داغ دہلوی کے دو نامور شاگرد


محققین کے نزدیک اصلاح شعر کی روایت شعرائے اردو کے ہاں سرزمین دکن میں وجود میں آئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشور سخن میں رسم بنتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ قدماء کے آخری دور میں داغ دہلوی تک پہنچتے پہنچتے اس نے ایک کلیدی حیثیت اختیار کر لی۔ تلامذہ داغ کے حوالے سے بے شمار تذکرے وجود میں آئے جن میں مالک رام اور اسعد بدایونی کے تذکرے نمایاں ہیں۔ اسعد بدایونی نے اپنی کتاب ً داغ کے تلامذہ ً میں ان کے گیارہ شاگردوں کا ذکر کیا ہے جبکہ کتاب کے آخر میں شاگردوں کی ناموں کے ساتھ جو فہرست درج کی ہے وہ 159 ناموں پر مشتمل ہے۔ اس مضمون میں عمومی معلومات انہی کی کتاب سے نقل کی گئی ہیں جبکہ داغ کے نامور شاگردوں کے ذکر میں ان کے علاوہ مالک رام اور شاہد احمد دہلوی کے ان شعراء پہ لکھے گئے خاکوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا داغ کے تلامذہ کی ایک بڑی تعداد تھی۔ اصلاح کے ضمن میں ان کا انداز کیسا تھا، اس باب میں شاگردوں کے لیے ان کی یہ نظمیہ ہدایت قابل توجہ ہے۔ اگرچہ یہ ایک طویل حوالہ ہے لیکن راہ روان جادہ سخن کے لیے آج بھی راہنمائی کی اہل ہونے کی وجہ سے اسے مکمل نقل کیا جا رہا ہے۔

اپنے شاگردوں کو یہ عام ہدایت ہے میری
کہ سمجھ لیں وہ تہہ دل سے بجا اور بے جا

شعر گوئی میں رہیں مدنظر یہ باتیں
کہ بغیر ان کے فصاحت نہیں ہوتی پیدا

چست بندش ہو نہ ہو سست یہی خوبی ہے
اور فصاحت میں گرا شعر میں جو حرف دبا

عربی فارسی کے الفاظ جو اردو میں کہیں
حرف علت کا برا ان میں ہے گرنا دبنا

الف وصل اگر آئے تو کچھ عیب نہیں
لیکن الفاظ میں اردو کے یہ گرنا ہے روا

جس میں گنجلک نہ ہو تھوڑی بھی صراحت ہے وہی
وہ کنایہ ہے جو تصریح سے بھی ہو اولیٰ

عیب و خوبی کا سمجھنا ہے اک امر نازک
پہلے کچھ اور تھا اب رنگ زباں اور ہوا

یہی اردو ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے
اہل دلی نے اسے اور سے اب اور کیا

مستند اہل زباں خاص ہیں دلی والے
اس میں غیروں کا تصرف نہیں مانا جاتا

جوہری نقد سخن کے ہیں پرکھنے والے
ہے وہ ٹکسال سے باہر جو کسوٹی نہ چڑھا

بعض الفاظ جو دو آئے ہیں اک معنی میں
ایک کو ترک کیا ایک کو قائم رکھا

ترک جو لفظ کیا اب وہ نہیں مستعمل
اگلے لوگوں کی زبان پر وہی دیتا تھا مزا

گرچہ تعقید بری ہے مگر اچھی ہے کہیں
ہو جو بندش میں مناسب تو نہیں عیب ذرا

شعر میں حشو وز وائد بھی بڑے ہوتے ہیں
ایسی بھرتی کو سمجھتے نہیں شاعر اچھا

گر کسی شعر میں ایطائے جلی آتا ہے
وہ بڑا عیب ہے کہتے ہیں اسے بے معنیٰ

استعارہ جو مزے کا ہو مزے کی تشریح
اس میں اک لطف ہے اس کہنے کا پھر کیا کہنا

اصطلاح اچھی ہو مثل اچھی ہو بندش اچھی
روزمرہ بھی رہے صاف فصاحت سے بھرا

ہے اضافت بھی ضروری مگر ایسی تو نہ ہو
ایک مصرعے میں جو ہو چار جگہ بلکہ سوا

عطف کا بھی یہی حال یہی صورت ہے
وہ بھی آئے متوالی تو نہایت ہے برا

لف و نشر آئے مرتب وہ بہت اچھا ہے
اور جو غیر مرتب تو نہیں کچھ بے جا

شعر میں آئے جو ایام کسی موقع پر
کیفیت اس میں بھی ہے وہ بھی نہایت اچھا

جو نہ مرغوب طبیعت ہو بری ہے وہ ردیف
شعر بے لطف ہے اگر قافیہ ہو بے ڈھنگا

ایک مصرع میں ہو تم دوسرے مصرع میں تو
یہ شتر گربہ ہوا میں نے اسے ترک کیا

چند بحریں متعارف ہیں فقط اردو میں
فارسی میں عربی میں ہیں مگر ان سے سوا

شعر میں ہوتی ہے شاعر کو ضرورت اس کی
گر عروض اس نے پڑھا وہ ہے سخنور دانا

مختصر یہ کہ ہوتی ہے طبیعت استاد
دین اللہ کی ہے جس کو یہ نعمت ہو عطا

بے اثر کے نہیں ہوتا کبھی مقبول کلام
اور تاثیر وہ شے ہے جسے دیتا ہے خدا

گرچہ دنیا میں ہوئے اور ہیں لاکھوں شاعر
کسب فن سے نہیں ہوتی ہے یہ خوبی پیدا

پند نامہ جو کہا داغ نے بیکار نہیں
کام کا قطعہ ہے یہ وقت پہ کام آئے گا

آئیے اب ان کے ان دو نامور شاگردوں کا ذکر کرتے ہیں جن سے دنیا بے خود دہلوی اور سائل دہلوی کے ناموں سے آشنا ہے۔

بے خود دہلوی

آپ 1858 میں راجستھان کے شہر بھرت پور میں پیدا ہوئے۔ اصل نام وحید الدین احمد تھا۔ بارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا۔ آغاز میں نادر تخلص رکھا ابتدائی اصلاح مولانا حالی سے لی۔ آپ کے خاندان کی اچھی خاصی جائیداد تھی پر آپ نے درس و تدریس کو اپنایا۔ تقریباً تین دہائیوں تک اردو اور فارسی کے معلم رہے۔ اس ضمن میں آپ سے انگریز افسروں کی ایک بڑی تعداد نے بھی استفادہ کیا۔

آپ وظائف، چلہ کشی، تعویذ، گنڈے اور جھاڑ پھونک کے قائل تھے اور حاجت مندوں کا یوں علاج بھی کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جن بھی اتارتے تھے۔ علاوہ ازیں شکار اور کبوتر بازی بھی پسندیدہ مشاغل تھے۔

ان کی تصانیف میں دو شعری مجموعے ً گفتار بے خود ً اور ًدر شہوار بے خودً کے علاوہ ً مراةالغالب ً (دیوان غالب کی شرح) اور ایک ناول ً ننگ و ناموسً ً شامل تھے۔

داغ کے انتقال پر مرزا خورشید نے آپ کو جانشینی کی پگڑی باندھی۔ آپ کو اس پہ بہت گھمنڈ تھا کہ داغ کے شاگردوں کے چاروں رجسٹر آپ کے پاس تھے۔ کسی بات کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کسر شان گردانتے تھے۔ ڈینگ مارنے میں بھی کمال تھا۔ نوے سال سے اوپر عمر پائی تھی۔ آخری عمر میں بہت لاغر ہو گئے تھے۔ رعشہ زدہ ہاتھوں میں ہزار دانہ پھر بھی ہوتا تھا۔ دلی کے اردو بازار میں واقع کتب خانہ کی محفل میں آخری عمر میں بھی باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔

آپ کی اولاد نرینہ میں بس ایک صاحبزادے تھے اور تین لڑکیاں۔ آپ کا انتقال 1955 میں 97 سال کی عمر میں ہوا اور درگاہ خواجہ باقی باللہ میں سپرد خاک ہوئے۔ اس کے فوراً بعد آپ کی اولاد پاکستان ہجرت کر گئی۔

بے خود کے لب بھی تر نہ ہوئے وقت مے کشی
آلودہ شراب گریبان ہی رہا

وضع کا پاس بھی ہے بے خود میخوار ضرور
کاگ بوتل سے نہ کیجئے سر بازار جدا

تڑپوں گا عمر بھر دل محروم کے لیے
کمبخت نامراد بچپن کا یار تھا

میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بے خود
میں ہوں اردو کا نظیری مجھے تو کیا سمجھا

آخر میں ان کا استاد کی مدح میں لکھا گیا شعر

انداز داغ کے سب الفاظ داغ کے سب
ان کے قلم سے نکلے میری زبان پر ہیں

سائل دہلوی

سائل کو تم نہ چشم حقارت سے دیکھنا
نواب پانچ پشت سے اس کا خطاب ہے

نواب سراج الدین احمد خان سائل داغ کے ممتاز شاگرد ہونے کے علاوہ ایک اور نسبت بھی رکھتے ہیں۔ داغ کی متبنٰی بیٹی لاڈلی بیگم کا عقد ثانی آپ سے ہوا تھا۔ وہ آپ کے چھوٹے بھائی ممتاز الدین احمد خان مائل کی بیوہ تھیں۔ عقد کے وقت آپ کی عمر 34 سال جبکہ لاڈلی بیگم 19 سال کی تھیں۔ اس طرح وہ داغ کے داماد ٹھہرے۔ لاڈلی بیگم سے آپ کی پانچ اولادیں ہوئیں۔ داغ کے قیام حیدرآباد کے دوران آپ بھی وہیں رہے۔ داغ کے حلقہ تلامذہ میں 1900 میں شامل ہوئے۔

1908 میں دلی آ گئے اور نگینہ محل فراش خانہ میں سکونت اختیار کی۔ آپ کے چچا اور مشہور شاعر الہی بخش معروف کی صاحبزادی امراؤ بیگم غالب سے منسوب تھیں۔ لوہارو اور غالب سے نسبت کی بناء پہ سائل کے خاندان کے لوگوں کو ان کا داغ کی شاگردی میں آنا پسند نہیں تھا۔ ان کے بڑے بھائی تاباں تو ایسی انتہا پر تھے کہ داغ کے کلام کو برملا بازاری کہا کرتے تھے۔

مشاعروں میں ترنم سے پڑھنے کی ابتدا آپ نے کی۔ انہوں نے دلکش ترنم کی ایسی دھاک بٹھائی کہ پھر یہ دستور مشاعرہ بن گیا۔ طبیعت بہت مرنجاں مرنج تھی۔ صلح کل کی تصویر ہونے کے باوصف مسلمانوں کی نسبت ہندو احباب زیادہ تھے۔

داغ کی وفات کے بعد کبھی دلی اور کبھی حیدر آباد میں رہے۔ 1938 کے اواخر میں ان کے کولہے کی ہڈی اچانک گر جانے سے ٹوٹ گئی۔ عرصہ تک حیدرآباد میں صاحب فاش رہے۔ پھر دلی چلے آئے لیکن آخری وقت تک معذور رہے۔ ان ایام کی تصویر حمیدہ سلطان بیگم نے ان الفاظ میں کھینچی ہے۔

جس دلی نے جوان و رعنا سائل کا بانکپن دیکھا اس نے یہ بھی چشم عبرت سے دیکھا کہ بوڑھے اور معذور سائل رکشہ پر بیٹھ کر روزانہ شام کو ایک چکر اردو بازار کا لگاتے۔ ملنے والوں سے مل لیتے۔ اپنی حالت پر خود بھی روتے اور دوسروں کو بھی رلاتے

آپ کا انتقال 15 ستمبر 1945 کو ہوا۔

ان کے ادبی مسلک میں زبان دانی سب سے مقدم تھی۔ مالک رام کے بقول اگر اردوئے معلٰی کا لطف لینا ہو تو ان کا کلام دیکھیے۔

داغ خمریات کا مضمون بہت خوب باندھتے تھے۔ جیسے یہ شعر
پوچھیے مے کشوں سے لطف شراب
یہ مزا پاک باز کیا جانیں

اس بناء پہ بہت سے لوگوں کا یہ گمان تھا کہ وہ ضرور مے کش ہوں گے۔ نیاز فتح پوری کا خیال تھا کہ اس شعر کی بنا پہ نہیں مانا جا سکتا کہ داغ شراب نہیں پیتے تھے۔

کچھ زہر نہ تھی شراب انگور
کیا چیز حرام ہو گئی ہے

لیکن مالک رام کے بقول سائل یہ گواہی دیتے تھے کہ ایسا بالکل نہیں تھا اور انہوں نے شراب کبھی چکھی بھی نہ تھی۔

اب سائل کے کلام کا کچھ نمونہ۔
ہوتے ہی جواں ہو گئے پابند حجاب اور
گھونگھٹ کا اضافہ ہوا با لائے نقاب اور

تجھے نواب بھی کہتے ہیں شاعر بھی سمجھتے ہیں
زمانے میں ترا سائل بھرم یوں بھی ہے اور یوں بھی

یہ مسجد ہے یہ میخانہ تعجب اس پہ آتا ہے
جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور ہوں بھی

یہاں تک تو نبھایا میں نے ترک مے پرستی کو
کہ پینے کو اٹھائی اور لیں انگڑائیاں رکھ دی

کل شب کو بزم مے میں عدو مہماں نہ تھا
بگڑو نہیں خفا نہ ہو جانے دو ہاں نہ تھا۔

دل ہے مشتاق جدا آنکھ طلب گار جدا
خواہش وصل جدا حسرت دیدار جدا

شاعروں کے شاگرد ان کی عزت اور تکریم کے معاملے میں بہت جذباتی ہوا کرتے تھے اور اپنے استاد کو اپنے ہم عصروں کے درمیان سب سے ممتاز سمجھتے تھے۔ اس ضمن میں استاد ذوق کے نابینا شاگرد حافظ غلام رسول ویران کے اپنے استاد سے جذباتی لگاؤ کے قصے کافی مشہور ہیں۔

دلی جو اک شہر تھا، میں شاہد احمد دہلوی نے دلی میں زندگی کے انواع و اقسام کے انداز بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیے ہیں۔ ان کے مطابق سائل کو اگر یہ گھمنڈ تھا کہ وہ داغ کے داماد تھے تو بے خود کو یہ زعم تھا کہ وہ استاد کے چہیتے شاگرد تھے کیونکہ استاد نے اپنے شاگردوں کے چاروں رجسٹر انہیں دیے تھے۔ ان دونوں کی آپس میں کبھی نہیں بنی۔ دلی کے مشاعروں میں دونوں استادوں کے شاگردوں میں آئے دن جھگڑے ہوتے اور مار پیٹ تک نوبت جا پہنچتی۔ اس وجہ سے بھلے آدمیوں نے مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا۔ مگر عجیب مخاصمت تھی کی سائل کے بیٹے ان کی رضامندی سے بے خود سے اصلاح لیا کرتے تھے۔

ایسی طرفہ تماشا طبیعتیں رکھنے والی شخصیات کو یاد کرتے ہوئے حرف آخر کے طور پر اگر کچھ کہا جا سکتا یے تو وہ بزبان میر ہی ممکن ہے۔

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیئے گا
کہتے کسی کو سنیئے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments