نکوہش بجا مجھے اپنی ذات پر


چھوٹی سی عمر میں مجھے بھی کیا خوب زندگی ملی۔ جسے ہر وقت دیکھ دیکھ کر تنہائی میں رہنا ہی سب سے اچھا لگتا ہے۔ روزمرہ زندگی کے کام نہ کرنے ہوتے اور ازدواجی زندگی کے فرائض ادا نہ کرنے ہوتے رشتے ناتے اگر نبھانے نہ ہوتے تو شاید میں کسی معاشرے کا حصہ نہ ہوتا کیونکہ یہ ساری ذمہ داریاں بنیادی زندگی کا احساس اور اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی بنیاد پر معاشرے میں دوسری چیزوں سے ہماری تقسیم ممکن ہوتی ہے اور پہچان کا سبب بنتی ہیں۔

شاید یہ ہی ہماری زندگی کی ایک کمزوری ہے۔ اسی لیے ہمیں ہر وقت اپنے ہونے کا احساس دلاتے رہنا پڑتا ہے۔ مگر دوسری طرف سے ہم یہ بھی جانتے ہیں اگر ہم اپنی زبان سے غلیظ القابات نہ بھی نکالے تو بھی ہمارا وجود اس کائنات میں رہے گا۔ اب سوال دو پیدا ہوتے ہیں ایک تو انسانیت اور دوسرا حیوانی رویہ جو بھی ہو معاشرے کی اچھی اور بری نگاہیں ہمیں اپنے ذہن میں عکس کی طرح اتارنے میں دیر نہیں کرتی ہیں۔ میں بات کچھ یوں کرنا چاہتا ہوں کہ با ظاہر ہم اپنے آپ کو اشرف المخلوقات کہلوانے والے اکثر درندہ صفت مخلوق ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔

وہ کیسے اب سوال تو بنتا ہے۔ ہم انسانوں میں بدلہ لینے کی تڑپ نیکی کرنے کے عمل پر ہزار گنا حاوی ہے۔ ہم اپنے ذات پر ہر ہونے والی انگلی کو برداشت کرنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی نا اہلی چھپانے کے لیے کسی بھی سفید پوش انسان کی زندگی میں اس کے خوابوں کا جنازہ نکالنے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔ میرے لحاظ سے یہ ہی بات مجھے مجبور کرتی ہے کہ مجھے معاشرے سے الگ کسی دور تنہائی والی جگہ پر اپنی زندگی کو آ باد کر لینا چاہیے۔

ویسے تو ہم انسان ایک دوسرے کو معاشرے کا حصہ اور معاشرہ تصور کرتے تھکتے نہیں ہیں۔ اور ساتھ ہی ایک دوسرے کے مال و دولت، عزت کے تقدس کو پامال کرنے میں دیر نہیں کرتے ہیں۔ کتنی مثالیں ہیں جو اس مقدس ماہ رمضان المبارک میں بھی روز ملتی ہیں۔ کہا چلا جاتا ہے ہمارا ضمیر کہا چلا جاتا ہے ہمارا کردار اور کہا چلا جاتا ہے ہمارا وہ ایوارڈ جو مالک نے صرف ہمیں ہی عطاء کیا ہے جسے ہم کہتے ہیں ہم اشرف المخلوقات ہیں۔ اگر میری بات میں حقیقت ہے اگر آپ اتفاق کرتے ہیں کہ میں سچ بول رہا ہو تو بتائیں مجھے ہم کیا کہلانے کے حق دار ہیں۔

میں تو سچ بولنا جانتا ہوں میری جو اوقات ہے مجھے اچھے سے پتا ہے۔ اور میں بتانے میں دیر نہیں کرتا ہوں میں کیا ہو میں کیسے پیدا ہوا میرا سبب کیا ہے بس ایک غلیظ اور بدبودار خطرہ جو چند لمحوں میں اپنی پہچان کھو دیتا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہو کہ میں ایک ریت کا ذرہ ہو خدا کی عزت کی خاطر ذرا سوچیں اور دیکھیں ہماری اخلاقیات کہا کھڑی ہے۔ ہم کیوں چند لوگو کے پیچھے اپنا سارا سرمایہ برباد کر لیتے ہیں جو ہم نے ایک عمر لگانے کے بعد حاصل کیا ہوتا ہے۔ کاش کوئی میرے لفظوں کے پیچھے چھپے درد کو پہچاننے کی کوشش کرتا۔ خدا کے لیے ہمیں اپنے معاشرے میں اپنے کردار کی حفاظت کرنا ہو گی نہیں تو ہمارے زندگی سے ہمارا سارا کچھ ہم سے چھین لیا جائے گا اور ہم کہیں کے نہیں رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments