کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں میں


گزشتہ چند دنوں سے ملک کا سب سے بڑا ادارہ جو ملک میں قوانین بنانے کا ذمہ دار ہے شدید بحرانی کیفیت سے دوچار رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ عدالت عظمیٰ کو اس حوالے سے نوٹس لینا پڑا بالا آخر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد ہی پارلیمنٹ کا یہ بحران ختم ہوا اور اس طرح جمہوریت ایک بار پھر اپنے راستے پر گامزن ہو گئی۔ عدالت عظمی کے اس جرات مندانہ فیصلہ پر داد و تحسین کے ڈونگرے برس رہے ہیں اور واقعتاً اگر ہماری عدالتیں انصاف اور صراط مستقیم کے مطابق فیصلے کرتی رہیں تو اس ملک کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ اسی دوران عدالتوں کے ایک دو اور فیصلے بھی آئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری اعلی عدالتیں انصاف کے قیام میں سنجیدہ ہوتی جا رہی ہیں۔ ورنہ قبل ازیں یہی عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت بعض ایسے فیصلے بھی کر چکی ہیں جن کے باعث جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا رہا ہے۔

خدا کرے کہ ہمارے ملک کی تمام عدالتوں کو تنگ نظری اور تعصب سے محفوظ رہ کر اور اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر ہمیشہ انصاف سے فیصلہ کرنے کی توفیق ملتی رہے۔

پارلیمان کی بحالی کے اس فیصلے پر ملک میں خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے لیکن کیا اس بحالی سے عوام الناس کی زندگی میں کوئی نمایاں تبدیلی پیدا ہوگی یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ آخر جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے۔ اگر عوام الناس کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے محض اپنے فوائد کے حصول کے لیے ہی پارلیمنٹ میں بیٹھیں اور عوام کے مسائل کو نظرانداز کر کے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش میں ہی لگے رہیں تو جمہوریت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

کیا جمہوریت سے محض یہی مراد ہے کہ صرف پارلیمانی منتخب نمائندے آزادی اظہار رائے کے حقدار ہیں۔ مگر عوام جو اپنی بہتری کے لیے ان کو منتخب کرتے ہیں۔ ان کو کسی قسم کے حقوق بھی حاصل نہیں اور وہ اپنے لیے کس بھلائی کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بائیس کروڑ عوام کے اس ملک میں عوام کے لیے کوئی اچھی صحت کی سہولت میسر ہے نہ تعلیم کی اچھی سہولت موجود ہے۔ نہ سڑکوں کی حالت اور ذرائع نقل و حمل کے حالات قابل ذکر ہیں، نہ مارکیٹیں اور کاروبار تسلی بخش ہے، نہ ہی پولیس کی غیر جانبدار حفاظت میسر ہے، نہ سرکاری اداروں میں کوئی شنوائی ہے۔

کوئی جائز کام بھی کروانا ہو تو تعلقات یا رشوت کے بغیر کام ہوتا نہیں۔ مہنگائی ہے کہ دن بدن آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ عمومی روز مرہ اشیاء کی قیمتیں لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو سکولوں سے اٹھا کر مزدوری کروانے کے لیے مجبور ہیں تاکہ گھر کا چولہا جل سکے۔ آمدنی کا ستر سے اسی فیصد صرف پیٹ بھرنے میں ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ آخر یہ عوام کب تک جمہوریت کے نام پر ، عوامی حکومت کے نام پر ، بھائی چارے کے نام پر ان منتخب نمائندوں کے لئے قربانیاں دیتے رہیں گے جن کو یہ حکومت میں لے کر آئے اور یہ معصوم یہ تک نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ ان کے ووٹ کے بل بوتے پر نمائندے منتخب ہوتے ہیں۔

بلکہ یہ خیال کرتے ہیں کہ حکومت کرنا ان لوگوں کا پیدائشی حق ہے اور عوام کا فرض ہے کہ ان کو ووٹ دے کر کامیاب کیا جائے۔ وہ اسی بات پر خوش ہیں کہ فلاں بڑا زمیندار یا سیاستدان ان سے ووٹ لینے پانچ سال قبل ایک دفعہ ان کے گھر آیا تھا اور اس نے ان کے گھر چائے بھی پی تھی۔ خدا کرے کہ اب جو جمہوریت کی اپنی راہ پر گامزن ہونے کی خوشی قوم کو پہنچی ہے اس کے فوائد عوام تک بھی اس طرح پہنچیں کہ وہ بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ورنہ ان کی امیدیں احمد سلمان کے اس شعر کی مصداق ہی رہیں گی۔

یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا پھر اس پہ چھاؤں تلاش کرنا
کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں میں پھر اپنے پاؤں تلاش کرنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).