جب عثمانی سلطنت توڑتے توڑتے روس گرم پانیوں تک پہنچا

وقار مصطفیٰ - صحافی و محقق، لاہور


بحیرہ اسود یا بلیک سی روس کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ ترکی کے اندرونی پانیوں آبنائے باسفورس اور ڈارڈینیلز کے ذریعے بحیرہ مارمارا، بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس کو تجارتی راستے فراہم کرتا ہے۔

روس دنیا میں اناج برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور یہ بحیرہ اسود کے گرم پانیوں پر واقع بندرگاہوں ہی کے ذریعے ممکن ہوتا ہے کہ روس سارا سال دنیا بھر میں کہیں بھی اپنا سامان بھیجنے کے قابل ہوتا ہے۔

روس اور یوکرین ترکی کے سمندری ہمسائے ہیں جو اسے اناج فراہم کرتے ہیں جبکہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ترکی کا روس پر ہی دارومدار ہے۔

بحیرہ اسود کو روسی ’چرنوئے مور‘ پکارتے ہیں اور ترک اسے ’کارادینیز‘ کہتے ہیں۔ نام کا اختلاف تو اپنی جگہ مگر بحیرہ اسود کی سٹریٹیجک (تزویراتی) اور معاشی اہمیت پر دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ سال بھر تجارت کے امکان کے باعث، بحیرہ اسود کی بندرگاہوں پر تسلط کی جدوجہد ان دونوں ممالک میں صدیوں سے جاری ہے۔

17ویں سے 19ویں صدی تک بحیرہ اسود کے گرم پانی روسی اور ترک (عثمانی سطنت) کے درمیان جنگوں کا باعث رہا ہے۔ اس دورانیے میں روسی اور ترک سلطنتوں کے درمیان دشمنی قفقاز، کریمیا اور جزیرہ نما بلقان تک پھیلی ہوئی تھی، جس نے بحیرہ اسود کے طاس میں ان ممالک کے فوجی اور اقتصادی مفادات کو اجاگر کیا۔

ابتدائی روس، ترک جنگیں زیادہ تر روس کی طرف سے بحیرہ اسود پر گرم پانی کی بندرگاہ قائم کرنے کی کوششوں سے شروع ہوئیں۔

دانشور اور تقابلی مؤرخ ایڈریان برسکو کا کہنا ہے کہ روسی ایمپائر اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان چار صدیوں پر محیط لڑائیاں پیچیدہ تعلقات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

’علاقائی اور تجارتی تنازعات اور جنگوں سے جنم لیتے اِن تعلقات کو سفارتی چپقلش اور کبھی کبھار فوجی اتحاد کے ذریعے برقرار رکھا گیا۔ 16ویں صدی کے آغاز میں سلطان بایزید دوم کے دور حکومت میں دوستانہ طور پر شروع ہونے والے یہ تعلقات روسی ایمپائر کی جانب عثمانیوں کے ابتدائی اور طویل تسلط کو ظاہر کرتے ہیں، جو 16ویں صدی کے اوائل سے 18ویں صدی کے آخر تک جاری رہا۔‘

روسی زار آئیوان دی ٹیریبل نے ’کازان‘ اور ’استراخان‘ فتح کیا تو عثمانی سلطان سلیم دوم نے سنہ 1569 میں استراخان میں ایک فوجی مہم بھیج کر روسیوں کو نچلے وولگا سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی۔

17ویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کی حدود

17ویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کی حدود

جینٹ مارٹن کا ’میڈیول رشیا‘ میں کہنا ہے کہ ’عثمانی فوج استراخان پر قبضہ نہ کر سکی۔ عثمانی بحری بیڑا (بحیرہ اسود سے جڑے) بحیرہ ازوف میں تباہ ہوگیا۔ دونوں فریقوں کے درمیان امن معاہدے سے وولگا پر روس کا قبضہ پکا ہوا، لیکن سلطنت عثمانیہ کو بھی کئی تجارتی فوائد حاصل ہوئے۔ عثمانی باج گزار کریمیائی خانات نے روسی زاریت میں اپنی توسیع جاری رکھی، لیکن 1572 میں مولودی کی جنگ میں اسے شکست ہوئی۔‘

روس اور ترکی کے درمیان اگلا تنازع 100 سال بعد یوکرین کی سرزمین پر شروع ہوا۔

’سلطنت عثمانیہ کی معاشی اور سماجی تاریخ‘ میں مصنفین ثریا فاروقی، بروس میک گوون اور سیوکیٹ پاموک نے لکھا ہے کہ روس نے پولینڈ کے خلاف جنگ (1654-1667) کے بعد نیپر دریا کے بائیں کنارے کے یوکرین کو فتح کیا اور سلطنت عثمانیہ نے پولینڈ کے خلاف جنگ (1672-1676) کے دوران دائیں کنارے کے یوکرین پر اپنی حکمرانی پھیلا دی۔

گابورکارمن اور لوروکنچوچ نے لکھا ہے کہ ’1676 میں روسی فوجیوں نے چیگیرین پر قبضہ کر لیا اور ڈوروشینکو کا تختہ الٹ دیا۔ ایک بار شکست کے بعد 1678 میں عثمانی فوج بالآخر چیگیرین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن اس پر شمال مشرق کی طرف عثمانیوں کی توسیع روک دی گئی۔ 1679-80 میں، روسیوں نے کریمیائی تاتار حملے پسپا کر دیے اور 13 جنوری 1681 کو ایک معاہدہ پر دستخط کیے، جس سے نیپر دریا کے ساتھ روس، ترک سرحد قائم ہو گئی۔‘

ایڈورڈ جے فلپ کا کہنا ہے کہ سویڈن کے ساتھ جنگ کے لیے روس کی تیاریوں اور دوسرے ممالک کے ترکی کے ساتھ 1699 میں کارلووٹز معاہدہ پر دستخط کی روشنی میں، روسی حکومت نے 1700 میں سلطنت عثمانیہ کے ساتھ ’قسطنطنیہ معاہدہ‘ کر لیا۔ امن کے دوران روس ازوف کو اپنے ساتھ جوڑتے ہوئے بحیرہ ازوف تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

بلیک سی

کیتھال جے نولان نے لکھا ہے کہ سویڈن اوراس کے حامی کوسیک اتمان ایوان مازیپا کی پولٹاوا کی جنگ میں روسیوں کے ہاتھوں شکست کے بعد سویڈن کے 12ویں چارلس نے عثمانی سلطان احمد کو نومبر 1710 میں روس کے خلاف اعلان جنگ پر آمادہ کیا۔

گرم پانیوں تک رسائی کی پالیسی والے روسی حکمران پیٹر دی گریٹ کی پروٹ مہم ناکام رہی۔ زار کی قیادت میں روسی فوج کو ایک اعلیٰ ترک تاتاری فوج نے گھیر لیا اور اسے نامساعد حالات میں امن پر راضی ہوتے ہوئے پہلے سے قبضے میں لیے گئے ازوف کو سلطنت عثمانیہ کو واپس کر نا پڑا۔

سترھویں صدی کے آخر تک، ایرانی صفوی خاندان، جو دونوں سلطنتوں کا ہمسایہ تھا اور صدیوں سے ترکی کا سب سے بڑا حریف رہا تھا، زوال پذیر تھا۔ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، روس اور سلطنت عثمانیہ نے موجودہ آذربائیجان اور شمالی ایران پر مشتمل ان کے علاقے کو فتح کر لیا۔

روس نے 1732 اور 1735 میں فارس (ایران) کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کیے۔ شمالی اور جنوبی قفقاز اور شمالی ایران میں 1722 سے حاصل کیے گئے تمام ایرانی علاقے واپس کر دیے، اور فارس کے اُبھرتے رہنما نادر شاہ کے ساتھ جنگ سے گریز کیا۔ فارس سلطنت عثمانیہ کے ساتھ حالت جنگ میں تھا۔ ان معاہدوں سے ترکی کے خلاف روس، ایرانی اتحاد قائم ہو گیا۔

’دی پیس آف پاسرووٹز‘ میں لکھا ہے کہ مئی 1736 میں، روسی فوج نے جزیرہ نما کریمیا پر حملہ کیا اور اس کے دارالحکومت کو جلا ڈالا۔ جنرل پیٹر لیسی کی سربراہی میں روسی فوج نے ازوف پر قبضہ کر لیا۔

جولائی 1737 میں، اوچاکوف کے عثمانی قلعے پر حملہ کر دیا گیا۔ اسی مہینے لیسی فوج نے کریمیا میں پیش قدمی کی، کریمیائی خان کی فوج کو کئی شکستیں دیں اور کاراسوبازار پر قبضہ کر لیا۔ تاہم لیسی اور ان کے سپاہیوں کو سامان کی کمی کی وجہ سے کریمیا چھوڑنا پڑا۔

نیمروف کانگریس کے مطابق آسٹریا نے جولائی 1737 میں ترکی کے خلاف جنگ شروع کی لیکن اسے کئی بار شکست ہوئی۔ اگست میں، روس، آسٹریا اور ترکی نے نیمروف میں مذاکرات شروع کیے، جو بے نتیجہ نکلے اور روسی فوج کو طاعون کی وبا کی وجہ سے اوچاکوف اور کنبرن چھوڑنا پڑا۔ سنہ 1739 میں میونچ فوج نے نیپر دریا عبور کیا، عثمانی فوج کو سٹاوچانی کے مقام پر شکست دی اور دو قلعوں پر قبضہ کر لیا۔

تاہم، آسٹریا کو ایک بار پھر سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں شکست ہوئی اور اس نے ایک علیحدہ امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اس معاہدہ اور سویڈن کے حملے کے خطرے کے باعث روس کو ترکی کے ساتھ بلغراد معاہدہ پر دستخط کرنا پڑے جس سے جنگ ختم ہو گئی۔

برائن ڈیوس نے لکھا کہ بلٹا میں ایک سرحدی واقعے کے بعد، سلطان مصطفیٰ سوم نے 1768 کو روس کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ ترکوں نے بار کنفیڈریشن کی پولش اپوزیشن فورسز کے ساتھ اتحاد قائم کیا، جبکہ روس کو برطانیہ کی حمایت حاصل تھی، جس نے روسی بحریہ کو بحری مشیروں کی پیشکش کی۔

سنہ 1771 میں مصر اور شام نے عثمانی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی، جبکہ روسی بحری بیڑے نے چشمہ کی جنگ میں عثمانی بحریہ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔

عثمانی سلطان عبد الحمید اول نے ایک ذلت آمیز معاہدے پر دستخط کر کے روس کے ساتھ جنگ کا خاتمہ کیا۔ معاہدے کے مطابق، روس نے بحیرہ ازوف کے ساحل پر قلعے، نیپر اور بگ دریاؤں کے درمیان کا علاقہ، اور سلطنت عثمانیہ میں جہاز رانی اور تجارت کی مراعات حاصل کیں۔ بوکووینا کو 1775 میں آسٹریا کے حوالے کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

ترکوں کی جنگی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانی

اصل ڈریکولا کون تھا اور اس کا سلطنت عثمانیہ سے کیا جھگڑا تھا؟

حوریم سلطان سے قُسم سلطان: بازار میں بِکنے سے عثمانی سلطانوں کی مائیں بننے تک

روس نے 1783 میں کریمیا کو اپنے ساتھ ملا لیا اور سلطنت عثمانیہ کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ روسی عزائم کا سامنا کرتے ہوئے، عبد الحمید نے 1787 میں جنگ کا اعلان کیا، جو ان کی موت کے بعد تک ختم نہیں ہوئی۔

روس کو 4.5 ملین روبل اور دو اہم بندرگاہیں ملیں جن سے اسے بحیرہ اسود تک براہ راست رسائی ملی۔ یہ پہلی بار تھا کہ کوئی غیر ملکی طاقت عثمانی معاملات میں براہ راست مداخلت کر رہی تھی، کیونکہ اس معاہدہ سے روس کو بلقان میں ترکی کی آرتھوڈوکس عیسائی رعایا کے محافظ کا درجہ ملا تھا۔

منگو میلون نے لکھا ہے کہ اسی سال روس نے مشرقی جارجیا کو زیرنگین کر لیا۔ 1787 میں ملکہ کیتھرین دوم نے غیر ملکی درباروں کے نمائندوں اور اپنے اتحادی ہولی رومن شہنشاہ جوزف دوم کے ہمراہ کریمیا کا ایک فاتحانہ دورہ کیا۔ان واقعات نے استنبول میں رائے عامہ کو ہلا کر رکھ دیا۔

عثمانیوں نے روس سے کریمیا کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا۔ روس نے جنگ کا اعلان کر دیا، عثمانی تیاریاں ناکافی تھیں اور اس لمحے کا انتخاب غلط تھا، کیونکہ اب روس اور آسٹریا اتحادی تھے۔

مائیکل ہوشلنگر کا کہنا ہے کہ ترکوں نے آسٹریا کو مہادیہ سے نکال باہر کیا اور بنات پر قبضہ کر لیا۔ عثمانی جرنیل نااہل تھے اور فوج باغی تھی۔ بینڈر اور اککرمین کی مہمیں ناکام ہو گئیں، بلغراد کو آسٹریا نے اپنے قبضے میں لے لیا۔

الیگزینڈر سووروف کی سربراہی میں روسی فوج نے ریمنک کی جنگ میں ترکوں کو شکست دی اور ازمیل پر قبضہ کر لیا۔ عناپا کے سقوط سے عثمانیوں پر آئی آفات کا سلسلہ مکمل ہوا۔ روسی بحیرہ اسود کا بحری بیڑا ایڈمرل اوشاکوف کی کمان میں صرف چند سال پہلے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نے ترکی کے بحری بیڑے کو شکستوں کے ایک سلسلہ کے بعد بحیرہ اسود پر قبضہ کر لیا۔

سلطان سلیم سوم امن قائم کرنے سے پہلے فتح کے ذریعے اپنے ملک کے وقار کو بحال کرنے کے لیے بے چین تھے، لیکن ان کی فوجوں کی حالت نے اس امید کو ناکام بنا دیا۔ ترکی نے 31 جنوری 1790 کو پرشیا کے ساتھ امدادی معاہدہ کیا، لیکن ڈگلس گبلر کے مطابق جنگ کے دوران اسے کوئی مدد نہیں ملی۔

گابر اگوسٹن اور بروس ایلن ماسٹرز نے لکھا ہے کہ 9 جنوری 1792 کو روس کے ساتھ ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے، جس کے تحت کریمیا اور اوچاکوف کو روس کے حوالے کر دیا گیا، نیسٹر کو یورپ کا سرحدی علاقہ بنا دیا گیا، اور ایشیائی سرحد میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔

گابر اگوسٹن نے روس کے مقابلے میں عثمانی طاقت کے زوال کی وجہ ان کی فوج میں چودھویں صدی کے آخر میں قائم ہونے والے ’جاں نثاروں‘ کو قرار دیا ہے۔

انھوں نے سلطنت عثمانیہ اور روس میں فوجی تبدیلی، 1500-1800′ میں لکھا ہے کہ ان تمام معاہدوں اور جدیدیت کی کوششوں کے باوجود، جاں نثار اور ان کے اتحادی سلطان سلیم سوم کی اصلاحات کو پٹڑی سے اتارنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں تک کہ خود ’کافر سلطان‘ کو قتل کر دیا۔ محمود دوم جنھوں نے 1826 میں جاں نثاروں کوختم کر دیا تھا، 1830 کی دہائی تک بنیادی اصلاحات کا آغاز نہ کر سکے۔

فرانس کے اکسانے پر سلطنت عثمانیہ نے ایک نئی جنگ شروع کی۔ روس کے ساتھ یہ چھ سالہ جنگ، روس، فارس جنگ، روس، سویڈن جنگ اور چوتھے اتحاد کی جنگ کے متوازی ہوئی۔ اس کے باوجود 1811 کی فیصلہ کن مہم میں کوتوزوف کی روسی فوج نے ڈینیوب پر عثمانی فوج کو شکست دی، امن معاہدہ کےتحت روس کو بیسارابیا مل گیا۔

ورجینیا اکسن اورکرسٹین ووڈہیڈ نے لکھا ہے کہ سلطنت عثمانیہ نے اٹھارویں صدی کے دوسرے نصف تک روس کے ساتھ فوجی برابری برقرار رکھی تھی لیکن 1820 کی دہائی تک عثمانی فوجیں جنوبی یونان میں یونان کی جنگ آزادی کو ختم کرنے میں ناکام رہیں۔ یورپ کی بڑی طاقتوں نے یونان کی آزادی میں مداخلت اور مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

ناوارینو کی جنگ اور روس، ترک جنگ (1828-29) کے بعد، جس میں روسی فوج نے سب سے پہلے بلقان کے پہاڑوں کو عبور کیا اور ایڈریانوپل پر قبضہ کیا، ترکی نے یونان کی آزادی اور قفقاز کے بحیرہ اسود کے ساحل کی روس کو منتقلی کو تسلیم کیا۔

اس طرح یونان جو سلطنت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا پہلا آزاد ملک بن گیا ۔روس اب تک بحیرہ اسود کے پورے شمالی ساحل کو محفوظ بنا چکا تھا۔ ترکی کے ساتھ اس کے بعد کی جنگیں عثمانی بلقان میں اثر و رسوخ حاصل کرنے، ڈارڈینیلس اور باسپورس آبنائے کا کنٹرول حاصل کرنے اور قفقاز تک پھیلنے کے لیے لڑی گئیں۔

ڈیوڈ سٹون نے لکھا ہے کہ روسی عزائم اور روس کے جنوبی کنارے پر اڈوں سے برطانیہ کو بحیرہ روم پر بحری تسلط اور برصغیر پاک و ہند کے زمینی راستے پر کنٹرول کا خوف لاحق ہوا۔

روسی زار نکولس اول نے 1853 میں کریمیا کی جنگ کے موقع پر زوال پذیر سلطنت عثمانیہ کو ‘یورپ کا مرد بیمار’ قرار دیا۔

انسائکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق جب 1853 میں، روس نے سینوپ میں عثمانیوں کے پورے بحری بیڑے کو تباہ کر دیا، تو برطانیہ اور فرانس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عثمانیوں کی طرف سے مسلح مداخلت ہی روس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کو روکنے کا واحد راستہ ہے۔

اگرچہ عثمانی اور روسی مخالف فریق تھے، اس کے باوجود آنے والی کریمیا جنگ کی جڑیں انگریزوں اور روسیوں کی دشمنی میں تھیں۔ جنگ 1856 کے پیرس امن معاہدہ کے ساتھ، روسیوں کے لیے ناموافق طور پر ختم ہوئی۔

مزید پڑھیے

ارطغرل اصل میں کون تھے؟

سلطنتِ عثمانیہ: تین براعظموں کے سلطان

قسطنطنیہ کی فتح، جسے یورپ آج تک نہیں بھولا

سلطنت عثمانیہ: جب نئے سلطان نے ’روتے روتے اپنے 19 بھائی مروا دیے‘

مونیکا پولے فریزرنے لکھا ہے کہ یورپیوں کو ترکی میں تجارتی مواقع نظر آنے لگے اور تجارت کے ذریعے آنے والی رقم میں بہت اضافہ ہوا۔ حکومت کو یکساں ٹیکس کے نظام سے بہت زیادہ اضافی رقم بھی ملی جس میں بہت کم بدعنوانی تھی۔ سلطان صوبائی عمال پر سخت گرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور خراج میں اضافہ ہوا۔

ڈوبنے کا منظر

1853 میں روس کی جانب سے سینوپ میں عثمانیوں کے پورے بحری بیڑے کو تباہ کرنے کا منظر

تاہم، ایلن پامر ‘سلطنت عثمانیہ کا زوال’ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت کے سلطان، عبدالعزیز نے اس رقم کا زیادہ تر حصہ انگلستان اور فرانس کے مقابلہ میں عظیم محلات بنانے اور ان کی تزئین وآرائش میں استعمال کیا، جن کا وہ دورہ کر چکے تھے۔ سلطنت ایک انقلاب سے گزر رہی تھی، اور پورے اناطولیہ میں ایک نئی عثمانی قوم پرستی نمودار ہو رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ سلطنت کا زوال روکا جا سکتا ہے۔

ڈیوڈسٹون ‘روس کی فوجی تاریخ’ میں لکھتے ہیں کہ فروری 1878 میں روسی فوج تقریباً عثمانی دارالحکومت تک پہنچ چکی تھی لیکن شہر کے سقوط کے خوف سے، برطانیہ نے روس کو ڈرانے کے لیے جنگی جہازوں کا ایک بیڑا بھیجا۔ برطانوی بحری بیڑے کے دباؤ میں، روس نے 3 مارچ کو سان سٹیفانو کے معاہدہ کے تحت ایک تصفیہ پر اتفاق کیا، جس کے ذریعے سلطنت عثمانیہ نے اپنے سابقہ صوبوں رومانیہ، سربیا اور مونٹی نیگرو کی آزادی اور بلغاریہ کی خودمختاری کو تسلیم کیا۔

یونانی بغاوت کے دوران، روسی سلطنت قفقاز میں عثمانی سرحدوں تک پہنچ گئی، جو اس خطے کے جنوب مغرب کے ساتھ ساتھ شمال مشرقی اناطولیہ میں واقع تھیں۔ ایک معاہدے کے تحت، سلطنت عثمانیہ نے مغربی جارجیا پر روسی خودمختاری کو تسلیم کیا، جو پہلے عثمانیوں کے زیر تسلط تھا، اور موجودہ آرمینیا پر روسی تسلط کو تسلیم کیا ۔

عثمانی سلطنت کو پہلی جنگ عظیم میں دھکیلنے والے اسماعیل اینور کو اپنی پوزیشن کے دفاع کے لیے روسیوں کے خلاف فتح درکار تھی، مگر بُری طرح شکست ہوئی۔ یوں روسی فوج نے مغرب میں ارزنکان تک پیش قدمی کر لی۔عثمانی فوج کو اگلی بڑی شکست 1916 میں ایرزورم کی جنگ میں ہوئی جس کے بعد روسی فوج نے پورے مغربی آرمینیا پر قبضہ کر لیا۔

آرمینیائی اور آذربائیجانی جمہوریہ دونوں 1920 میں سوویت یونین کا حصہ بن کر ختم ہو گئے اور اس کے اگلے ہی سال سوویت، ترک سرحد ماسکو معاہدے کے تحت قائم کی گئی ۔

روس، ترک جنگیں سلطنت عثمانیہ کے زوال کی عکاسی کرتی ہیں۔ان کے نتیجہ میں روس کا عثمانی علاقے میں اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور وہ اپنی یورپی سرحدوں کو جنوب کی طرف بحیرہ اسود تک، جنوب مغرب کی طرف دریائے پروٹ تک اور ایشیا میں قفقاز کے پہاڑوں کے جنوب تک پھیلانے میں کامیاب رہا۔

بحیرہ اسود ہی کے ذریعہ روس گرم پانیوں تک پہنچا جس سے یہ سیاسی اورتجارتی طاقت بنا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments