدردی ہے۔

یہی نرگسیت ہے اور اسی کا نام خواہش کی پوجا ہے اور یہی ہماری شخصیت کے منفی پہلوؤں کا سب سے بڑا محرک اور سبب ہے۔ ہمارا نفس ہمیشہ اپنے آپ کے لیے راحت اور محبت و عزت کا متلاشی رہتا ہے جب کہ دوسروں کی تحقیر، نفرت اور حسد ہمارے نفس کا مرغوب شیوہ ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے ذہن کا پرسکون رہنا اور حقیقی راحت سے لطف اندوز ہونا ممکن نہیں۔ ہم سب سے زیادہ اذیت حقیقی دنیا میں نہیں بلکہ ذہن کی دنیا میں سہتے ہیں اسی طرح ہماری راحت اور سکون کا حقیقی تعلق ہمارے ذہن اور من کی دنیا سے ہے۔ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھیں تو اقبال کے اس شعر کی ایک نئی تفہیم کا در وا ہوتا ہے وہ شعر یہ ہے کہ

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

سراغ زندگی کو پر سکون ذہن کی عدم موجودگی میں پایا ہی نہیں جا سکتا۔ انسان شارٹ کٹ اور آسانی کا متلاشی رہتا ہے جب کہ پرسکون ذہن کا حصول کسی شارٹ کٹ کے وسیلے سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے علم کی تگ و دو درکار ہے۔ انسانی نفس علم کے حصول کے لیے کبھی بھی آسانی سے تیار نہیں ہوتا کیوں کہ علم مشقت اور سخت محنت کا متقاضی ہے اور انسان تو ہمہ وقت مشقت اور محنت سے بھاگنے کے بہانے اور حیلے ڈھونڈتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے کسی میدان میں جب انسان ناکام و نامراد ہوتا ہے تو وہ اپنی کمیاں اور خامیاں تلاش کرنے کے بجائے حالات و واقعات کو اپنی ناکامی کا سبب ٹھہراتا ہے بلکہ بڑے بڑے لایعنی اور دور ازکار دلائل سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو قائل کرتا ہے کہ میری ناکامی میں میرا ذاتی کوئی عمل دخل نہیں۔ جب کہ حقیقت یہی ہے کہ یک سوئی اور مسلسل محنت اور بے تکان تگ و دو کے بنا پر سکون ذہن کا خزانہ پانا ممکن نہیں۔ پرسکون ذہن ایک ایسا انمول خزانہ اور بحر بے کنار ہے جس کے آگے سب کچھ ہیچ ہے۔

امان اللہ محسن
Latest posts by امان اللہ محسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments