شیما کرمانی حرفِ انکار کی تڑپتی مچلتی تصویر ہے


دشمن نے اپنے اہداف کے تعین میں کمال پایا ہے۔ بلھے شاہ نے کہا تھا، مسجد ڈھا دے مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کج ڈھیندا، ہک بندے دا دل نہ ڈھاویں، رب دلاں وچ رہندا۔ بھجن نواز چنچل نے راج کپور کی فلم میں لہک کر یہی تو کہا تھا، بیشک مندر مسجد توڑو، بلھے شاہ یہ کہتا ، پر پیار بھرا دل نہ توڑو، اس دل میں دلبر رہتا ہے۔ ان درویشوں کے اِس آفاقی کلام کا ترجمہ ممکن نہیں ہے، جو انسانیت کے احترام سے منور ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے طوائف کے نہان خانہِ دل کو خدا کے عرش کی صورت میں دیکھا ہے۔ دھتکارے ہوئے دلوں کو انہوں نے رقاصاوں کے گھنگھرو میں دھڑکتے سنا ہے۔ نوچے ہوئے جسموں کی لوح پر انہوں نے ازل کا وہ سچ پڑھا ہے، جو راتوں کا سکون اجاڑے رکھتا ہے۔ تبھی تو انہوں نے بہت اندھیرے میں چراغ طور جلانے کے لیے تیل بھی زمانے کے انہی دھتکارے ہوؤں سے مانگا۔ خدا تک رسائی کے لیے انہی کی خلعتِ تار تار کو اوڑھنا اپنے لیے اعزاز سمجھا۔ زمانے بھر کو محیط اس مصرعے کو کون مفہوم کا جامہ پہنا سکتا ہے

کنجری بنیا عزت نہ گھٹدی۔ مینوں نچ کے یار مناون دے

درویش کی بات کو کسی ٹوٹے ہوئے دل کے معبد میں بیٹھا وہ درویش ہی سمجھتا ہے جو انسانیت کو کائنات کا سب سے بڑا مذھب اورمحبت کو اس کا کلیدی وظیفہ جانتا ہے۔ ایک درویش کہتا ہے جے تو رب نوں مناو نا، پہلے یار نو منا۔ سچل سرمست کی سرزمین سے دوسرا درویش لعل شہباز قلندر پکارتا ہے، انسان کی تکریم کے بغیر خدا کی تکریم نہیں ہوسکتی۔ درویش کا دل سچائی اور طلب کے الاو میں جلتا ہے۔ خشک علمیاں اس کی بھد اڑاتی ہیں۔ مگر اسے کیا فکر زمانے کی۔ وہ ایک بات جانتا ہے

نچنا وی عبادت بن جاندا

جے نچن دا چج ھووۓ

اودا رب نھی رسدا رب دی سوں

جینوں یار مناون دا چج ھووے

شیما کرمانی نچ کے یار مناتی ہے۔ جس کے ہاتھ میں بندوق ہے، وہ درویشوں کی آرام گاہیں ڈھا رہا ہے۔ جس کے ہاتھ میں قلم ہے وہ حضرت انسان کا دل ڈھا رہا ہے۔ شیما کرمانی حضرتِ انسان کا دل ہے۔ اس دل میں خدا بستا ہے۔ رنج یہ ہے کہ ہم انہیں جانا کیسا۔ آسودہ خانقاہوں میں دم بدم اللہ ھو کا ورد کرتے زاہدوں کے ہزار سجدوں سے بڑھ کر ہے وہ رقص، جو شیما کرمانی نے لعل شہباز قلندر کی آرام گاہ میں چھلنی روحوں کے روبرو کیا۔ فقیہانِ شہراس لیے حرف گیر ہیں کہ انہیں رقص میں جسم کی مشقیں نظر آئیں۔ وہ دیکھ سکتے، تو ضرور دیکھتے کہ یہ تو ایک طویل خاموشی کے بعد لعل شہباز قلندر کی روح کا احتجاجی مظاہرہ ہے جو انہوں نے شیما کرمانی کا جسم اوڑھ کر کیا۔

شیما کرمانی کا رقص دراصل کلمہِ حق کا مجسم پیکر ہے۔ یہ منصور کا انالحق کا نعرہ ہے جو اس نے سرِ دار لگایا تھا۔ شیما کرمانی کا رقص سقراط کے اس آخری عدالتی بیان کی تشریح ہے جس میں سقراط نے کہا تھا

“اگر تم سب یہ سمجھتے ہو کہ کسی شخص میں اگر سچ بولنے کی طاقت ہے اسے زندگی اور موت کا حساب رکھنا چاہیئے تو میرے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ سچے انقلابی کو موت سے خوف زدہ ہونے کی بجائے یہ فکر کرنی چاہیئے کہ اس کا موقف درست ہے کہ غلط ہے”

شیما کرمانی کا رقص مارٹن لوتھر کنگ کی وہ لازوال تقریر ہے جس کا عنوان I have a dream ہے۔ جس میں کنگ نے کہا تھا

“بزدلی حالات کے سامنے سر جھکا کر ہار ماننے کا نام ہے”

شیما کرمانی کا رقص دوسری جنگ عظیم کے دوران بحراوقیانوس میں گولی کھاکر ہفتوں لاپتہ رہنے کے بعد بازیاب ہونے والے کیپٹن ریکن بیکر کے الفاظ ہیں

’’جس بات کو کرنے سے آپ خوفزدہ ہیں، جرأت اُس پر عمل کر کے دکھا رہی ہے”

شیما کرمانی کا رقص تو دراصل قرۃ العین طاہرہ کے وہ اشعار ہیں جو ایران کے بادشاہ ناصرالدین قاچار کے دربار میں اس نے کچھ یوں کہے تھے

تو و ملک و جاہ سکندری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔من و رسم و راہ قلندری

اگر آن خوش است، تو در خوری۔۔۔اگر این بد است، مرا سزا

(تیرے پاس ملک، جاہ اور بادشاہی ہے، میں ہوں کہ میرے پاس قلندرانہ اطوار ہیں۔ اگر وہ بھلی چیز ہے، تو تجھے مبارک۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر یہ شے بری ہے، تو مجھے [یہ بدی] قبول ہے۔)

شیما کرمانی کا رقص توعثمان مروندی کے اس شعر کا لفظ بلفظ ترجمہ ہے

توآں قاتل کہ از بہرِ تماشہ خونِ من ریزی

من آں بسمل کہ زیرِخنجرِ خونخوار می رقصم

(تو وہ قاتل کہ فقط تماشے کے لیے میرا خون بہاتا ہے۔ میں وہ زخمی کہ خونخوار خنجر کے سائے میں رقصاں ہوں۔)

شیما کرمانی کا رقص ککلتہ کی عدالت میں انگریز مجسٹریٹ کے روبرو دیا جانے والا ابولکلام آزاد کا وہ بیان ہے جو تاریخ کی دستاویز میں جرات رندانہ کی روشن مثال کے طور پر “قول فیصل” کے عنوان سے درج ہے۔

ایک جملے میں خلاصہ یہ کہ “میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں”

شیما کرمانی کا رقص حرفِ انکار کا عکس ہے۔ شیما کرمانی کا رقص دل پہ گرے مظلوم کے لہو کا قرض ہے۔ ڈھول کی تھاپ پر نہیں، شیما کرمانی تلوار کی دھار پر رقص کرتی ہے۔ شیما نے یہ رقص تب بھی کیا تھا جب مملکت ضیا داد پاکستان میں جنرل ضیا الحق کے چھوڑے ہوئے محتسب کوڑے لیے پھرتے تھے۔ شیما نے یہ رقص اب بھی کیا کہ جب سیہون کے در و بام پر انسانیت بال بکھیرے ماتم کر رہی تھی۔

ہمارے تڑپتے ہوئے جذبات کو سمیٹ کرمجسم پیکر بنادیا جائے تو شیما کا رقص بنتا ہے۔ شیما کے تڑپتے رقص کو تحلیل کردیا جائے تو ہمارے جذبات بن جاتے ہیں۔ مگر فقیہ شہر اس رقص کو کتابی علم کی میزان پر تولتا ہے۔ وہ جامشورو یونیورسٹی میں خود کشی کرنے والی لڑکی کے لیے تشویش میں مبتلا ہے کہ حرام عمل کا ارتکاب ہوا، مگر خودکش حملے کرنے والوں پر کلام نہیں کرتا۔ شیما کے رقص اور زخمی روحوں کے دھمال کا ازروئے شریعت جائزہ لے رہا ہے، مگر قاتل کے لیے الفاظ چبائے بغیر چار حرف نہیں گوارا نہیں کر رہا۔ فقیہانِ بے توفیق کو یہ طرز ملامت مبارک۔ ہم کو شیما کا رقص بہت ہے

لکھ لکھ فتوے لا میرے تے

میں فیروی گھنگھرو پاواں گی

جے سجدے وچ نا ملیا تے

میں نچ کے یار مناواں گی

کالم ان اشعار پر ختم ہوگیا۔ خون بہنے کا سلسلہ مگر ابھی ختم نہیں ہوا۔ سامنے ٹی وی اسکرین پر بریکنگ نیوز کے ہتھوڑے برسنا شروع ہوگئے ہیں کہ چارسدہ کچہری میں خود کش حملہ ہوگیا ہے۔ چشم تصور سے دیکھتا ہوں کہ کوئی جوگی عثمان مروندی کا مصرع گنگنارہا ہے اور شیما کرمانی رقص کرتی ہیں

من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments