سیاسی قیادت کا بڑا امتحان


پاکستان کا سیاسی بحران سیاسی قیادت اور سیاسی جماعتوں سے ایک سیاسی اور جمہوری یا آئینی و قانونی کردار کا تقاضا کرتا ہے۔ اس جنگ میں افراد کے مقابلے میں ادارے اور سیاسی جماعت کے مقابلے میں ریاست کے مفادات کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں عملی طور پر سیاست اور جمہوریت کے نام پر ذاتی اور جماعتی مفادات کی جنگ غالب ہے اور اس کے نتیجہ میں قومی سیاست میں بہتری پیدا ہونے کی بجائے تسلسل کے ساتھ بگاڑ کا کھیل جاری ہے۔

جمہوریت اور سیاست کی بنیادی کامیابی کی کنجی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہوتی ہے اور یہ ہی لوگ اس عمل کو مضبوط کر کے ملک کی سمت کو درست کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ یہاں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت سمیت دیگر سیاسی فریقین یا اداروں نے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے پہلے سے موجود سیاسی غلطیوں میں اور زیادہ شدت پیدا کردی ہے۔ یہ عمل ملکی سیاست کو اور زیادہ کمزور کرنے یا اس میں بگاڑ کو مزید گہرائی کے ساتھ پیدا کرنے کا سبب بن گیا ہے اور ہماری حیثیت محض ایک تماشائی کے بن کر رہ گئی ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان کے سیاسی بحران کا جائزہ لیں تو جو بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں نے اس بحران کو کم کرنے میں خود سے کوئی بڑا کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگرچہ بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی مرضی کے سیاسی نتائج حاصل کر لیے ہیں اور حکومت کو گھر بھیج کر نئی سیاسی حکومت بھی بن گئی ہے۔ لیکن سیاسی بحران حل ہونے کی بجائے اور زیادہ بگاڑ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ بگاڑ اس لیے بھی پیدا ہو رہا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں نے مسائل کے حل کے لیے سیاسی پلیٹ فارم یا سیاسی فورم استعمال نہیں کیے۔

ہم بات تو سیاست، جمہوریت اور پارلیمانی سیاست کی مضبوطی کی کرتے ہیں لیکن ہمارے عملی اقدامات ان سیاسی فورم یا پارلیمنٹ کو مستحکم کرنے کی بجائے ان کو غیر مستحکم کر کے شخصیت پرستی کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس کا عملی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ یہاں سیاسی نظام جو پہلے ہی ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے مزید بند گلی میں داخل ہو رہا ہے۔ اس کی ذمہ داری کسی ایک سیاسی فریق پر نہیں بلکہ تمام سیاسی سطح پر موجود سیاسی فریقین ہی اس صورتحال کے حقیقی ذمہ دار ہیں۔

موجودہ سیاسی بحران میں سیاسی جماعتوں نے جو کام خود کرنے تھے وہ پارلیمنٹ یا خود ذمہ داری لینے کی بجائے عدلیہ اور فوج یا دیگر داخلی یا خارجی قوتوں پر ڈال دی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ کہتی ہے کہ ہر سیاسی مسئلہ کو پارلیمنٹ یا سیاسی فورم کی بجائے عدلیہ کی طرف لانا کوئی جمہوریت کی خدمت نہیں۔ ان کے بقول عدلیہ پر سیاسی بوجھ ڈالنے سے اس کے نتائج میں اور زیادہ بگاڑ سامنے آتا ہے اور یہ الزام بھی عدلیہ کو سننا پڑتا ہے کہ عدالتی محاذ پر سیاسی ایجنڈا یا پسند و ناپسند کے فیصلوں کا غلبہ ہے۔

یہ ہی سوچ اور فکر حالیہ دنوں میں فوج کی قیادت کی طرف سے بھی سامنے آئی ہے کہ سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں بلاوجہ سیاسی معاملات میں وہ فوج کو ان معاملات میں مت گھسیٹیں۔ مثال کے طور پر ڈی جی آئی ایس پی آر کو وضاحت کرنا پڑی کہ حالیہ سیاسی بحران میں عمران خان کی حکومت کو جبری مشکل کا سامنا تھا تو انہوں نے ہی فوج سے مدد طلب کی اور مختلف آپشن کی مدد سے بحران کے حل کے لیے اسٹیبلیشمنٹ کے سامنے آپشن رکھے۔ اسی طرح خود آج کی حکومت جو کل تک حزب اختلاف تھی وہ بھی بلاوجہ سیاسی بحران کے حل کے لیے فوج ہی کی طرف دیکھ رہے تھے جس میں قومی حکومت کے قیام سے لے کر دیگر آپشن پر ان کی سہولت کاری کی بات کی جا رہی تھی۔

سوال یہ ہے کہ جب سیاسی قیادت یا سیاسی جماعتیں خود ہی اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی بجائے سیاسی طاقت یا فیصلہ سازی کے اصل مرکز کو بنیاد بنا کر ایک یا دو اداروں کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کی سوچ اور فکر کے مطابق خود اپنی پالیسیوں کو ترتیب دیتے ہیں تو پھر سیاسی ریموٹ کنٹرول ان کی بجائے کسی اور کے پاس ہوتا ہے۔ حالیہ تبدیلی میں بھی ہم نے ایسے کئی فیصلے دیکھے ہیں جہاں حزب اختلاف کی جماعتوں کو اپنے فیصلے کرنے میں کسی اور کی طرف دیکھنا پڑا ہے۔

پاکستان کی جمہوری سیاست میں اسٹیبلیشمنٹ کی مداخلت پر ہمیشہ ایک مضبوط سیاسی بیانیہ رہا ہے۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں اسٹیبلیشمنٹ کا کردار سیاست میں کسی جادوئی فیصلہ سے حل ہو جائے گا وہ غلطی پر ہیں۔ یہ عمل ملک میں ایک بڑی سیاسی جدوجہد کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کی پہلی اور اولین شرط مضبوط سیاسی نظام، سیاسی جماعتیں اور قیادت سمیت ایک مضبوط سول سوسائٹی ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں یا سیاسی قیادت ان کو مضبوط کرنے کی بجائے عملی طور پر اس پورے سیاسی عمل کو کمزور کر کے خود کو انفرادی سطح پر مضبوط بنا کر پیش کرتی ہیں۔

سیاسی جماعتیں ہو یا سیاسی قیادت ان کا بڑا امتحان محض اقتدار کا حصول نہیں ہونا چاہیے۔ اگرچہ اقتدار ایک بنیادی چیز ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر عملی سیاست میں سیاسی رنگ بھرے جاتے ہیں۔ لیکن اقتدار کا مقصد محض اپنی ذاتی سیاست یا طاقت کو بنانا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ عملی طور پر معاشرے اور ریاستی نظام میں حکمرانی کے اعلی معیارات کو بھی قائم کرنا ہوتا ہے۔ سیاست، سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت کا عوامی تعلق ہی سیاسی نظام کی ساکھ کو قائم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کی حیثیت مسائل کو پیدا کرنا یا اس میں مزید بگاڑ کو پیدا کرنے کی بجائے ان کے پائیدار اور مضبوط حل کی طرف ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور قیادت عوام کے اور عوامی مفادات کے ساتھ خود کو کھڑا کرتی ہیں۔ لیکن یہاں جو سیاسی نظام اور اس کے فریق ہیں وہ عوام کے مقابلے میں معاشرے میں موجود طاقت ور طبقات کی نمائندگی کر کے سیاسی نظام سمیت عوامی مفادات کو مفلوج کرتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملک میں عام آدمی سمیت معاشرے کے پڑھے لکھے طبقات میں بھی سیاست اور جمہوریت سمیت سیاسی قیادتوں کا سیاسی مقدمہ مضبوط ہونے کی بجائے کمزوری کا سبب بن رہا ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ نظام ہماری سیاسی طاقت بننے کی بجائے ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی استحصال کا سبب بنتا ہے۔

سیاسی جماعتیں چاہے وہ حکومت میں ہوں یا حزب اختلاف میں ان کو بنیادی بات یہ سمجھنی ہوگی کہ سیاسی نظام کی بنیادی کامیابی کی کنجی اس نظام میں ایک مضبوط، مربوط اور شفاف ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ سیاسی نظام وہیں اپنی افادیت اور اہمیت کو قائم کرتا ہے جہاں اصلاحات کو بنیاد بنا کر نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔ لیکن یہاں اول تو اصلاحات کا نظام ہی کافی کمزور ہے اور دوسرا اگر اصلاحات کرنا مقصود ہو یا ان پر دباؤ ہو تو پالیسی یا قانون سازی کو کرنے کے بعد یہ عمل عملی اقدامات کی سطح پر ریاستی و حکومتی نظام میں عدم ترجیحات کا شکار ہوجاتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی اپنا داخلی جمہوری نظام بھی سنجیدہ نوعیت کے بنیادی سوالات رکھتا ہے لیکن سیاسی سطح پر سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت نہ تو اس کو اہمیت دیتی ہیں اور نہ ہی ان موضوعات کو اپنی سیاسی بحث کا حصہ بناتی ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر ادارہ جاتی نظام مضبوط ہو گا تو ان کو ہر ادارہ کی سطح پر جوابدہی کے نظام سے گزرنا ہو گا اور نظام یا اداروں کے مقابلے میں افراد کی بالادستی ہوگی تو ہم اپنی مرضی اور منشا کے مطابق افراد کی مدد سے اپنی سیاسی طاقت کے کھیل میں برتری کو قائم رکھ سکتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کو جو حالیہ سیاسی بحران ہے جو حکومت کی تبدیلی کے باوجود کئی سنگین نتائج کی طرف اشارہ کر رہا ہے اس میں آج کی حکومت اور حزب اختلاف کیا ایسا کردار اداکرتے ہیں کہ جو حالات کی بہتری کی طرف لے جا سکے۔ کیونکہ جو بداعتمادی اور سیاسی سطح پر محاذ آرائی جس میں شدت پسندی بھی غالب ہے ایسے میں ان سیاسی فریقین میں سیاسی مکالمہ کیسے ممکن ہو سکے گا۔ کیونکہ دونوں سطحوں سے ایک دوسرے کی قبولیت کا نہ ہونا اور ایک میز پر نہ بیٹھنا ہی سیاسی بحران کو اور زیادہ بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے۔

منطق دی جاری ہے کہ ملک میں نئے عام انتخابات سے قبل کچھ انتخابی اصلاحات کی مدد سے شفاف انتخاب کی طرف بڑھا جاسکتا ہے، مگر یہ سب کچھ کیسے ہو گا اور کیسے سب فریقین اس میں معاونت کا کردار ادا کریں گے، مشکل سوال ہے۔ کیونکہ ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ کی تحریک اور زیادہ سیاسی انتشار کو پیدا کرنے کا سبب بنے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments