ماہر نفسیات کی ڈائری۔ خالی صراحیاں


میری کینیڈین مریضہ برنڈا پچھلے ہفتے بہت خوش تھی کہ اس کے بوائے فرینڈ شون نے اسے دس ہزار ڈالر کی ایک موٹر سائیکل تحفے کے طور پر دی تھی۔ شون کے پاس پہلے سے ایک موٹر سائیکل تھی اس نے برنڈا کو بھی موٹر سائیکل خرید کر دی تا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ دونوں مل کر سیر کر سکیں اور موسم گرما سے محظوظ ہو سکیں۔

لیکن آج برنڈا آئی تو بہت افسردہ تھی۔ کہنے لگی

’ میں موٹر سائیکل کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے امتحان دینے گئی تو نروس ہو گئی اور امتحان میں فیل ہو گئی‘

اس کے بعد وہ زار و قطار رونے لگی۔ جب وہ خاموش ہوئی تو میں نے کہا
’ تم جانتی ہو کہ تمہیں موٹرسائیکل چلانی اچھے سے آتی ہے اس لیے تم اگلی دفعہ ضرور پاس ہو جاؤ گی‘

کہنے لگی ’میں زندگی میں کبھی کسی امتحان میں فیل نہیں ہوئی۔ میرے لیے پہلی دفعہ فیل ہونا بہت مشکل تھا۔ یہ میری زندگی کی پہلی ناکامی تھی۔ میں اتنی دکھی ہوئی کہ سارا ویکنڈ روتی رہی۔ شون نے میری بہت ہمت بندھائی اور تسلی دی‘

میں نے کہا ’برنڈا۔ کامیابی اور ناکامی اضافی چیزیں ہیں۔ اصل چیز تو زندگی کا تجربہ ہے جو بہت قیمتی ہوتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ جسے ہم زندگی کے ایک دور میں کامیابی سمجھتے ہیں وہ اگلے دور میں ناکامی لگتی ہے اور جو ایک دور میں ناکامی لگتی ہے وہ دوسرے دور میں کامیابی محسوس ہوتی ہے۔

زندگی کے جس تکلیف دہ یا خوش کن تجربے کو ہم اپنی ذات میں جذب کر سکتے ہیں وہ ہماری شخصیت کو بڑھاوا دیتا ہے ’

برنڈا نے کہا ’میں آپ کی بات پوری طرح سمجھی نہیں پائی۔ مجھے کوئی مثال بتائیں تا کہ میں اسے پوری طرح سمجھ سکوں‘

میں نے کہا ’میں آپ کو اپنی زندگی کی ایک ناکامی کی کہانی سناتا ہوں۔

جب میں نے میموریل یونیورسٹی میں ریزیڈنسی کے چار سال مکمل کر لیے تو میں نے نفسیات میں فیلوشپ کے امتحان کے لیے درخواست دی۔ روئل کالج نے مجھے امتحان کے لیے مونٹریال بلایا۔

مونٹریال پہنچا تو امتحان کی تفاصیل معلوم ہوئیں۔
پتہ چلا کہ امتحان دو گھنٹوں کا ہو گا۔
پہلے گھنٹے میں مجھے ایک اجنبی مریض دیا جائے گا جسے میں ایک گھنٹہ انٹرویو کروں گا۔

اس دوران ون وے مرر کے دوسرے طرف دو ممتحن میرا انٹرویو دیکھیں گے۔ میرے انٹرویو کے بعد پھر وہ دونوں ممتحن میرے کمرے میں آئیں گے اور میرا ایک گھنٹے کا انٹرویو لیں گے۔

پھر شام کو سب طالبعلم جمع ہوں گے اور انہیں لفافے دیے جائیں گے جن میں امتحان کے نتائج ہوں گے۔
جس طالب علم کو لکھا ملے گا
WE ARE PLEASED TO INFORM YOU
وہ پاس ہو جائے گا اور جس کے خط میں لکھا ملے گا
WE REGRET TO INFORM YOU
وہ فیل ہو جائے اور چھ ماہ بعد دوبارہ امتحان دے سکے گا۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ امتحان کے دن مختلف طالب علموں کا چار حصوں میں امتحان ہو گا
آٹھ بجے سے دس بجے
دس بجے سے بارہ بجے
بارہ بجے سے دو بجے
دو بجے سے چار بجے
میرا امتحان صبح آٹھ بجے سے دس بجے تک کا تھا۔

میں نے سوچا مجھے امتحان کے لیے بہت جلد اٹھنا پڑے گا لیکن پھر سوچا کہ امتحان سے جلد فارغ ہو کر میں مونڑیال شہر کی سیر کرنے چلا جاؤں گا اور پھر شام چھ بجے نتیجہ لینے آ جاؤں گا۔

بعد میں مجھے پتہ چلا کہ صبح آٹھ بجے امتحان دینا اچھا شگون نہ تھا کیونکہ دس بجے بارہ بجے اور دو بجے والے مریض گھروں سے بلائے گئے تھے جو کافی عرصے سے نفسیاتی علاج کروا رہے تھے اور ذہنی طور پر کافی بہتر ہو چکے تھے لیکن صبح آٹھ بجے والے مریض ایسے تھے جو نئے تھے۔

مجھے ایک پچیس برس کا مریض دیا گیا جو سکزوفرینیا کا مریض تھا۔

اس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک رات پہلے ہسپتال میں داخل ہوا تھا اور اسے بہت سی ادویہ دی گئی تھیں۔ وہ کافی پریشان تھا اور اس کے لیے ایک جگہ پر ایک گھنٹہ بیٹھنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ دس منٹ کے انٹرویو کے بعد مریض پوچھنے لگا

کیا میں کمرے میں چہل قدمی کر سکتا ہوں
میں نے کہا ’ضرور کریں‘
وہ چہل قدمی بھی کرتا رہا اور انٹرویو بھی دیتا رہا۔
جب وہ چہل قدمی کر رہا تھا اس وقت میرے دل نے کہا

خالد سہیل ایسے بیمار مریض کو امتحان کے لیے انٹرویو کرنا زیادتی کی بات ہے۔ وہ بڑی مشکل سے انٹرویو دے رہا ہے۔ تم اسے واپس اپنے کمرے میں جانے دو۔

میں نے دل سے کہا۔ لیکن اگر وہ چلا گیا تو میں فیل ہو جاؤں گا

میرے دل نے جواب دیا ’فیلو شپ کے امتحان میں فیل لیکن زندگی کے امتحان میں پاس ہو جاؤ گے۔ تم اپنے آپ کو انسان دوست کہتے ہو اس وقت تمہاری انسان دوستی کا بھی امتحان ہے۔ ‘

چنانچہ میں نے مریض کو جانے دیا اور فیلوشپ کے امتحان میں فیل لیکن اپنے ضمیر کے امتحان میں پاس ہو گیا۔ چھ ماہ بعد دوبارہ امتحان دیا تو فیلو شپ میں بھی اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔

میری مریضہ میری کہانی سے بہت متاثر ہوئی اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ کہنے لگی
’اب مجھے کچھ حوصلہ ملا ہے۔ اب میں پرامید ہوں کہ اگلی دفعہ میں بھی امتحان میں پاس ہو جاؤں گی‘
برنڈا چلی گئی تو مجھے فیلوشپ کے امتحان کے حوالے سے دو اور واقعات اور اپنی ایک نثری نظم یاد آئی۔
پہلے نثری نظم ہو جائے اور پھر دو واقعات
نثری نظم کا عنوان ہے
خالی صراحیاں
ہماری زندگیاں
خالی صراحیاں ہیں
جنہیں ہم
عمر بھر
اپنی خواہشوں
اپنی آرزوؤں
اپنی تمناؤں
اپنی عداوتوں
اپنی رقابتوں
اور
اپنی محبتوں
کی رنگیں شرابوں سے
بھرتے رہتے ہیں
لیکن اکثر اوقات
بھول جاتے ہیں
کہ در حقیقت
ہماری زندگیاں
بے رنگ خالی صراحیاں ہیں
اب دو واقعات

پہلا واقعہ یہ تھا کہ جب میں مونٹریال میں فیلوشپ کا امتحان دے رہا تھا اسی دن ہمارے ایک سائیکوتھراپی کے استاد PROFESSOR LIBERAKISبھی امتحان دے رہے تھے۔ وہ یونان سے ہر سال ایک سمیسٹر پڑھانے آتے تھے۔ وہ پارٹ ٹائم پروفیسر تھے۔ میموریل یونیورسٹی نے انہیں کہا کہ آپ کینیڈا چلے آئیں ہم آپ کو فل ٹائم پروفیسر بنا دیں گے۔ وہ راضی ہو گئے لیکن اس پروفیسر شپ کے لیے انہیں فیلوشپ کا امتحان دینا تھا۔

امتحان میں انہیں جو مریض دیا گیا اس نے آدھ گھنٹے کے بعد کہا کہ وہ فرنچ ہے اس لیے اسے انگریزی میں انٹرویو دیتے ہوئے مشکل ہو رہی ہے۔ وہ فرنچ میں انٹرویو دینا چاہتا ہے

پروفیسر لبراکیز کو فرنچ بھی آتی تھی چنانچہ دونوں نے فرنچ میں انٹرویو مکمل کیا۔ لیکن جن ممتحنوں نے مجھے فیل کیا انہوں نے پروفیسر لبراکیز کو بھی فیل کر دیا کیونکہ ان ممتحنوں کو فرنچ نہ آتی تھی۔

اس واقعہ سے پروفیسر لبراکیز اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ وہ پھر کبھی ہمیں پڑھانے نہ آئے اور مجھے ان کے فیل ہونے اور واپس نہ آنے کا بہت دکھ ہوا۔

مجھے لگا کہ ممتحنوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔

دوسرا واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ میری ایک دوست ڈاکٹر کیرن کے ساتھ فیلو شپ کے امتحان اور نتائج کے بارے میں ایک شرط لگی۔

فیلو شپ کے امتحان میں جو طالب علم سو میں سے پچھہتر نمبر یا زیادہ لیتا ہے وہ پاس ہو جاتا ہے اور جو پچھہتر سے کم نمبر لیتا ہے وہ فیل ہو جاتا ہے۔ ممتحن کے سامنے

نتائج کے دس حصے اور دس خانے ہوتے ہیں اور ہر خانے کے دس نمبر ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر
انٹرویو کرنے کے دس نمبر
تشخیص کے دس نمبر
طریقہ علاج کے دس نمبر وغیرہ وغیرہ

میں نے کہا کہ جب امتحان ختم ہوجاتا ہے تو ممتحن پہلے سو میں سے کل نمبر دیتے ہیں اور ڈاکٹر کیرن نے کہا وہ دس حصوں میں تھوڑے تھوڑے نمبر دیتے ہیں اور پھر ان نمبروں کو جمع کر کے کل بناتے ہیں

ہم نے ایک ڈنر کی شرط لگائی۔

اتفاق سے نفسیات کی ایک کانفرنس کے بعد جب سب ڈاکٹر ڈنر پر جمع ہوئے تو میرے ساتھ جو ڈاکٹر بیٹھے تھے وہ لندن سے آئے ہوئے ڈاکٹر سمز تھے اور وہ ممتحن تھے۔

میں نے اور ڈاکٹر کیرن نے سوچا کہ ڈاکٹر سمز ہمیں بتا سکتے ہیں کہ ہم دونوں میں سے کون درست سوچتا ہے تا کہ وہ شرط جیت جائے

چنانچہ میں نے ڈاکٹر سمز کو اپنی شرط بتائی اور پوچھا کہ ہم دونوں میں سے کون درست ہے۔
ڈاکٹر سمز نے مجھ سے کہا آپ شرط جیت گئے کیونکہ میں امتحان کے آخر میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں
پاس یا فیل
پاس ہونے والے کو پچھہتر یا اس سے زیادہ نمبر دے دیتا ہوں
فیل ہو تو چوہتر یا اس سے بھی کم نمبر دے دیتا ہوں
اور پھر دس خانوں میں وہ نمبر بانٹتا ہوں۔
مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے پوچھ ہی لیا
ڈاکٹر سمز ایک سوال اور۔ آپ کس بنیاد پر کسی طالب علم کو پاس یا فیل کرتے ہیں؟
ڈاکٹر سمز مسکرائے اور کہنے

’میں پچیس برس سے ممتحن ہوں لیکن مجھے آج تک کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا چونکہ آپ کا سوال بہت دلچسپ ہے اس لیے جواب دینا چاہوں گا۔ جب امتحان ختم ہو جاتا ہے تو میں اپنے آپ سے کہتا ہوں۔

اگر یہ طالب علم پاس ہو گیا تو اسے فیلوشپ مل جائے گی یہ ماہر نفسیات بن جائے گا اور اپنے کلینک میں نفسیاتی مریضوں کا علاج کرے گا۔

پھر میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں اگر یہ ماہر نفسیات بن گیا اور میری والدہ کو اینزائٹی کا مسئلہ ہو جائے یا میرا کوئی دوست ڈپریشن کا شکار ہو جائے تو کیا میں اس ماہر نفسیات پر اتنا اعتماد و اعتبار کروں گا کہ وہ میری والدہ یا میرے دوست کا علاج کرے

اگر جواب۔ ہاں۔ ہو تو پاس کر دیتا ہوں
اگر جواب۔ نہ۔ ہو تو فیل کر دیتا ہوں۔
میں نے ڈاکٹر سمز کا شکریہ ادا کیا اور ڈاکٹر کیرن سے مسکراتے ہوئے کہا
’آپ شرط ہار گئی ہیں اب کسی شام ڈنر کھلانے کا انتظام و اہتمام کریں‘
اور ڈاکٹر کیرن کے چہرے پر بھی شریر سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail