ہمارے خطے کی تاریخ , فاتحین اور قدیم باشندے


موہنجو دڑو (سندھ) ، ہری یوپیا یعنی ہڑپہ (پنجاب) اور ویرا ڈھولہ (راجستھان) ، آرینز کے اس خطے میں آمد سے قبل کی مقامی تہذیب کے بڑے شہر تھے، جو اب تک دریافت ہو سکے ہیں، انڈس ویلی میں قبل از آریا ایسے نوے بڑے شہر ایک مہذب اور پرامن تہذیب اور بہترین آبپاشی اور کاروبار کا نظام موجود تھا، ان شہروں میں سے اکثر شہر اب تک یا تو دریافت نہیں ہوئے یا دریاؤں کے کٹاؤ اور رخ بدلنے کی وجہ سے معدوم ہو چکے ہیں، کچھ ”بش مین“ یعنی جنگلی قبائل ضرور موجود تھے، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی قبل از آریا، دڑاورین تہذیب ایک مہذب، پرامن اور شاندار اور خود انحصار معاشرہ اور تہذیب تھی، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ سماج گھوڑے اور لوہے کے استعمال سے ناواقف تھا، لہذا اسے کانسی کی تہذیب کا زمانہ کہا جا سکتا ہے، اس خطے میں زرعی پیداوار، پالتو مویشیوں اور ان کی مصنوعات کی فراوانی تھی، یہاں دھرتی کی علامت کے طور پر ایک نسوانی دیوی کو پوجا جاتا تھا، جن دیویوں کو بعد ازاں ہندو مذہب میں کالی، لکشمی اور درگا کے ناموں سے شامل کر لیا گیا۔

لیکن اس پرسکون زندگی اور فراوانی و آسانی نے اس تہذیب کو جمود کا شکار کر دیا، مثال کے طور پر بیل گاڑی کا پہیہ اور دیگر اوزار جیسا ایک ہزار سال قبل کی ساخت کے تھے، اور اچھے طریقے سے کام دے رہے تھے، تو ان میں کوئی جدت نہ لائی گئی، اور وہ ایک ہزار سال بعد بھی ویسے ہی بنتے رہے، اس قدیم، روایتی اور پرامن تہذیب کو بعد ازاں یہاں آنے والے جنگجو آرین قبائل نے اسوا یعنی گھوڑے اور لوہے کی طاقت سے مغلوب کیا، ہندو ویدوں میں آرین جنگی سرداروں کی طرف سے لوکل حکمرانوں کی طرف سے ”دریا اور پانی“ کو قید کرنے اور آریا جنگی سرداروں کی طرف سے پانی کو آزاد کرنے کا ذکر ہے، یعنی ان آریا جنگی سرداروں نے وہ قدیم قائم شدہ واٹر سپلائی اور اریگیشن سسٹم ( جسے پانی کو قید کرنا کہا گیا ) تباہ کیا، یہاں یہ بات بھی مدنظر رکھا جانا ضروری ہے کہ دنیا کا سب سے قدیم باقاعدہ سیوریج سسٹم موہنجو دڑو اور ہڑپہ میں ہی پایا گیا، ایک بہترین ترتیب سے بسائے گئے یہ شہر اس دور کی جدید ترین شہری منصوبہ بندی کا اعلیٰ نمونہ ہیں، آرین فاتحین کی طرف سے اس تہذیب کو فتح کر لینے کے بعد اپنے قبضے اور مقامی اقوام کی محکومیت کو دوام بخشنے کے لیے طبقات پر مبنی سماجی، معاشرتی اور علمی و اقتصادی نظام تشکیل دیا گیا، جس میں بنیادی طور پر چار طبقات مقرر کئیے گئے، براہمن جو اس نئی غالب قوت اپنی علمی اور مذہبی برتری کی وجہ سے دماغ کا درجہ رکھتا تھا اس نے اس سماجی تقسیم کو فاتحین کے مفاد کے مطابق ایک واضح شکل دی، اس نظام میں براہمن نے اپنے لیے علمی اور مذہبی مقام مقرر کیا جس کا احترام اور ان کی ذہنی اور نسلی برتری کی بنیاد پر درجہ اور احترام سب سے برتر اور سب کے لیے لازم قرار دیا گیا۔

اس کے بعد ”کھشتری“ کا درجہ جنگجووں اور حکمرانوں کے لیے مقرر کیا گیا کیونکہ دور قدیم میں طاقت کی برتری کے فطری اور قدرتی اصول کے تحت حکمران وہی بنتا تھا، جو طاقت کے زور پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا، یہی طبقہ بعد ازاں آنے والے ادوار میں راجپوت کہلایا، جیسا کہ مشہور تاریخ دان سر اولف کیرو اپنی تصنیف ”پٹھان“ میں لکھتے ہیں کہ راجپوت شروع میں کوئی مخصوص نسل نہیں تھی بلکہ جو بھی فوجی پیشہ اپناتا اور ان میں سے کچھ بعد ازاں حکمران بھی بن جاتے وہ راجپوت کہلانے لگتا اور یہ شروع کا لقب ”راجپوت“ اپنے معانی یعنی، راج، اور، پوت، سے ہی اپنی تشریح کرتا ہے۔

چونکہ آریا نسل کے قبائل وسطی ایشیا کے کھلے میدانوں کی سرزمین سے اس خطے میں وارد ہوئے تھے تو وہ باقاعدہ منڈی کا علم یعنی کاروبار کا طریقہ اور اصول نہیں جانتے تھے، اس خطے میں آرین حملہ آوروں کے آنے سے قبل کے مقامی سماج میں گزشتہ ہزاروں سال سے باقاعدہ کاروبار اور تجارت ہوتی تھی، بلکہ دریافت شدہ آثار کے مطابق کئی بیرونی دور دراز کے ممالک اور علاقوں سے تجارت کے ثبوت بھی ملے ہیں، اور نسل در نسل اس تجارت یا کاروبار سے وابستہ لوگ ”وانڑیں“ کہلاتے تھے، آج کا ہندو بنیا یہی وانڑیں ہے، اور سندھی زبان میں کاروبار کو آج تک ”ونڑیج“ کہا جاتا ہے، آج تک کشمیر کے وانی، پنجاب کے وائیں، اور صوبہ ”کے پی“ کے پنی دراصل وہی قدیم کاروباری وانڑیں ہیں۔

تو ان قدیم کاروباری نسلوں کو فاتح آرینز نے اپنے سماج میں شامل کرتے ہوئے ”ویش“ کا درجہ دیا، اور اس اور لوکل مفتوح آبادی کے لیے شودر یا داسیو کا کمتر ترین سماجی درجہ مقرر کیا گیا، ان کو شہروں سے باہر کھدیڑ دیا گیا اور ان پر پکے مکان بنانے پر پابندی عائد کر دی گئی، اور معاشرے کے سب سے کمتر کاموں کے لیے ان کو مقرر کیا گیا، آرینز کی علمی اور سرکاری زبان سنسکرت قرار پائی اور منصوبہ بند طریقے سے، لوکل آبادی کو پسماندہ اور محکوم رکھنے کے لیے ان پر تحصیل علم اور سنسکرت سیکھنے بلکہ سننے تک پر سخت پابندی لگائی گئی۔ جو کوئی مقامی باشندہ ایسی کوشش کرتا اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ٹپکایا جاتا، تاکہ وہ کہیں یہ علمی زبان سیکھ نہ لیں۔

یوں اولیں طور پر فاتحین کے قائم کردہ طبقات پر مبنی سماجی نظام کا آغاز ہوا، جس میں فاتحین کے مفاد، ضرورت اور تحفظ کو یقینی بنایا گیا تھا۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ آریا حملہ آوروں کے مقابلے میں مقامی آبادی کی طویل مزاحمت کے بعد جس مزاحمت کا ذکر، ہمیں ویدوں میں بھی تفصیل سے ملتا ہے، اکثر مقامی قبائل اور آبادی کو تو مغلوب کر کے محکوم بنا لیا گیا، لیکن کچھ قبائل اور خاندان اس محکومیت سے بچنے کے لیے شمال کی طرف ہجرت کر گئے، وہاں وادی کشمیر کی ایک پیالے کی شکل کی پہاڑوں میں گھری وادی عظیم ”ستی سر“ کی جھیل کا بارہ مولہ سے کچھ نیچے اوڑی کے قریب شاید کسی زلزلے سے پہاڑ کی رکاوٹ ٹوٹنے کی وجہ سے پانی کے ”آج کے دریائے جہلم (جس کا قدیم نام“ وتستہ ”تھا) کے بہاؤ کی سمت اخراج کے بعد وادی کشمیر کی شکل میں ایک وسیع سرزمین ظاہر ہوئی، تو یہ انڈس سویلائزیشن پر آرینز کے قبضے اور محکومیت سے بھاگے ہوئے قبائل اور خاندان کشمیر آ کر آباد ہو گئے۔

وادی کشمیر کے اولین آباد کار یہی سندھو سویلائزیشن سے ہجرت کیے لوگ تھے، بعد میں وسطی ایشیاء، چینی اور روسی ترکستان اور ایران سے بھی آباد کار آ کر وادی کشمیر میں آباد ہوتے رہے، اور یہ سب اپنے ساتھ اپنے علاقوں اور تہذیبوں کی علامات اور روایات بھی لاتے رہے جن کے واضح نشان آج بھی کشمیر کے کلچر، کھانوں اور رسم و رواج میں دیکھے اور ڈھونڈے جا سکتے ہیں، مثال کے طور پر کشمیر میں چائے یا قہوہ کو گرم رکھنے کے لیے ایک مخصوص ساخت کا برتن جسے“ سماوار ”کہا جاتا ہے، یہ برتن اور اس کا نام روس سے اس خطے میں آیا ہے کیونکہ سماوار بنیادی طور پر روسی زبان کا لفظ ہے اور یہ برتن آج بھی روس کے دور دراز کے دیہات میں استعمال کیا جاتا ہے اور اسے آج بھی وہاں سماوار ہی کہا جاتا ہے، اسی طرح ایران سے آنے والے اہل علم و فن کے تہذیبی اور لسانی اثرات آج بھی کشمیری زبان اور وہاں کے کھانوں اور فنون کی شکل میں واضح ہیں، لیکن قدیم نسلی اور ثقافتی اثرات کی بات کی جائے تو سب سے قدیم مماثلت وادی سندھ سے گئے قدیم مقامی باشندوں کے کشمیر میں ندرو یعنی کنول کے پھول کی پانی میں ڈوبی جڑ کی سبزی کو تیز مرچ والے سالن کی شکل میں مچھلی کے ساتھ ملا کر پکانا اور اسے سفید ابلے چاولوں کے ساتھ کھانا آج تک کشمیر میں اور سندھ کے قدیم باشندوں میں مماثل ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ سندھ میں کنول کی جڑ کی سبزی کو“ بئیں ”کہا جاتا ہے۔ بعد میں جب آرینز کی فتوحات اور غلبہ وادی سندھ سے آگے بڑھ کر وادی گنگا اور جمنا بلکہ کاویری کے مغربی کنارے تک وسیع ہو گیا اور انہوں نے مختلف حکمران اور آپس میں رشتہ دار خاندانوں مثلاً کورووں اور پانڈووں کی شکل میں مختلف علاقوں میں اپنے اقتدار مستحکم کر لیے ، تو اس کے بعد سپت سندھو یعنی آج کی انڈس ویلی جس میں تقریباً آج کا سارا مغربی پاکستان شامل تھا، یہیں ہندو مذہب نے اپنی باقاعدہ شکل اختیار کی، یہیں وید لکھے گئے، جو بہت حد تک آرینز کی تاریخ کا دیومالائی انداز میں ذکر تھا۔

اب برصغیر کے مختلف علاقوں میں اپنی سلطنتیں مستحکم کرنے کے بعد ، ذیلی اور اطراف کے علاقوں اور وادیوں میں ہندو مذہب کی تبلیغ اور ترویج کا سلسلہ شروع ہوا اور اسی سلسلے کے تحت براہمن مبلغ کشمیر پہنچے اور وہیں آباد بھی ہو گئے، اب سیاسی اور زمینی صورتحال کے پیش نظر ان مبلغین نے اپنا پیغام ظلم و زبردستی کے بجائے پیار و محبت اور بھائی چارہ قائم کرتے ہوئے پھیلایا، اسی وجہ سے آج بھی ہندو بھارت کے وادی کشمیر کی مسلم اکثریت پر ناقابل بیان اور شدید مظالم کے باوجود وادی کشمیر کے عوام، وہاں آباد کشمیری پنڈتوں جو انہی ابتدائی قدیم مبلغین کی باقیات ہیں، سے شدید دلی تعلق اور محبت رکھتے ہیں، لیکن کشمیر کے عوام کا جذبہ حریت جسے آج تک کوئی طاقت ہر قسم کے شدید ترین ظلم و ستم کے باوجود مغلوب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی، اس جذبہ حریت کی جڑیں اسی زمانہ قدیم کی حریت پسندی اور ہجرت کے تناظر میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔

اب واپس انڈس سویلائزیشن کے احوال کی طرف آتے ہیں، تو جیسا کہ اس مضمون کے شروع میں بیان کیا گیا کہ یہاں سیاسی بنیادوں اور فاتحین کی ضرورت اور مفاد کی بنیاد پر تشکیل شدہ طبقاتی نظام کے گہرے اثرات ہمیں آج پانچ ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہمیں اپنے معاشرے میں اپنے آس پاس دکھائی دیتے ہیں، یہ جو قبائل اور نسلیں جن کو ہم آج مصلی، چنگڑ، نٹ، کول، بھیل جیسے ناموں سے جانتے ہیں یہ لوگ آج بھی پانچ ہزار سال قبل کی مغلوبیت کے بعد کی طرح ہی ہمارے شہروں سے باہر جھونپڑیوں میں مقیم ہیں، ان پر تعلیم، ترقی، اور باعزت روزگار کے دروازے آج بھی اسی طرح بند ہیں جیسے قدیم براہمن نے ان پر علم اور ترقی کے دروازے بند کئیے تھے، اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ پچھڑے ہوئے قبائل اور افراد اصل میں اس دھرتی کے بیٹے اور مالک ہیں، جن کو ہزاروں سال کے بعد بھی اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بنا کر رکھ دیا گیا ہے، یہ مظلوم لوگ منتظر ہیں کہ کوئی حکمران یا حکومت ایسی آئے، جو ان کو توجہ، محبت، علم اور ترقی دے کر ان کو ان ہی کی دھرتی پر ان کا جائز انسانی مقام دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments