ماں کے پیر


خدا نے جناب آدم کو پیدا کیا تو جنت ان کا ٹھکانہ تھا۔ ایک شجر ممنوعہ سے انہوں نے بچنا تھا۔ باقی جنت ان کی اور ان کی اہلیہ محترمہ حوا کی تھی۔ مگر ناچیز کا ایک شعر کہ۔

خدا کا خوف تو دل کو بہت دہلا رہا تھا
مگر وہ ساتھ تھا جو راہبر پہلا رہا تھا

خدا بڑا اعلی ظرف خدا ہے۔ افسوس کہ اکثر کم ظرف اسے سمجھنے اور سمجھانے کے دعوے دار پائے جاتے ہیں۔ اپنی ذات کے تکبر میں آدم کو سجدہ نہ کرنے والا ابلیس بھی وہیں رکھ چھوڑا خدا نے کہ آزما لے اپنا ہنر۔ اور پھر داد دینی پڑتی ہے اس کے اس ہنر اور خود اعتمادی کو کہ کامیاب ہوا۔ اور اس شجر ممنوعہ سے رزق کے وہ دانے خدا نے زمین پر پھیلا دیے جن کو پانے اب آدم کو یہاں بھیجا گیا۔ نا چیز کی ایک تھیوری کے مطابق آدم جنت دیکھ کر آئے تھے سو اب آزمائش بھی یہی تھی ہر آدم زاد کی کہ اسے خدا کا نائب ہوتے ہوئے اس آسمانی جنت کو پانے کے لیے زمین پر اس کا پرتو قائم کرنا تھا۔ آدم تو دیکھ کر آئے تھے ان کے لیے تو کوئی نقشہ موجود تھا تخیل میں لیکن ہم آدم زادوں اور زادیوں کے لیے مشکل میں نے اپنے اس شعر میں بیان یوں کی کہ۔

کس طرح ہو کے عیاں سے یہ نہاں تک جاتی
اک مری چشم تصور تھی کہاں تک جاتی

یہ دقت مگر خدا نے آسان کر دی اور اپنی اتنی بڑی جنت کو سمیٹ کر دو قدموں تلے لا کر رکھ دیا۔ کہ اے ابن و بنت آدم تیری جنت ان پیروں تلے ہے جنہوں نے تیرا بوجھ تب تک برداشت کیا جب تک تیرے اپنے پاؤں اسے اٹھانے کے لائق نہ ہو گئے۔ سو خدا کی جنت کا حصول ماں کی ممتا کا حق ادا کر کے ہی ممکن ہے۔

ماں کے پاؤں زمین پر ہوتے ہیں۔ خاک آلود ہوتے ہیں۔ یہ وہی خاک ہے جس سے انسان کی تخلیق ہوئی۔ یہ وہی خاک ہے جس کو ابلیس نے خود سے کمتر جانا۔ یہ وہی خاک ہے جس پر ابلیس نے سجدے سے انکار کیا اور یہ وہی خاک ہے جس پر انسان کو اپنی پیشانی خدا کے در پر جھکانے کا حکم ہے۔ سو جنت خاکزاد ہونے میں ہے۔ خ سے خاک ہے خ سے خلق ہے خ سے خدمت اور خ سے خدا اس ترتیب کو نا سمجھے تو خ سے خود سری جس نے ابلیس و خ سے خراب کیا۔

خدا نے اولاد کی جنت ماں کے پیروں کے نیچے تو رکھی ہی تھی لیکن زمین پر آ کر کچھ آدم زاد یوں راندہ درگاہ ہوئے کہ خود اپنی جنتوں نے انہیں پیدا کر کے پھینک دیا۔ نہ جانے جنگلی جانوروں کی خوراک بنتے یا کسی طرح جی بھی اٹھتے تو زمین پر اپنی جنت ہی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے۔

ایسے میں خدا نے ایک آدم زاد کو اپنے عظیم ظرف میں سے توفیق کا وہ ذرہ عطا کیا کہ اس کی چشم تصور اس جنت تلک پہنچ گئی۔ اور اس نے زمین پر اسے یوں قائم کیا کہ وہ اپنے نام کے مصداق اس دھرتی پر واقعی ستار کا بندہ بن گیا۔ ایک بچے کی لاش کو نکالنے کے لیے وہ گندگی کے جوہڑ میں یوں اترا کہ زندگی بھر کے لیے معطر و مقدس ہو گیا۔ کیا ایمبولینسز اور کیا کفن دفن الغرض اس خدمت خلق کا کون سا کام تھا جو انہوں نے اس سر زمین پر نہیں کیا لیکن راقم کی طالب علمانہ نگاہ میں ایک کام ان کا سب پر بھاری تھا۔

وہ جن کے معصوم جسموں کو لوگ اپنے عیبوں کے پوتڑوں میں ڈال کر پھینک دیتے ہیں ان معصوموں کو اپنی آغوش میں ڈھانپ لینے والے جناب محترم عالی مقام مدظلہ عبدالستار ایدھی صاحب مرحوم ہاں ہاں واقعی ستار خدا کا ایک بندہ۔ دراصل یہ وہ اعلی ظرف لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو سمجھا اور اپنے عمل سے ہمیں سمجھایا۔ جناب آدم کو فرشتوں کا سجدہ وہ بھی لا شریک خدا کے خود اپنے حکم سے۔ جناب عبدالستار ایدھی اور محترمہ بلقیس ایدھی جیسے لوگوں کی زندگیوں کو دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے۔

سلام پیش کرتا ہوں اس ماں کو جن کے مبارک قدم یوں کچرے کے ڈھیروں پر پڑے بچوں کی طرف بڑھے، ایک ماں کی آغوش یوں ان بچوں پر وا ہوئی کہ خدا نے اس گود کو اور ان پیروں کو 45000 بچوں کی جنت بنا دیا۔ وہ پاکستان کے ان ہزاروں بچوں ہی کی نہیں ہم سب کی ماں تھی۔

کل وہ جب اپنے خالق حقیقی کے پاس واپس گئی ہوں گی تو وہاں جناب آدم بھی ہوں گے جناب رحمت اللعالمین ص بھی اور عبدالستار ایدھی بھی۔ طالب علم چشم تصور سے دیکھتا ہے کہ خدا نے فرشتوں کو کہا ہو گا کہ آج زمین سے ایک ایسی جنتی عورت آ رہی ہے جو اپنی جنت اپنے ساتھ لا رہی ہے۔ اس کی جنت اس انسانیت کی ماں کی آغوش ہے۔ خدا کی اس جنت نے محترمہ بلقیس ایدھی مرحومہ کو سلام پیش کیا ہو گا۔

ایک نظم ”ماں کے پیر“ محترمہ بلقیس ایدھی کے نام
۔ ماں کے پیر۔
اپنی اولاد کی جنت تو
ہوتی ہے ماں کے پاؤں تلے
ہر دھوپ سے مل جاتی ہے اماں
بس اپنی ماں کی چھاؤں تلے
لیکن میری اس دھرتی پر
اک ایسی ماں کی ہستی تھی
جس کی چھاؤں میں اوروں کے
بچوں کی جنت بستی تھی
وہ ماں آج ہم سے بچھڑ گئی
اس دنیا سے منہ موڑ گئی
اک جنت کو وہ ہوئی رواں
اک جنت پیچھے چھوڑ گئی
وہ لفظ کہاں سے لاؤں میں
جو اس کے شایاں کریں کلام
جنت اس ماں کے پیروں کو
خود کرتی ہو گی آج سلام


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments