کوئی نہیں رمضان تو گزر ہی جانا ہے


”کوئی نہیں رمضان تے لنگھ ای جانا اے“ (کوئی نہیں رمضان تو گزر ہی جانا ہے) یہ الفاظ تھے نیوز چینل کے مالک کے جس کے چینل میں فروری کی تنخواہیں آدھا رمضان گزر جانے کے باوجود نہیں آئی ہیں۔ چینل کا نام لکھ کر معزز مدیران کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہ رہا۔ اس تحریر کو تجزیہ یا لفظوں کا کھیل سمجھنے کے بجائے ”آپ بیتی“ شمار کیا جائے۔ اس آپ بیتی میں کسی سیاستدان، کسی میڈیائی سیٹھ کو کوسنے کے بجائے میں بطور صحافی، ساتھی ورکروں اور صحافیوں کے حقوق کی علمبردار تنظیموں کے ہمارے ساتھ کیے جانے والے کھلواڑ میں کریہہ خاموشی کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔

سال دو ہزار نو کی گرمیوں میں بہا الدین زکریا یونیورسٹی کے ہاسٹل ابوبکر ہال کے بالکل سامنے موجود بس سٹاپ پر سکھ چین کی چھاؤں میں کھڑے کھڑے لیا گیا وہ ایسا فیصلہ جس پر مجھے آج بھی پچھتاوا ہے۔ میں جو یونیورسٹیوں اور ان کے شعبہ جات کی داخلہ پالیسی سے بے خبر اپنے رشتہ دار کے ہمراہ ملتان کی بہا الدین زکریا یونیورسٹی پہنچا تو میری ترجیح اور رجحان ایم اے انگلش کرنے کا تھا۔ مگر شعبہ انگریزی کی میرٹ لسٹ میں ٹائم تھا اور شعبہ ابلاغیات یعنی کہ ماس کمیونیکیشن کی میرٹ لسٹ اسی روز لگ گئی تو مجھے وہاں موجود سینئر اور رشتہ دار نے یہی مشورہ دیا کہ یہ نہ ہو شعبہ انگریزی کی میرٹ لسٹ میں بھی نام نہ آئے اور شعبہ ماس کمیونی کیشن کے داخلہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھوں۔ یوں بھائی کے ساتھ مشورہ کرنے کے بعد شعبہ ماس کمیونی کیشن کو چنا، جس پر پچھتاوا اس تحریر کو لکھنے تک موجود ہے۔

جیسے تیسے ڈگری کرنے کے بعد عملی صحافت کے لئے جب لاہور پہنچا تو پتہ چلا کہ یہاں تو انٹرن شپ بھی آپ کو کسی سفارش کے بغیر نہیں ملتی ہے۔ اگر آپ انٹرن شپ کرنا چاہتے ہیں تو کسی بھی نیوز چینل کے استقبالیہ تک بھی پہنچنے کے لئے اس استقبالیہ سے پہلے موجود گارڈز کو اندر موجود کسی نہ کسی شخصیت کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ یوں چھ مہینے تک خواری کے بعد ایک الیکٹریشن کی سفارش پر مجھے ایک نیوز چینل میں انٹرن شپ ملی۔ اس انٹرن شپ کے بعد یہاں ہی نوکری ملی اور اس وقت بھی 5 سے 6 تنخواہیں نیچے لگوانے کے بعد دوسرے چینل میں چلا گیا۔ یہ تنخواہیں ابھی تک ادا نہیں کی گئی ہیں اور اس دوران تف ہے کہ کسی بھی صحافتی تنظیم، کسی پریس کلب، کسی بھی پی، ایف، آر، س، ش یو جے نے اس چینل میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر کوئی احتجاج کیا ہو، یا جیسے پنجابی میں کہتے ہیں ”چوں“ تک بھی کی ہو۔

وہ کہتے ہیں نا کہ آغاز اچھا نہ ہو تو پھر اس آغاز سے چمٹنے والی نحوست سائے کی طرح آپ کے ساتھ رہتی ہے۔ نوائے وقت گروپ کے وقت نیوز اور دنیا میڈیا گروپ کے لاہور نیوز سے بدقسمتی نے پھر میرے موجودہ چینل میں لے آ پھینکا۔ یہاں چند مہینوں تک تو تنخواہیں دی جاتی رہیں مگر حکومت کے تبدیل ہوتے ہی اشتہارات نہ ملنے اور فنڈز نہ ہونے کے نام پر مہینوں تنخواہیں نہ دینے اور کارکنوں سے اچانک بلا کر استعفی طلب کیے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران میں اور میرے دیگر ساتھی کبوتر کی طرح بلی کے سامنے آنکھیں موند کر بیٹھے رہے۔ جن جن ساتھیوں نے تنخواہیں نہ ملنے پر بغاوت کا علم بلند کیا انہیں نکالا جاتا رہا، حتی کہ اکثر کے واجبات ابھی تک ادا نہیں کیے گئے۔ اس ادارے سے چمٹے رہنے کی صورت میں نتیجہ یہ نکلا کہ درجنوں تنخواہیں نیچے لگوا بیٹھے۔

وہ سیٹھ جو پہلے حکومت کی جانب سے اشتہارات کو بہانہ بنا کر تنخواہیں تاخیر سے دیتے تھے، انہوں نے اب فنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کو وجہ بتانا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ وتیرہ اپنایا کہ کسی صحافتی تنظیم کے لیڈر کو اگر ضمیر نے کچوکے لگائے اور وہ ہماری آواز اٹھانے کے لئے آیا تو مسئلے کو جڑ سے یوں ختم کیا گیا کہ اسی لیڈر کو ہی ادارے میں بھرتی کر لیا گیا۔ اس وقت یہ حکمت عملی چل رہی ہے کہ ایک ماہ اور بیس پچیس دن بعد ان افراد کو تنخواہ بھیج دی جاتی ہے جو ٹرانسمیشن کے لئے لازمی ہیں۔ یوں ہو یہ رہا ہے کہ ہر شعبہ میں سے ایک یا دو افراد تنخواہ ملنے کی وجہ سے آپ کے متبادل کے طور پر کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

دوسری جانب نیشنل پریس کلب ہو یا پھر لاہور اور کراچی پریس کلب، ایمرا ہو یا کوئی بھی صحافتی تنظیم کسی کی جانب سے بھی اس ظلمت کے خلاف آواز بلند نہیں کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب رائل نیوز تک بھی ہر ماہ تنخواہ دے رہا، اس ادارے میں نہ ہی وقت پر تنخواہیں دی جا رہی ہیں نہ ہی جو کٹوتیاں کی گئی تھیں واپس کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں ایک ورکر چینل کے مالک کے پاس تشریف لے گیا اور فروری کی تنخواہ نہ آنے اور ماہ رمضان کے تقدس کے تحت اپنی مجبوری بیان کی تو آگے سے ٹکا سا جواب ملا جو میں اس تحریر کے ابتدائیہ میں بیان کرچکا ہوں۔ اللہ بھلا کرے پاکستانی مخیر حضرات کا جو مساجد میں سحر افطار کا بندوبست کر دیتے ہیں، اسی وجہ سے میرے جیسے کئی اور صحافتی ورکروں کے پیٹ کا دوزخ بھر رہا ہے۔ ورنہ تو شاید ہمارے گھٹ گھٹ کر مرنے کی بھی خبر تک نہ ہو کسی کو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments