آدھی رات کا سورج


شاہی خاندان کے تمام افراد بے چینی سے وزیر کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ پندرہ منٹ قبل وہ شاہی حکیم کے ساتھ بادشاہ کی خوابگاہ میں گیا تھا۔ شاہی حکیم نے کسی مصلحت کے تحت شاہی خاندان کے کسی فرد کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ ایک ایک لمحہ بھاری تھا۔ پھر دروازہ کھلا اور وزیر کی شکل دکھائی دی۔ اس کے تاثرات سے کوئی اندازہ لگانا مشکل تھا۔ وہ پتھر کے بت کی طرح بے تاثر نظر آتا تھا۔ آنکھوں میں نمی ٹھہری ہوئی تھی۔ سب نے بے تابی سے اس کی طرف دیکھا مگر سوال کرنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ ان کی نظریں وزیر کے چہرے پر جمی تھیں۔ وزیر کئی ثانیوں تک خالی خالی نظروں کے ساتھ ایستادہ رہا پھر اس کے لبوں نے جنبش کی۔

”حکیم صاحب نے اندر بلایا ہے“

وہ لپک کر دروازے کی طرف بڑھے۔ بادشاہ مسہری پر بے حس و حرکت چت لیٹا تھا۔ اس کی ادھ کھلی آنکھوں میں چمک ندارد تھی۔ مسہری کے پیچھے دیوار پر وال کلاک کی سوئیاں بارہ کا وقت دکھا رہی تھیں۔ مگر سوئیاں رکی ہوئی تھیں۔ شاید بیٹری ختم ہو چکی تھی۔ شاہی حکیم نے مڑ کر تمام افراد کی طرف دیکھا اور ایک گہری سانس لے کر گویا ہوا۔

”ہم نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی لیکن مشیت ایزدی کے سامنے کس کو دم مارنے کی مجال ہے“
ملکہ نے آنسو بھری آنکھوں سے شاہی حکیم کو دیکھا، پھر اس کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔
”اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ براہ کرم صاف صاف کہیے۔“
شاہی حکیم نے ایک نظر بادشاہ پر ڈالی پھر ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔
”بادشاہ سلامت اب اس دنیا میں نہیں رہے۔“

شاہی حکیم کی بات سن کر جیسے سناٹا سا چھا گیا۔ پھر ملکہ کی کی ہنسی کمرے کی فضا میں گونجی۔ ملکہ نے دو تین قدم آگے بڑھ کر مضبوط لہجے میں کہا۔

”آپ نے کہا اور ہم نے مان لیا۔ آپ پھر سے چیک کیجیے۔ بادشاہ سلامت نے خود کہا تھا کہ وہ کم از کم اگلے دس سال زندہ رہیں گے۔“

شاہی حکیم نے سر جھٹکا اور محض تسلی کے لیے ایک بار بادشاہ کی نبض پر ہاتھ رکھا۔
”یقیناً انھوں نے ایسا کہا ہو گا لیکن میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بادشاہ سلامت مر چکے ہیں۔“

اس کی باتیں سن کر شہزادے کی چہرے پر شدید غصے کے آثار امڈ آئے۔ اس نے نفرت بھری نگاہوں سے شاہی حکیم کو دیکھتے ہوئے کہا۔

”بکو مت اے ناہنجار حکیم! تم غدار ہو۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ تم بھی سازش کا حصہ ہو“
وزیر اس کی بات سن کر چونک اٹھا۔ اس نے فوراً شہزادے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔

”میں اس بات سے متفق ہوں۔ بادشاہ سلامت کو ایک بھیانک سازش کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خبردار بادشاہ سلامت کے حوالے سے کوئی خبر محل سے باہر نہیں جانی چاہیے۔“

وزیر کی بات سن کر سب نے تائید میں سر ہلایا۔ تقریباً آدھے گھنٹے میں یہ خبر عام ہو چکی تھی۔ رعایا سخت پریشان تھی اور حقائق جاننا چاہتی تھی۔ چنانچہ وزیر نے نقارہ بھجوایا اور رعایا کو شاہی محل سے منسلک میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ رعایا فوراً اکٹھی ہو گئی۔ سٹیج پر چیدہ چیدہ وزرا موجود تھے۔ بادشاہ کی لاش کو تخت پر لٹا کر سٹیج پر رکھا گیا تھا۔ سینئر وزیر نے مائک سنبھالا اور تقریر شروع کی۔

”میرے عزیز ہم وطنو! ہمارے بادشاہ کے خلاف ایک گہری سازش ہوئی ہے۔ اور یہ سازش ہمارے دیرینہ دوست ملک کی جانب سے ہوئی ہے۔ انھوں نے ہمارے بادشاہ کو مردہ قرار دے دیا ہے۔ جبکہ ہمارے بادشاہ سلامت زندہ ہیں اور اس وقت آپ کے سامنے سٹیج پر موجود ہیں۔ لیکن ہم اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہمارے بادشاہ نے آپ کو زبان دی ہے۔ بولو کیا تم اپنے بادشاہ کے خلاف سازش کو کامیاب ہونے دو گے؟“

رعایا کا شور گونجنے لگا۔ وہ نعرے لگا رہے تھے۔ وزیر کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے رعایا کو خاموش کرانے کے بعد تقریر دوبارہ شروع کی۔

”مملکت خداداد کے باسیو! میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ سازش کیسے ہوئی۔ آپ کو پتا ہو گا کہ کہ بادشاہ سلامت نے پچھلے دنوں ایک دشمن ملک کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کا مقصد اس دشمن ملک کو دوست بنانا تھا۔ اس کے بعد آپ کو اتنی گندم ملتی کہ ملک سے بھوک کا خاتمہ ہو جاتا۔ مگر اس دورے کی بھنک ہمارے دیرینہ دوست ملک کو پڑ گئی۔ اس ملک سے ہمارے بہادر سفیر نے جان پر کھیل کر ایک خفیہ خط لکھا۔ وہ خط ایک جاسوس کبوتر کے ذریعے بادشاہ سلامت تک پہنچا۔“

وزیر نے یہاں تک کہہ کر شاہی خلعت کی اندرونی جیب سے ایک کاغذ نکالا اور اسے لہراتے ہوئے سلسلہ کلام جاری رکھا۔

”یہ ہے وہ خط۔ اس خط میں بادشاہ سلامت کو سنگین دھمکیاں دی گئی تھیں۔ بادشاہ سلامت دن رات رعایا کے غم میں گھلتے رہتے ہیں۔ اس خط نے ان کی راتوں کی نیندیں اڑا دیں۔ بادشاہ سلامت آپ کو پریشان کرنا نہیں چاہتے تھے اس لیے ایک ماہ تک آپ کو اس معاملے سے بے خبر رکھا لیکن اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے۔ کیونکہ ہمیں پتا چلا ہے کہ اس سازش میں ہماری بادشاہت میں شامل کچھ باغی وزیر بھی شامل ہیں اور اس وقت سٹیج پر بھی موجود ہیں۔“

وزیر کے انکشاف پر رعایا میں ایک کھلبلی سی مچ گئی۔ وہ سب جاننا چاہتے تھے کہ باغی وزیر کون ہیں۔ رعایا نے نعرے لگانے شروع کر دیے کہ باغی وزیروں کو سامنے لاؤ۔

وزیر نے ہاتھ بلند کر کے رعایا کو خاموش رہنے کی تلقین کی پھر سٹیج پر موجود وزرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

”یہ سب وزیر اس سازش میں شامل ہیں۔ یہ غدار ہیں۔“

رعایا کو چونکہ زبان مل چکی تھی لہٰذا وہ زور زور سے چلانے لگے کہ ان غداروں کو سزا دی جائے۔ وزرا اس افتاد سے پریشان ہو گئے۔ پہلے تو ان کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کریں پھر ایک بوڑھے وزیر نے آگے بڑھ کر مائک سنبھال لیا اور اونچی آواز میں کہنے لگا۔

”میرے بھائیو! وزیر بے تدبیر دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نہ کوئی سازش ہوئی ہے اور نہ ہم سازش کا حصہ ہیں۔ در حقیقت بادشاہ کی موت واقع ہو چکی ہے اور اب ہمیں نئے بادشاہ کا چناؤ کرنا چاہیے۔ دیکھو بادشاہ سلامت تخت پر مردہ حالت میں پڑے ہیں۔“

بوڑھے وزیر کی بات سن کر چند لمحوں کے لیے سناٹا ہو گیا۔ پھر چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ رعایا منقسم ہو گئی تھی۔ ایک گروہ سینئر وزیر کا طرف دار تھا جبکہ دوسرا بوڑھے وزیر کی بات پر یقین کرتا تھا۔ بوڑھے وزیر نے بادشاہ کی تدفین اور نئے بادشاہ کا مطالبہ شروع کر دیا۔ یہ ماحول دیکھ کر سینئر وزیر نے مائک آف کر دیا اور جلسہ برخاست کر دیا۔

ملک کے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔ عوام دو گروہوں میں بٹ چکے تھے اور اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ سینئر وزیر نے جن وزیروں کو غدار قرار دیا تھا۔ وہ بھی جگہ جگہ جلسے کر رہے تھے اور نئے بادشاہ کے چناؤ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جبکہ سینئر وزیر بھی جلسے کر رہے تھے۔ ان کے ہر جلسے میں تخت پر بادشاہ کی لاش بھی رکھی جاتی۔ وہ ہر جلسے میں اعلان کرتے کہ بادشاہ سلامت اب بھی زندہ ہیں اور انہیں احکامات جاری کرتے ہیں۔

جلسے کے شرکا ان کی بات پر کامل یقین رکھتے تھے۔ اور غداروں کی سرکوبی کا مطالبہ دہراتے تھے۔ دوسری طرف کے وزرا نے شاہی قبرستان میں بادشاہ کے لیے قبر بھی کھدوا لی تھی اور بادشاہ کی تدفین کا مطالبہ کرتے تھے۔ انہوں نے سینئر وزیر سے مطالبہ کیا تھا کہ بادشاہ کی لاش ان کے حوالے کی جائے تاکہ تدفین کا عمل مکمل ہو سکے لیکن سینئر وزیر کسی طور مان کر نہیں دے رہے تھے۔

باغی وزرا نے آپس میں مشورہ کیا کہ سینئر وزیر دماغی توازن کھو چکے ہیں اس لیے وہ بادشاہ کو زندہ سمجھتے ہیں۔ انہیں کسی طرح بادشاہ کی تدفین کرا دینی چاہیے۔ اس طرح شاید ان کو یقین آ جائے اور نئے بادشاہ کے چناؤ کا عمل مکمل ہو سکے۔ بصورت دیگر کسی بادشاہ کے بغیر ملک کا نظام کیسے چلے گا۔ اور اگر اس دوران کسی دشمن ملک نے حملہ کر دیا تو خدا نخواستہ کہیں ملک سے ہی ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ قبر تیار ہو چکی تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بادشاہ کی لاش سینئر وزیر کے قبضے میں تھی۔ باغی وزرا کے شاہی محل میں داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی، باغی وزرا نے ایک پلان بنایا اور شاہی محل کے چند خادموں کو اپنے ساتھ ملا کر آدھی رات کو شاہی محل میں داخل ہو گئے۔

باغی وزرا نے پلان کے مطابق تخت سمیت بادشاہ کی لاش اٹھائی اور سیدھے شاہی قبرستان لے گئے۔ شاہی گورکن تدفین کے لیے مستعد تھا۔ لیکن ابھی اس نے بادشاہ کی لاش کو قبر میں نہیں اتارا تھا کہ قبرستان روشنی سے جگمگا اٹھا۔ سینئر وزیر اور اس کا حمایت یافتہ عوامی گروہ ہاتھوں میں مشعلیں اٹھائے قبرستان میں پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ ساتھ باغی وزرا کا گروہ بھی پہنچ گیا۔

شدید نعرے بازی شروع ہو گئی۔ سینئر وزیر کا گروہ بادشاہ کو اپنے ساتھ محل لے جانا چاہتا تھا۔ وہ نعرے لگا رہے تھے کہ ہم اپنے بادشاہ کو زندہ درگور نہیں ہونے دیں گے۔ وہ بدستور ہمارے بادشاہ رہیں گے۔ باغی وزرا کے ساتھی بھی شور مچا رہے تھے کہ جلد از جلد بادشاہ کی تدفین کی جائے۔ سینئر وزیر اور باغی وزرا نے نہ چاہتے ہوئے بھی مشاورت کا فیصلہ کیا۔ شاہی گورکن بھی ان کے ہمراہ تھا۔

بوڑھے باغی وزیر نے سینئر وزیر سے کہا۔

”غور سے دیکھو، بادشاہ مر چکا ہے اور اس کی لاش کی حالت خراب ہو رہی ہے۔ بہتر ہے کہ تم اب اس حقیقت کو تسلیم کر لو۔“

سینئر وزیر کی آنکھیں شعلے برسانے لگیں اس نے غصے سے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔

”منہ سنبھال کر بات کرو۔ ہمارا بادشاہ زندہ ہے۔ وہ سانس لیتا ہے، ہم سے بات کرتا ہے۔ کیا ہم اسے زندہ دفن کر دیں۔ تم لوگ سازش میں شامل ہو، تم غدار ہو۔“

شاہی گورکن نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔

”حضور! مجھے بتائیے کہ میں کیا کروں، میں کئی دن سے قبر کھود کر بیٹھا ہوں۔ قبر مردہ مانگتی ہے اور آپ ابھی تک فیصلہ ہی نہیں کر پائے کہ یہ مردہ ہے یا زندہ۔“

باغی وزرا نے ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ قبر کھد چکی ہے اور اب انہیں مردے کو اس کے حوالے کر دینا چاہیے۔ لیکن ان کی بات سن کر سینئر وزیر بپھر گیا اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے لاش چھیننے کی کوشش کی۔ عوام میں سے کچھ افراد بھی آگے بڑھے۔ سینئر وزیر کے ساتھیوں نے تخت اٹھا لیا اور قبرستان سے باہر لے جانے لگے۔ یہ دیکھ کر باغی وزرا کے ساتھی بھی آ گئے اور تخت ان سے چھین لیا۔ اب عجیب صورت حال تھی۔ باغی وزرا کے ساتھی بادشاہ کی لاش کو دفن کرنے کے لیے قبر کی طرف لاتے تو سینئر وزیر کے ساتھی لاش چھین کر قبرستان سے باہر لے جانے کی کوشش کرتے مگر وہ بمشکل قبرستان کے گیٹ تک ہی لے جانے میں کامیاب ہوتے اسی اثنا میں باغی وزرا کے ساتھی لاش چھین کر واپس قبر تک لے آتے۔

اچانک قبرستان گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج اٹھا۔ قبرستان کی مٹی کی گرد فضا میں پھیل گئی۔ گرد چھٹی تو سب نے دیکھا۔ سپہ سالار اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آ چکے تھے۔ وہ سب تلواروں سے لیس تھے۔ سپہ سالار اپنے گھوڑے سے اترے اور وزرا سے مخاطب ہوئے۔

”ملک کو ایک بادشاہ کی ضرورت ہے جو تخت پر بیٹھ کر رعایا کے مسئلے حل کر سکے۔ جبکہ ہمارے موجودہ بادشاہ نے چپ سادھ لی ہے۔ آپ لوگ فوراً فیصلہ کریں کہ آیا بادشاہ زندہ ہیں یا رحلت فرما چکے ہیں۔“

سینئر وزیر نے حلق کے بل چیختے ہوئے کہا۔
”بادشاہ سلامت زندہ ہیں اور ہم انہیں کسی صورت دفن نہیں کریں گے۔“
باغی وزرا نے رومال ناک پر رکھتے ہوئے کہا۔

”سینئر وزیر کی ضد ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بادشاہ کی لاش قبر سے باہر گل سڑ گئی تو ہمارے شاہی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہو گی اور ایسا ہمارے ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔“

ایک بار پھر سینئر وزیر اور باغی وزرا میں تو تو میں میں شروع ہو گئی۔ سپہ سالار نے آگے بڑھ کر تلوار لہرائی اور تحکمانہ لہجے میں کہا۔

”کچھ بھی ہو اس قصے کا اب اختتام ہونا چاہیے۔“

ایک بار پھر چھینا جھپٹی شروع ہو گئی۔ اسی دوران ٹھوکر لگنے سے تخت گر گیا اور بادشاہ کی لاش قبر میں جا گری۔ شاہی گورکن نے فوراً بیلچے سے مٹی ڈالنا شروع کردی۔ اس کے ساتھ ہی دونوں طرف کے حامی بھی آگے آ گئے اور گتھم گتھا ہو گئے۔ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ آخر کافی دیر بعد جب تھک ہار کر لوگ پیچھے ہٹے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ قبر کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ تخت بھی خالی تھا۔ اب نہ قبر باقی رہی تھی مردہ۔ اب ایک گروہ مردے کی تلاش میں ہے اور ایک اپنے بادشاہ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments