انصاف کا منتظر ناظم جوکھیو قتل کیس


عموماً افلاطون اور دیگر یونانی فلسفیوں سے منسوب کیا جانے والا مقولہ ”قانون مکڑی کا وہ جالا ہے، جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں، مگر بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں“ پاکستانی قانون اور عدلیہ کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔

گزشتہ برس نومبر میں ناظم جوکھیو نامی سندھ کے رہائشی نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں وہ غیر ملکیوں کو شکار کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ناظم جوکھیو کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ یہ واقعہ ان دنوں میں پیش آیا جب ساری دنیا گلاسکو میں مل کر ماحولیاتی تبدیلیوں اور تحفظ پر زور دے رہی تھی لیکن سندھ میں مقامی پرندے کو بچاتے، ماحول کو تحفظ دیتے ہوئے ایک نوجوان مارا گیا۔

ایک طرف اشرافیہ کے لیے چھٹی کے دن بھی عدالتیں کھول دی جاتی ہیں دوسری طرف مظلوم کی ایف آئی آر درج کرنے کے لیے بھی لاش رکھ کر احتجاج کیا جاتا ہے۔ ناظم جوکھیو کے لواحقین کی جانب سے مقتول کی لاش ہائی وے پر رکھ کر احتجاج کیا گیا تھا جس کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ لواحقین نے اس مبینہ قتل کے الزام میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی جام اویس گہرام اور رکن قومی اسمبلی اور قبیلے کے سردار جام عبدالکریم سمیت 22 ملزمان کو نامزد کیا تھا، جن میں سے بیشتر افراد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ کچھ ملزمان اب ضمانت پر ہیں۔

پاکستان جیسے ملک جہاں حکمران طبقے کے مفادات کو ”ضرورت“ کہہ کر قانون اور آئین سے بالا فیصلے لیے جاتے ہوں جہاں سرداروں اور جاگیرداروں کے نجی قید خانے بنے ہوئے ہوں، وہاں مظلوم کو انصاف کی فراہمی تو دور کی بات انصاف کے لیے جستجو کرنے پر جینا محال ہو جاتا ہے۔

فیس بک پر ناظم جوکھیو کی اہلیہ شیریں جوکھیو کا کیس کی پیروی نہ کرنے کے متعلق ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا: ’میں یہ کیس اس لیے بھی نہیں لڑ پا رہی ہوں کہ اس کیس میں میرے اپنے بھی پیچھے ہٹ گئے۔ میں وفادار ہوں مگر مجھے سب نے اکیلا کر دیا ہے۔ میں اس کیس میں ملوث تمام ملزمان کو معاف کر دیا ہے اور اپنا فیصلہ اللہ پر چھوڑتی ہوں‘ ۔ ناظم کی اہلیہ نے معاف کر دیا لیکن ہم جانتے ہیں کے یہاں کس طرح حربے چلا کر خاموش کر دیا جاتا ہے، اس قاتل سرداری نظام اور قانون پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وکٹم بلیمنگ تحت مظلوم کو ہی ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے اور ایسا ہی ہوا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر دیکھا گیا کے سوالات اور انگلیاں اس ویڈیو پیغام کے بعد شیریں جوکھیو پر اٹھائیں گئیں۔ جہاں موقع واردات پر خود چھوڑ کر آنے والا بھائی جس کے الفاظ ہوں کہ:

’میں نے جام اویس پر اندھا اعتماد کیا اور اپنے بھائی ناظم کو اس کے پاس لے گیا۔ اس نے کفن میں میرا بھائی واپس کیا ہے، مجھے معلوم نہیں تھا کہ انسان کی زندگی سے تلور زیادہ اہم ہے۔ ‘ وہ بھائی مکر جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کے پدرشاہی نظام میں سرداروں کے خلاف ایک مظلوم عورت کو خاموش کروانے کے لیے کیا کیا حربے چلائے گئے ہوں گے۔

گزشتہ روز آنے والی ایک خبر موجوب سندھ پولیس نے کراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کو بتایا ہے کہ ناظم جوکھیو کے قتل کیس میں رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم، رکن صوبائی اسمبلی جام اویس گہرام سمیت 13 ملزمان کے نام شہادت کی عدم دستیابی کی بنیاد پر خارج کر دیے جائیں۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو! ؟

مقدمہ درج ہونے کے کچھ دنوں بعد مقتول کے بھائی افضل جوکھیو کا کیس کی پیروی کرنے سے مکر جانا، انصاف میں دیر، شہادتوں کا نہ ملنا اور ناظم کی اہلیہ کی طرف سے اچانک موقف بدل کر کیس واپس لینا صاف اشارہ ہے کے کس طرح ایک نوجوان جس پر غیر انسانی تشدد کر کے قتل کر دیا گیا اس کو انصاف دینے کے بجائے قاتلوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔

اس قسم کے واقعات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کے قاتلوں پر توہین عدالت کا کیس چلایا جاتا کیونکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 204 تو کچھ ابہام اور کچھ وضاحت کے ساتھ کہتا ہے کہ کسی بھی زیر سماعت مقدمے پر ایسا رویہ جو تعصب پر مبنی ہو یا جو مقدمے کے حق یا خلاف فضا بنا دے توہین عدالت ہے۔ ایسا عمل جو فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے لیے کیا جائے توہین عدالت ہے لیکن یہاں تو ”انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار“ کے فکرے تحت قاتلوں کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔

اس ملک کے اندر ایسے ہی واقعات اور انصاف میں تاخیر کی وجہ سے عوام کا اعتبار قانون اور عدالتوں سے اٹھ چکا ہے، اور ایسا کیوں نا ہو! انصاف کی فراہمی اور عدالتوں کا حال یہ ہے کہ؛

نومبر 2021 میں سینیٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں اس وقت 21 لاکھ 59 ہزار 655 زیر التوا مقدمات ہیں۔ اور ملک بھر کی ہائی کورٹس اور ڈسٹرکٹ کورٹس میں ججز کی ایک ہزار 48 اسامیاں تعیناتیوں کی منتظر ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ میں 51 ہزار 138 مقدمات، وفاقی شرعی عدالت میں 178 مقدمات، لاہور ہائی کورٹ میں 1 لاکھ 93 ہزار 30 مقدمات پنجاب کی ڈسٹرکٹ اور سیشن کورٹس میں 13 لاکھ 45 ہزار 632 سول اور فیملی مقدمات، سندھ ہائی کورٹ میں 83 ہزار 150 مقدمات، سندھ کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں مقدمات کی تعداد 1 لاکھ 15 ہزار 296 ہے۔

پشاور ہائی کورٹ میں، 42 ہزار 180 مقدمات، خیبر پختونخوا کی سیشن اور ضلعی عدالتوں میں چلنے والے کیسز کی تعداد اس وقت 2 لاکھ 40 ہزار 436، بلوچستان ہائی کورٹ میں، 4 ہزار 663 مقدمات، بلوچستان کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں 15 ہزار 729 کیسز فیصلے کے منتظر ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں 16 ہزار 374 مقدمات زیر التوا ہیں، جب کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں 51 ہزار 849 کیسز زیر التوا ہیں۔

لیکن اب جس طرح حال ہی میں نور مقدم کیس میں انصاف کے تقاضے پورے کر کے کیس منتقی انجام تک پہنچایا گیا، جس طرح سپریم کورٹ نے ملک میں سالوں سے رائج نظریہ ضرورت، مصلحت اور پنچائتی فیصلوں کے بجائے آئینی اور قانونی فیصلہ دیا ہے ٹھیک اس ہی طرح اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے نوٹس لے کر مقتول ناظم جوکھیو اور لواحقین کے ساتھ انصاف کیا جائے۔

اس معاملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شروعات میں قوم پرست، سوشلسٹ تنظیموں اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس معاملے کو اٹھایا گیا بعد میں سب خاموش نظر آئے، کیس میں مختلف موڑ آتے گئے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صرف تجزیے ہی نظر آئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قوم دوست عوام دوست تنظیموں کی جانب سے سندھ کے پہلے ماحولیاتی شہید کی شہادت کو سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے کے لیے اتحاد جوڑے جاتے، سندھ کے ماحولیاتی سوال کو سیاسی پروگرام تحت ابھار کر سرگرمیاں کرنے چاہیے تھی، عورتوں کے حقوق اور آزادی کے جدوجہد کرنے والی تنظیموں کو ناظم کی اہلیہ کے ساتھ کھڑا ہو کر تحفظ فراہم کیا جاتا، لیکن افسوس کے اکیلے ہارنے کے لیے چھوڑا گیا۔

ملال یہ نہیں دیوار و در نہیں گھر میں
عذاب یہ ہے کوئی معتبر نہیں گھر میں

وقت اب بھی نہیں گیا! صبح کے بھولے شام کو لوٹ آئیں، عوامی سیاستدان، اساتذہ، طلبہ، صحافی، اکیڈمکس، وکلاء، لکھاری، ادیب، شعراء، تاریخ دان اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک آواز ہو کر شہید ناظم جوکھیو کو انصاف دلانے کے لیے کھڑے ہوں۔ قاتلوں کو منتقی انجام تک پہنچانے کے ساتھ سرداری نظام کا خاتمہ ہی شہید کے ساتھ انصاف ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments