خان عبدالغفار خان: ایک پر امن پٹھان


میں 1972 کی وہ سہ پہر کبھی نہیں بھول سکتا جب میں پشاور کے باغ جناح میں ہزاروں لوگوں کے ساتھ مل کر خان عبدالغفار خان کا انتظار کر رہا تھا جو افغانستان کی طویل ملک بدری کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ انتظار بسیار کے بعد جب ان کا ٹرک باغ میں داخل ہوا تو لوگوں نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ جب باچا خان سٹیج پر تشریف لائے تو دور سے وہ بہت نحیف و ناتواں دکھائی دے رہے تھے لیکن جب انہوں نے مائکروفون پکڑ کر بولنا شروع کیا تو وہ اتنے اعتماد سے بولے جیسے کوئی دلیر شیر چنگھاڑ رہا ہو۔ اس تقریر میں وہ سچ بولے۔ سارا اور پورا سچ جس میں کڑوا سچ بھی شامل تھا۔

باچا خان نے اپنی تقریر میں پاکستانی حکومت کو ہی نہیں بابائے قوم محمد علی جناح کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی کسی سیاسی رہنما کو کسی جلسے میں برسر عام محمد علی جناح پر اعتراض کرتے نہیں سنا تھا۔ اس تقریر کی ستم ظریفی یہ تھی کہ باچا خان جناح پر باغ جناح میں تنقید کر رہے تھے۔

باچا خان نے اپنی حق گوئی کی وجہ سے نیسلن منڈیلا کی طرح ربع صدی سے زیادہ قید و بند میں گزاری۔ فوت ہونے سے بھی چند سال پیشتر وہ اپنے گھر میں نظر بند رہے کیونکہ انہوں نے ضیا الحق کی فوجی آمریت پر تنقید کی تھی۔ عوامی شاعر حبیب جالب کی طرح باچا خان بھی ایک ایسے عوامی لیڈر تھے جو عمر بھر کسی بادشاہ ’کسی ڈکٹیٹر یا کسی جرنیل سے خوف زدہ نہ ہوئے۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر حق بات کہتے تھے اپنے سچ کا برملا اظہار کرتے تھے اور پھر اس سچ بات کہنے کی سزا کے لیے تیار بھی رہتے تھے۔

باچا خان نہ صرف خود ایک امن پسند پٹھان تھے بلکہ وہ دوسروں کو بھی امن پسند پٹھان بنانے کے خواہش مند تھے۔

جب میں نے باچا خان کی سوانح عمری کا مطالعہ کیا تو مجھے پتہ چلا کہ وہ 1890 میں صوبہ سرحد میں اتمانزئی کے ایک متمول خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ایک جیالے بہرام خان کے چار بچوں میں سے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ بھی ایک محبت کرنے والی بڑے دل کی مہربان عورت تھیں۔ غفار خان کی ایک خوددار اور غیور پٹھان کی طرح پرورش کی گئی تھی۔

جب باچا خان سات برس کے تھے تو انہوں نے ملا مستان کے بارے میں سنا تھا جو پٹھانوں کو برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت کے لیے تیار کر رہے تھے۔ ملا مستان گاؤں گاؤں جا کر پر جوش تقریریں کرتے تھے اور پٹھانوں کو باغیانہ فوج میں شرکت کی دعوت دیتے تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ملا مستان نے اپنی جوشیلی تقریروں سے متاثر ہو کر دس ہزار پٹھانوں کی فوج تیار کرلی اور برطانوی فوج کے خلاف حملے کرنے شروع کر دیے۔ یہ علیحدہ بات کہ ملا مستان آزادی کی جنگ میں کامیاب نہ ہوئے کیونکہ وہ قبل از وقت تھی لیکن ملا مستان کی فوج اور جنگ نے سات سالہ باچا خان کے ذہن پر دیر پا اثرات چھوڑے۔

جب باچا خان نوجوان تھے تو ان کے سکول نے انہیں برطانوی فوج کے سپاہی کے طور پرچنا۔ بعض خاندانوں کے لیے وہ ایک اعزاز کی بات ہو سکتی تھی لیکن باچا خان نے برطانوی فوج میں شرکت سے انکار کر دیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ برطانوی فوج آزاد پٹھانوں کو غلام پٹھان بنا دیتی ہے۔

جب باچا خان جوانی کی حدود میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنی پٹھان روایت کا بنظر غائر مطالعہ اور تجزیہ کیا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ پختون روایت میں جہاں حق گوئی اور سخاوت جیسی مثبت اقدار شامل ہیں وہیں بدلہ لینے کی منفی روایت بھی شامل ہے۔ کئی پٹھان بدلہ لینے کو اپنی غیرت کا حصہ سمجھتے ہیں۔ جب ایک قبیلے کا ایک فرد کسی دوسرے دشمن قبیلے کے ایک فرد کو قتل کر دیتا تھا تو دوسرا قبیلہ اس وقت تک چین سے نہیں سوتا تھا جب تک وہ پہلے قبیلے کے کسی فرد کو قتل کر کے بدلہ نہ لے لے۔ بعض قبائل میں بدلہ لینے کی یہ روایت کئی نسلوں تک چلتی رہتی تھی اور اگر جلد بدلہ نہ لیا جاتا تو وہ قبیلہ ندامت و خجالت محسوس کرتا تھا۔

باچا خان نے بدلہ لینے کی روایت کو دل سے دور کر دیا لیکن آزادی سے محبت کی روایت کو دل کے قریب لے آئے۔ انہوں نے منتقم مزاجی کو خیرباد کہہ کر آزادی کی روایت کو اپنی غیرت کا حصہ بنا لیا۔ یہ پٹھانوں کی آزادی سے دوستی اور محبت ہی تھی کہ انہوں نے برطانوی فوج اور حکومت کو کبھی اپنے آپ پر غلبہ پانے نہ دیا اور تاریخ کی کتابوں میں درہ خیبر آزادی ’خود داری اور حمیت کا استعارہ بن گیا۔ پٹھانوں نے طویل مدت تک برطانوی فوج کے خلاف گوریلا جنگیں لڑیں اور برطانوی حکومت کو ہرایا۔ باچا خان باقی پٹھانوں کی طرح جانتے تھے کہ غیرت کی زندگی آزادی کی زندگی ہے۔ وہ جوش کے اس قطعے پر عمل پیرا تھے

؎ سنو اے ساکنان خاک پستی
صدا یہ آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے

باچا خان نے جب اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تو حالات کا جائزہ لینے کے لیے وہ مختلف دیہاتوں میں گئے۔ انہیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ پٹھان قوم تعلیم سے عاری تھی۔ انہوں نے ایک اور سیاسی کارکن حاجی واجد کے ساتھ مل دیہاتوں میں بچوں اور بچیوں کی تعلیم کا اہتمام و انتظام کرنا شروع کیا۔ بدقسمتی سے باچا خان کی اس خواہش اور کوشش کو برطانوی حکومت نے غداری سمجھا اور انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔

باچا خان کو برطانوی حکومت سے شکایت نہ تھی انہیں شکایت تھی تو ان مولویوں سے جو سکولوں کی تعلیم اور وہ بھی لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم کے خلاف تھے۔

باچا خان نے جب سیاسی زندگی کے چند اور مراحل طے کیے تو انہوں نے پٹھانوں کی آزادی کی جدوجہد کو پورے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد سے جوڑا اور کانگریس کے لیڈروں سے ملنے کے لیے مختلف شہروں کا سفر کیا۔ اس سفر کے دوران ان کی ملاقات جواہر لعل نہرو ’سردار پٹیل‘ ابوالکلام آزاد اور موہن داس گاندھی سے ہوئی۔

موہن داس گاندھی سے ملاقات کے بعد باچا خان نے فرمایا کہ جب گاندھی نے مجھے اپنے عدم تشدد کے خیالات اور امن کے نظریات سے متعارف کروایا تو میرا زندگی کا فلسفہ بدل گیا اور ان سے ملاقات میری زندگی میں ایک انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

1920 میں باچا خان نے انڈین نیشنل کانگریس کی میٹنگ میں شرکت کی۔ بدقسمتی سے اس میٹنگ کی شرکت کو برطانوی حکومت نے غداری سمجھا اور باچا خان کو قید میں ڈال دیا۔

جب باچا خان کو 1924 میں جیل سے رہا کیا گیا تو ہزاروں لوگ ان کا خیر مقدم کرنے آئے۔ اس وقت انہوں نے ایک تاریخی تقریر کی اس تقریر میں انہوں نے فرمایا کہ اگر کسی شیر کے بچے کی بھیڑوں کے بچوں کے ساتھ تربیت کی جائے گی تو وہ بھی جلد یا بدیر بھیڑوں کے بچوں کی خصوصیات اپنا لے گا۔ انہوں نے پٹھانوں سے کہا کہ وہ شیر کے بچے ہیں جنہیں برطانوی حاکم بھیڑ کے بچے بنانا چاہتے ہیں۔

باچا خان نے موہن داس گاندھی کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے خدائی خدمت گاروں۔ کی ایک تحریک چلائی۔ اس تحریک میں شامل ہونے والے پٹھانوں نے یہ وعدہ کیا کہ وہ خدا کی رضامندی کے لیے انسانوں کی خدمت کریں گے۔ ان کا موٹو تھا۔

service of God through service of his people
باچا خان نے شہنشاہانہ زندگی چھوڑ کر درویشانہ زندگی اختیار کر لی۔

وہ کھدر کے کپڑے پہنتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی اپنے گاؤں کے سکولوں میں غریبوں کے بچوں کے ساتھ پڑھاتے تھے۔

باچا خان موہن داس گاندھی کے فلسفے پر اس حد تک محبت اور عقیدت سے کاربند ہوئے کہ لوگ انہیں سرحدی گاندھی کہنے لگے۔ انہوں نے پٹھانوں کی تربیت کی وہ داخلی جارحیت اور خارجی تشدد سے کنارہ کش ہو کر امن کا راستہ اختیار کریں۔ انہوں نے خدائی خدمت گاروں کو خدمت خلق کرنے جانے کے لیے سرخ یونیفارم بنوائے۔

باچا خان پٹھان عورتوں کی تعلیم کے حق میں تھے اور پٹھانوں سے فرمایا کرتے تھے کہ جو تعلیم اور آزادی اپنے لیے چاہتے ہو اس تعلیم سے اپنی عورتوں کو محروم نہ کرو۔

گاندھی باچا خان سے بہت متاثر تھے اور ان کی پرامن کوششوں کو بہت سراہتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے فرمایا تھا برطانوی پر امن پٹھان کو پر تشدد پٹھان سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں

پاکستان بننے کے بعد باچا خان پاکستانی حکومتوں سے مایوس ہوئے کیونکہ ان حکومت نے صوبہ سرحد میں عورتوں کی تعلیم کا تسلی بخش انتظام نہیں کیا۔ باچا خان نے ایک سیکولر پاکستان کے لیے جدوجہد کی اور نیشنل عوامی پارٹی بنائی جس کی قیادت ان کے بیٹے ولی خان نے کی۔

باچا خان آخری عمر تک آزادی جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے پرامن جنگ لڑتے رہے۔

1988 میں باچا خان 98 برس کی عمر میں فوت ہوئے۔ ان کی وصیت تھی کہ ان کی لاش کو کابل لے جایا جائے اور افغانستان میں دفن کیا جائے۔ ان دنوں مجاہدین اور روسی فوج کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہوا تھا۔ یہ تو باچا خان کی سیاسی عظمت کی کرامت تھی کہ ان کے احترام میں جنگ کو ایک دن کے لیے روک دیا گیا تاکہ باچا خان کو پرامن طریقے سے دفن کیا جا سکے۔

باچا خان کی کہانی بیسویں صدی میں امن کی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ ان کی کہانی ایک ایسے حریت پسند امن دوست سیاسی لیڈر کی کہانی ہے جس نے نیلسن منڈیلا کی طرح ربع صدی سے زیادہ سال جیل کی کوٹھڑی میں گزارے۔

اگرچہ باچا خان کو ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے
prisoners of conscience

کی فہرست میں شامل کیا تھا لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں امن کا نوبل انعام بھی ملنا چاہیے تھا۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail