قصہ ہفتے کی چھٹی کا


ہفتے کے روز بوجھل قدموں کے ساتھ سرکاری دفتر کی جانب جاتے راستے میں آنے والے مناظر بہت اداس کردینے والے تھے۔ ہر چیز سے اک سوگوار کیفیت کا نزول ہو رہا تھا۔ دفتر آئے ساتھیوں کو دیکھ کر یوں گماں ہوتا تھا جیسے کئی سالوں بعد ملے ہوں۔ چہروں پر اداسی اور فکر مندی کے گہرے سائے لہراتے وہ تمام ساتھی جو سابقہ وزیر اعظم کے رقعے کو شک کی نگاہ سے دیکھ کر پھبتیاں کس رہے تھے اب امریکی سامراجوں کی وطن عزیز کے خلاف کی گئی بیرونی سازش پر انہیں خوب آڑے ہاتھوں لے کر بددعائیں دے رہے تھے۔ سب سے زیادہ برا حال خواتین کا تھا جو ہفتے کے پانچ دنوں کو چار دنوں میں تبدیل کرنے کی عادی ہو چکی تھیں کیونکہ جمعے کا دن صرف عبادت کے لیے مختص تھا لہذا اب پریشان تھیں کے کون سے دن کے معمول کو ازسر نو ترتیب دے کر پھر سے آغاز کیا جائے۔

اک طویل مدت بعد ہفتے کے روز سرکاری امور سرانجام دینا ملازمین کو گراں نہ گزرے اس لیے ان کی توجہ مبذول کروانے کے لیے مملکت خداداد کے نئے وزیر اعظم نے ساتھ میں دفتری اوقات کی تبدیلی کا تڑکا بھی لگا دیا تھا۔ جس کی بابت سننے اور دیکھنے والوں نے یوں ماجرا بیان کیا کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اگلی صبح پو پھٹتے ہی خادم اعلیٰ نے اپنی پرانی مشق کے مطابق دارالخلافہ کے سرکاری دفاتر پر چھاپے مارنے کا قصد کیا لیکن جہاں جاتے ہو کا عالم پاتے۔

عملے کو غیر حاضر دیکھ فوراً ان کے خلاف کارروائی کا حکم سنایا تاکہ گزشتہ حکومت کے دور ان ان کی بگڑی ہوئی عادات کی اصلاح کی جا سکے۔ لیکن مصاحبوں نے آگاہ کیا کہ حضور یہ ان کی کوتاہی نہیں بلکہ دفتری اوقات شروع ہونے میں ابھی مزید دو گھنٹے باقی ہیں لہذا قانون کی رو سے ان کے خلاف کارروائی ممکن نہیں۔ سوچا انتظار کی دقت کیونکر اٹھائی جائے ویسے بھی وقت کا ضیاع ملکی مفاد میں نہیں اس لیے فوری طور پر دفتری اوقات دو گھنٹے پہلے شروع کروانے کے احکامات جاری کیے تاکہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کو ممکن بنایا جائے۔ نیز حکومت میں آنے کے بعد ہفتے میں دو دن گھر بیٹھنا کچھ مناسب معلوم نہیں لگا ویسے بھی وطن عزیز کے دستور کے مطابق وزیر اعظم کے پاس بہت کم وقت ہوتا ہے لہذا ہفتے کی رخصت کو بھی رخصت کیا۔

ادھر حکومت کے اس تکلیف دہ فیصلے کی زد میں آئے سرکاری ملازمین اب نئی حکومت سے دو دن میں ہی نالاں ہو کر شکوہ کناں ہیں کہ حضور ملک میں اور بھی غم ہیں سرکاری ملازمین کے سوا۔ ساتھ ہی یہ گتھی بھی ان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جھگڑا تو سیاسی جماعتوں کے درمیان تھا پھر اس کی سزا ہمیں کیوں؟ ہم تو ویسے بھی نیوٹرل تھے۔ یوں بھی تمام ملازمین وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد اجرت بڑھانے کے بیان پر خوشی کے شادیانے بجا رہے تھے کہ اگلے روز وزیر اعظم کے مصاحب کی جانب سے تردید آ گئی کہ سرکاری ملازمین بیان کے سیاق و سباق کو واضح طور پر نہیں سمجھ سکے۔ اسی لیے تو قبلہ خان صاحب فرما گئے ہیں کہ اگر خود کو تباہ کرنا ہو تو سرکاری ملازمت کرلو۔

اس روز سب پر یہ حقیقت بھی آشکار ہو گئی تھی کہ کسی بھی حکومت کو اپنے آئینی مدت کے پانچ سال پورے کرنے کا مکمل حق ہونا کس قدر ضروری ہے۔ ملک میں ہفتے کی سرکاری تعطیل ختم کرنے کے منفی اثرات دیگر شعبوں میں بھی نظر آئے خاص طور پر پنجاب اسمبلی۔ وہاں عوامی نمائندے ایک دوسرے سے یوں دست و گریبان ہوئے کہ اسمبلی کسی اکھاڑے کا منظر پیش کر رہی تھی جہاں پہلوان مختلف داؤ پیج لگاتے اپنی قوت کا مظاہرہ کر رہے ہوں۔ اب عوام کہاں جائے، روزے کے بعد بندہ ان تمام جھمیلوں سے اکتا کر ٹی وی لگائے تو وہاں فہد مصطفی کی بے حسی دیکھ کر اور بھی افسوس ہوتا ہے جو ملک و قوم کے ان تمام سیاسی اور سماجی مسائل سے بے نیاز ہو کر چلا رہا ہوتا ہے۔ ”مجھے چاہیے پانچ لڑکیاں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments