رجیم چینج۔ قوم کو نیا وزیراعظم مبارک ہو


گزشتہ رات جب قومی اسمبلی میں عدم اعتماد پر ووٹنگ جاری تھی۔ ابھی پریس گیلری میں ہی تھا کہ گاؤں سے دوست سہیل اصغر کا میسج ملا۔ اس میسج میں وہی دیکھا، جو شاید اس وقت ہر پاکستانی کا دل محسوس کر رہا تھا۔ جس میں لکھا تھا کہ یار آج دل ٹوٹ سا گیا ہے۔ عمران خان اب وزیراعظم پاکستان نہیں رہے۔ کس طرح ہمارے منتخب کیے ہوئے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے ۔

8 مارچ کو متحدہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کروائی تھی۔

آخر کار 3 اپریل کو اجلاس بلایا، لیکن ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے آرٹیکل 5 کا استعمال کرتے ہوئے اسے بیرونی سازش قرار دیتے ہوئے، اس تحریک کو مسترد کر دیا۔ دوسری طرف وزیراعظم پاکستان عمران خان نے صدر مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج دی، جو صدر نے منظور کرلی۔ اس کے بعد اپوزیشن نے قانونی لڑائی لڑنے کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ یاد رہے کہ وہ دن اتوار کا تھا جس دن عدالت کھلی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال پانچ رکنی بنچ کے تحت اس کیس کی سماعت کرتے ہوئے جمعرات کو ساڑھے سات بجے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہیں۔ اور اسمبلی بحال کرنے اور ہفتہ والے دن عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم صادر فرمایا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے اسپیکر اسمبلی اسد قیصر نے اجلاس بلایا جو صبح دس سے لے کر رات گئے تک جاری رہا۔ حزب اختلاف شہباز شریف نے اور اس کے بعد شاہ محمود قریشی نے خطاب کیا۔ اجلاس چار دفعہ ملتوی ہوا، اور اسی دوران وزیراعظم ہاؤس میں کابینہ کا اجلاس ہوا، اور عمران خان نے سینئر صحافیوں سے ملاقات بھی کی۔ آخر کار اجلاس 10 بج کر چالیس منٹ پر دوبارہ شروع ہوا، جس میں اسپیکر اسمبلی نے اپنے حلف کی پاسداری کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسپیکر کے عہدے سے استعفی کا اعلان کیا۔

وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمد خان کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے تمام رکن ایوان سے واک آؤٹ کر گئے، اسد قیصر کے استعفی کے بعد لیگی رکن اور چیرمین پینل ایاز صادق نے عدم اعتماد پر کارروائی مکمل کروائی، جس پر منحرف ارکان کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف 174 ووٹ آئے۔ 11 اپریل والے دن ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیرصدارت وزیر اعظم کے انتخاب کے لئے اجلاس جاری ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے تقریر کرتے ہوئے تحریک انصاف کے تمام ارکان اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ جس کے بعد دوبارہ چیئرمین پینل ایاز صادق کی زیرصدارت قائد ایوان وزیراعظم کے انتخاب کے لئے ووٹنگ کروائی گئی۔ جس کے نتیجے میں اپوزیشن کے لیڈر اور صدر مسلم لیگ نون میاں شہباز شریف 174 ووٹ لے کے پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔

جس کے بعد زرداری اور شہباز شریف اور بلاول بھٹو اور اتحادی ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے رہیں۔ زرداری اور شہباز شریف ایوان میں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے۔ یہ سارا ماجرا پریس گیلری میں بیٹھا دیکھ رہا کہ کیسے اتحادیوں نے اپنے مفاد کی خاطر عمران خان کو دھوکا دیا۔ اور یاد رہے کہ شاید شہباز شریف بھی اس دھوکے کی بھینٹ چڑھ سکتے ہیں۔

حیران ہوا کہ کیسے اپنے مفاد اور اقتدار کی خاطر لوگوں پرانی باتیں بھول جاتے ہیں۔ وہی زرداری شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا رہا، جس نے شہباز شریف کا پیٹ پھاڑنا تھا، اور وہی شہباز شریف اس زرداری سے گلے مل رہا تھا جس کو سڑکوں پر گھسیٹنا تھا۔

یہ وہی لوگ تھے جو ہر بات پر کہتے پاکستان میں ہر منتخب وزیر اعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ آج یہی لوگ وزیراعظم کی اس آئینی مدت کے مخالف نظر آئے۔ لیکن کوئی بھی اپنے آپ کو غلط نہیں کہے گا۔ میں بھی نہیں، آپ بھی نہیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، جس عدم اعتماد کا ڈھنڈورا 8 مارچ سے پیٹا جا رہا تھا آخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ اور اس عدم اعتماد کی کامیابی پر شاید بیرون ملک بھی خوشیاں منائی گئی ہوں گی ۔

وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد میاں شہباز نے اپنی پہلی تقریر شروع کی، وہی پرانی تقریر، وہی پرانے الفاظ، پنشن میں 10 فیصد اضافہ، کم سے کم آمدنی پچیس ہزار، آخر یہ سب آئے گا کہاں سے، پاکستان تو پہلے اربوں ڈالرز کے بوجھ تلے دبا ہوا۔

دوسری جانب عمران خان نے سڑکوں پر نکلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی عوامی طاقت کے ذریعے بننے والی اس اتحادی حکومت پر کوئی سیاسی پریشر ڈال پائے گئے یا نہیں، یہ تو اب وقت ہی طے کرے گا۔ لیکن اب ملک جس سیاسی گہماگہمی کا شکار ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا یہی خیال ہے کہ اس وقت اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عام انتخابات ہی اس کا واحد حل ہے۔

سابق پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد خان کا کہنا تھا کہ روس بہانہ ہے عمران خان نشانہ ہے۔ اور جس طرح بیرونی مداخلت کے ذریعے جس طرح عمران خان کو نشانہ بنایا گیا وہ سب کے سامنے ہے۔

شہباز شریف جب وزیر اعظم کا حلف اٹھا رہے تھے تو اس نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا، کہ دنیا میں کوئی ملک ایسا ہو گا، کہ جس فرد پر 11 اپریل کو منی لانڈرنگ، فراڈ اور کرپشن کی فرد جرم عائد ہونا تھی وہ 11 اپریل کو پروٹوکول لیتے ہوئے ہمارا وزیراعظم منتخب ہو گیا ہے۔ لیکن اب جیسا بھی ہے۔ عوام کو برداشت کرنا ہو گا۔ اور جاتے جاتے یہ بھی کہنا، کہ پاکستانی قوم کو فراڈ، کرپشن ٹیٹیوں، منی لانڈرنگ اور ماڈل ٹاؤن کے واقع میں ملوث وزیراعظم شہباز شریف مبارک ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments