’مجھے کیوں نکالا‘ سے ’میرا جرم کیا تھا‘ تک


سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ رات کراچی میں احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عدلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ ’میرا جرم کیا تھا‘ ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ سفارتی مراسلہ کی مناسب تحقیق کیے بغیر حکم جاری نہ کرتی تو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ برقرار رہتی اور ان کی حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے ختم نہ کیا جاتا۔

یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے۔ ایک طرف عمران خان ملک میں جمہوریت کی بالادستی اور غیرملکی مداخلت کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ قومی اسمبلی کی اکثریت کی رائے کو کسی نامعلوم غیرملکی سازش کے عذر پر مسترد کرنا چاہتے تھے۔ بلکہ اب تک یہی تصور کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے قاسم سوری کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر انصاف نہیں کیا۔ اسی لئے انہوں نے کراچی کے جلسہ میں اعلیٰ عدلیہ سے دو سوال کیے ہیں :

ایک: میرا کیا جرم تھا کہ ہفتہ کو رات گئے عدالتیں کھولی گئیں۔ اور سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے سفارتی مراسلہ کی تحقیقات کروانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ عمران خان کا خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ اس مراسلہ کی تحقیقات کرواتی تو اسے واقعی اس ’عالمی سازش‘ کا علم ہوجاتا جس کے بارے میں تحریک انصاف کا موقف ہے کہ اس کے تحت حکومت ختم کی گئی تھی ورنہ اپوزیشن کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہ ہوتی۔

دوئم: عمران خان نے سپریم کورٹ سے دوسرا سوال یہ کیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر سو موٹو لینے والی عدالت عظمیٰ نے ارکان اسمبلی کی ’خرید و فروخت‘ کا نوٹس کیوں نہیں کیا۔ کیا اس طرح ملک میں جمہوریت کو تہ و بال نہیں کیا گیا تھا۔ ان دو نکات کی بنیاد پر سابق وزیر اعظم یہ سوال بار بار دہرا رہے ہیں کہ ’آخر میرا جرم کیا تھا‘ ؟

عمران خان اگر اقتدار کھو دینے کے صدمے پر قابو پا سکیں اور اکسانے والے پر جوش مشیروں کے نرغے سے باہر نکل کر کبھی سنجیدگی سے اس سوال پر غور کریں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ بھی پاکستان کے ان وزرائے اعظم کی فہرست میں شامل ہو گئے جنہیں اپنے عہدے کی مقررہ مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا تو شاید وہ اس سوال اور اس کے عوامل کی تہ تک پہنچ سکیں۔ اور ان حالات کو جان سکیں جو ملک میں جمہوری عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے رہے ہیں۔

اسے حالات کی ستم ظریفی ہی کہنا چاہیے کہ عمران خان کی یہ پکار کہ ’میرا جرم کیا تھا‘ درحقیقت سابق وزیر اعظم نواز شریف کے شکوے کہ ’مجھے کیوں نکالا‘ کی گونج محسوس ہوتی ہے۔ وہ 2017 میں سپریم کورٹ کی طرف سے نا اہل قرار دیے جانے کے بعد احتجاج کے دوران یہ صدا بلند کرتے رہے تھے۔ انہیں پاناما پیپرز پر عدالتی سوموٹو کے نتیجے میں ہونے والی کارروائی کے دوران ماضی میں اپنے بیٹے کی ایک کمپنی سے اس تنخواہ کا ذکر نہ کرنے پر ’صادق و امین‘ سمجھنے سے انکار کیا گیا تھا جو انہوں نے کبھی وصول ہی نہیں کی۔ اس ایک اعتراض کے سوا ان کے خلاف پاناما پیپرز اسکینڈل میں کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تھا لیکن عدالت عظمی نے اس کے باوجود ایک منتخب وزیراعظم کو نا اہل قرار دیا اور انہیں اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے سے سال بھر قبل ہی برطرف کر دیا گیا۔

عمران خان کو شکر کرنا چاہیے کہ سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل قرار نہیں دیا بلکہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی ایک رولنگ کو غیر آئینی کہا ہے۔ اس رولنگ کے تحت چونکہ حکومت اپنے تئیں قومی اسمبلی میں اکثریت کے باوجود تحریک عدم اعتماد مسترد کروا چکی تھی لہذا جوں ہی قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا، وزیر اعظم نے فوری طور سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی درخواست صدر مملکت کو بھجوا دی۔ عارف علوی نے پاکستانی صدر کے طور پر معاملہ کے آئینی و قانونی پہلو کا جائزہ لینے کی بجائے پارٹی سے وفاداری نبھاتے ہوئے فوری طور سے اسمبلی توڑنے اور 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔

سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ ابھی سامنے نہیں آیا، اس لئے 7 اپریل کو جاری ہونے والے مختصر فیصلہ کی وجوہات پیش نظر نہیں ہیں جن کی وجہ سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اس کے نتیجہ میں وزیر اعظم کے قومی اسمبلی توڑنے کے مشورے اور صدر کی طرف سے اس پر عمل بھی غیر آئینی قرار پایا تھا۔ مختصر حکم سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کے علاوہ وزیر اعظم اور صدر مملکت بھی غیر آئینی اقدام کے مرتکب ہوئے تھے۔ اسی لئے ملک کے سیاسی حلقوں میں ان تینوں اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف آئین شکنی کے الزام میں مقدمہ قائم کرنے کی بات کی جاتی رہی ہے۔ ایک لحاظ سے سپریم کورٹ نے اس معاملہ میں صرف آئینی طریقہ کار کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیا ہے اور جان بوجھ کر سیاسی مقاصد کے لئے آئین شکنی کرنے والے کسی عہدیدار کے خلاف کسی کارروائی کا حکم نہیں دیا۔ حالانکہ اگر پاناما پیپرز کیس میں نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روایت پر عمل کیا جاتا تو ان عہدیداروں کے خلاف آئین شکنی کی تحقیقات کا حکم سامنے آتا۔

قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی مقررہ تاریخ کو اجلاس میں فواد چوہدری کو بولنے کا موقع دیا جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دے کر اسے مسترد کرنے کی تجویز دی اور ڈپٹی اسپیکر نے کسی بحث کے بغیر فوری طور سے اس تجویز کو درست قرار دے کر تحریک عدم اعتماد مسترد کردی حالانکہ اسے ووٹنگ کے لئے مقرر کیا جا چکا تھا۔ یہ آئین شکنی کا واضح معاملہ تھا اور سپریم کورٹ اس سے صرف نظر نہیں کر سکتی تھی لیکن کسی بھی طرح ایک جھوٹ کو جائز ثابت کرنے کے لئے عمران خان اور ان کے ساتھی اب اعلیٰ عدلیہ کو ہدف بنا رہے ہیں۔ حالانکہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے لے کر وزیر اعظم کی طرف سے قومی اسمبلی توڑنے کا مشورہ اور صدر کا اسمبلی توڑنے کا حکم جاری کرنا، آئین پاکستان کے خلاف سوچی سمجھی سازش دکھائی دیتی ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک اعلیٰ عدلیہ نے سابق وزیر اعظم اور صدر عارف علوی کی اس کوتاہی پر توجہ نہیں دی۔ عمران خان اگر جلسوں میں اعلیٰ عدلیہ کو یوں ہی للکارتے رہیں گے تو چیف جسٹس اس پر سو موٹو نوٹس نہ بھی لیں پھر بھی کوئی پاکستانی شہری اس معاملہ پر عدالت میں پٹیشن دائر کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں سفارتی مراسلہ میں سازش کے ذکر کی تحقیق نہیں ہوگی بلکہ بطور وزیر اعظم عمران خان کے غیر آئینی طرز عمل پر عدالتی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

ہفتہ کو رات گئے سپریم کورٹ کھولنے کا ذکر کر کے اب یہ دلیل اپنے حامیوں کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سپریم کورٹ بھی درپردہ اس ’وسیع عالمی سازش‘ کا حصہ بنی ہوئی تھی جس کے تحت عمران خان کی حکومت ختم کرنا مطلوب تھا۔ سپریم کورٹ نے 9 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا حکم دیا تھا۔ ایک روز پہلے قوم سے خطاب میں سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کا وعدہ کرنے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت نے اسپیکر اسد قیصر کے ذریعے اس روز سارا دن تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہونے دی۔ اس دوران عملی طور سے عدم اعتماد کے تحت عہدے سے فارغ ہونے والے وزیر اعظم نے رات 9 بجے کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کر لیا اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کو بھی وزیر اعظم ہاؤس بلا لیا گیا۔ رات گئے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی سرگرمی کی کچھ رپورٹنگ سامنے آئی ہے جس کی فوج نے تردید کی ہے۔ تاہم اس دوران وزیر اعظم ہاؤس میں جو بھی ہو رہا تھا وہ ملکی آئین کے تقاضوں اور سپریم کورٹ کے حکم کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر صرف اپنی پارٹی سے وفاداری نبھانے کے لئے وزیر اعظم کے پاس حاضری لگوانے گئے ہوئے تھے۔ ایک اہم آئینی معاملہ پر سپریم کورٹ کے دو ٹوک حکم میں مسلسل تاخیر کی وجہ سے چیف جسٹس نے اس صورت حال پر غور کرنے کے لئے رات گئے سپریم کورٹ کھولنے کا حکم دیا تھا۔ اس لئے سپریم کورٹ سے پوچھنے کی بجائے عمران خان کو بتانا چاہیے کہ وہ رات گئے اپنی حکومت بچانے کے لئے کون سے غیر قانونی اقدامات اٹھانے کی سازش کر رہے تھے۔

عمران خان نے سپریم کورٹ سے یہ بھی پوچھا ہے کہ اس نے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت پر از خود نوٹس کیوں نہیں لیا۔ اس کا جواب بھی عدالت عظمی ٰ کی بجائے عمران خان کو ہی دینا چاہیے کیوں کہ وہ اس وقت ملک کے وزیر اعظم تھے۔ وہ مسلسل اپوزیشن پر تحریک انصاف کے ارکان خریدنے کا الزام لگا رہے تھے۔ ان کے وزیروں مشیروں نے تو سندھ ہاؤس میں اربوں روپوں سے بھری ہوئی بوریاں بھی تلاش کرلی تھیں۔ قانون کی ایسی سنگین خلاف ورزی اگر حکومت کے علم میں آ گئی تھی تو اس کی روک تھام کے لئے کیا اقدام کیے گئے؟ کیا کسی تھانے میں اس کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا، کسی سرکاری عہدیدار کو اس قانون شکنی کو روکنے کا حکم دیا گیا یا کسی عدالت سے رجوع کیا گیا کہ اس غیر قانونی لین دین کی روک تھام کے لئے حکم جاری کرے؟ ریکارڈ کے مطابق ایسی کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یوں بھی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے وقت صرف اپوزیشن اور حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہونے والی پارٹیوں کے ارکان نے ووٹ دیا تھا۔ تحریک انصاف کے کسی ناراض رکن نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ان دونوں پہلوؤں سے یہی ثابت ہوتا تھا کہ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات جھوٹ کا پلندا ہیں۔ جب حکومت وقت ہی کوئی کارروائی نہیں کر پائی تو وہ عدالت سے کیوں یہ توقع کر رہی ہے کہ اس کا ازخود نوٹس لے کر ایک ایسے شخص کو وزیر اعظم کے عہدے پر کام کرنے کا موقع دیتی جو اسمبلی کا اعتماد کھو چکا تھا۔

عمران خان کی یہ تکلیف تو سمجھ آتی ہے کہ انہیں اقتدار سے محرومی برداشت نہیں ہو رہی۔ تحریک انصاف بالواسطہ طور سے فوج اور عدالتوں پر الزام عائد کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے اور ان کے مستعد کارکن سوشل میڈیا اور جلسوں میں نعروں کے ذریعے اس کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن گزشتہ رات کراچی میں عمران خان نے فوج سے اظہار یک جہتی کے لئے جلسہ کے شرکا کو پاکستانی جھنڈا لہرانے کی دعوت دی تھی۔ گویا عمران خان اتنا حوصلہ بھی نہیں کر پا رہے جو نواز شریف نے ’مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے کر دکھایا تھا۔ انہوں نے فوجی قیادت کا نام لے کر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگایا تھا۔ اس وقت عمران خان کی حکومت ان الزامات کو ملک سے غداری قرار دے رہی تھی۔

عمران خان اگر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو وہ جان جائیں گے کہ ’مجھے کیوں نکالا‘ اور ’میرا جرم کیا تھا‘ کا جواب اس ملک کی کوئی عدالت نہیں دے سکتی۔ اس کا جواب ملکی سیاست دانوں کو اپنے گریبان میں جھانک کر ہی مل سکتا ہے۔ کیا عمران خان اقتدار حاصل کرنے کی تگ و دو میں کی گئی غلطیوں سے وہی سبق سیکھ چکے ہیں جو نواز شریف نے سیکھ لیا ہے۔ اگر یہ ممکن ہو جائے تو تحریک انصاف احتجاج اور مہم جوئی کی بجائے سیاسی ہم آہنگی اور سیاسی عناصر کے درمیان وسیع تر اشتراک عمل کی کوشش کرے گی۔ اس ملک کا بہتر مستقبل تصادم اور ایک دوسرے کو للکارنے یا الزام تراشی میں نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے احترام کے ذریعے ہی سیاست دان جمہوری عمل میں غیر منتخب اداروں کی مداخلت ختم کر سکتے ہیں اور ملک کو خوشحالی کے سفر پر گامزن کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments