وفاقی کابینہ میں شامل وزرا کون ہیں؟

احمد اعجاز - صحافی


سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے اور اِن کے وزیرِ اعظم نہ رہنے کے بعد، اتحادی جماعتوں کی حکومت نے آخرِ کار اپنی وفاقی کابینہ تشکیل دے دی ہے۔ وفاقی کابینہ مجموعی طور پر 34 اراکین پر مشتمل ہے جس میں 30 وفاقی وزرا، چار وزرائے مملکت اور تین مشیر شامل ہیں۔

ایوان صدر سے جاری ہونے والی تفصیلات کے مطابق نئی وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ ن کے 12 وفاقی وزرا، دو وزرائے برائے مملکت اور دو مشیر ہوں گے اور پیپلزپارٹی کے نو وفاقی وزیر، دو وزرائے مملکت اور ایک مشیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام کو چار جبکہ ایم کیو ایم کو دو وزارتیں ملی ہیں۔

وفاقی کابینہ میں شامل سیاسی رہنما کون ہیں، آئیے ان کی سیاست کا جائزہ لیتے ہیں۔

خواجہ اصف

خواجہ محمد آصف

خواجہ محمد آصف مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما ہیں۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے خواجہ آصف اپنی سیاسی وضع میں دبنگ انسان ہیں۔ متعدد مواقع پر دیے گیے اُن کے کئی بیانات اور سیاسی چٹکلے موضوعِ بحث رہتے ہیں۔

کیڈٹ کالج حسن ابدال اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے والے خواجہ محمد آصف بینکار بھی رہے۔

خواجہ محمد آصف قومی سطح کے ساتھ اپنے حلقے کے عوام میں بھی بہت مقبول ہیں اور سنہ 1993 کے انتخابات سے سنہ 2018تک وہ مسلسل انتخابات میں فتح یاب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ کے سابقہ ادوار میں خواجہ آصف نجکاری کمیشن کے چیئرمین، پیٹرولیم و قدرتی وسائل، کھیل اور دفاع کے وزیر رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کی سنہ 2017 میں نااہلی کے بعد جب شاہد خاقان عباسی وزیرِاعظم منتخب ہوئے تو خواجہ آصف کو وزارتِ خارجہ کا قلمدان سونپا گیا تھا۔

احسن اقبال

احسن اقبال

احسن اقبال مسلم لیگ کے جنرل سیکریٹری ہیں اور نواز شریف اور شہباز شریف دونوں کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔

احسن اقبال سنہ 1993 میں پارلیمانی سیاست کا حصہ بنے تھے۔ انھوں نے سنہ 1993 سے سنہ 2018 کے دوران چھ مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا، پانچ بار کامیاب ٹھہرے جبکہ 2002 کے الیکشن میں اپنی سیٹ جیتنے میں ناکام رہے تھے۔

نارووال سے تعلق رکھنے والے احسن اقبال کی سیاست کا جائزہ بتاتا ہے کہ اِن کی سیاست دو حصوں میں منقسم ہے۔ سنہ 1993سے 2008 کے انتخابات تک اور پھر 2008 کے انتخابات سے اب تک۔

سنہ 2008 کے انتخابات کے بعد یہ نئے انداز سے سامنے آئے اور پارٹی کے اندر اور ملکی سطح کی سیاست میں اہمیت اختیار کرتے گئے۔ احسن اقبال کو چار اگست 2017 کو وزیرِ داخلہ کا قلمدان سونپا گیا تھا۔

اس سے قبل یہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی بھی رہے۔ احسن اقبال کا گھرانہ سیاست میں نیا نہیں۔ اِن کے نانا چودھری عبدالرحمن پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کے رُکن رہے۔ اِن کی والدہ نثار فاطمہ پاکستانی سیاست میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

سنہ 2013 کے انتخابات میں قائم ہونے والی مسلم لیگ ن کی حکومت 2018 کے انتخابات تک مجموعی طور پر مشکلات کا شکار رہی۔ اس جماعت کے رہنما کئی طرح سے زیر عتاب رہے۔ احسن اقبال ان میں سے ایک ہیں۔ احسن اقبال چھ مئی 2018 کو انتخابات سے قبل اپنے ہی حلقہ میں کارنر میٹنگ کے دوران مسیحی برادری سے مخاطب تھے کہ ایک شخص نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا جس میں وہ زخمی ہوئے۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں وہ نیب کی حراست میں بھی رہے۔

خواجہ سعد رفیق

خواجہ سعد رفیق

خواجہ سعد رفیق کی سیاست کا آغاز اَسی کی دہائی میں سٹوڈنٹ پالیٹکس سے ہوا جب انھوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ایم ایس ایف کے پلیٹ فارم سے کیا۔ نوے کی دہائی میں پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوا اور سنہ 1997کے انتخابات میں انھوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے کامیابی سمیٹی۔

صوبائی سطح پر سیاست کا آغاز کرنے والے خواجہ سعد رفیق نے 2002 کے الیکشن میں پہلی مرتبہ ایم این اے کی سیٹ پر کامیابی حاصل کی۔ دوسری باری 2008، تیسری بار 2013 اور چوتھی بار 2018 کے ضمنی الیکشن میں کامیاب ہوئے۔

سنہ 2018 کے عام انتخابات میں ان کے حلقہ پر سب کی نظریں تھیں کیونکہ ان کے مدمقابل عمران خان تھے۔

ایاز صادق

ایاز صادق

سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی سیاست کا آغاز پاکستان تحریک انصاف سے وابستگی کے ساتھ ہوا تھا۔

تحریکِ انصاف سے وابستگی کی بنیادی وجہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ اِن کا تعلق تھا۔ عمران خان اور اِن کے مابین دوستی کا تعلق سکول کے زمانے سے شروع ہوا۔ مشرف کے اقتدار پر قبضہ جمانے کے بعد ایاز صادق نے تحریک انصاف سے راستے جدا کر کے مسلم لیگ ن کے ساتھ جوڑ لیے۔ یہ تین بار مسلسل ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔

انھوں نے 1997 کا الیکشن صوبائی سطح پر پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے تھے۔ سنہ 2013 کے الیکشن میں لاہور کے حلقہ این اے 122 سے انھوں نے عمران خان کو شکست دی تھی۔

بعدازاں پی ٹی آئی نے جن چار حلقوں کو کھولنے کا کہا تھا اُن میں ایک یہ حلقہ بھی تھا۔

رانا ثنا اللہ

رانا ثنا اللہ

رانا ثنا اللہ کی شخصیت میں ’لائل پوری‘ ہونے کی جھلک پائی جاتی ہے۔ یہ مشکل گھڑی میں بھی گفتگو میں مزاح اور کاٹ کا موقع ضائع نہیں کرتے۔ رانا ثنا مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر ہیں۔ اِن کی سیاست کا آغاز نوے کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہوا تھا، بعد میں انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔

اس وقت پارٹی کے مرکزی رہنماؤں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ یہ وفاقی کابینہ کا پہلی بار حصہ بن رہے ہیں۔ رانا ثنا پنجاب اسمبلی میں مختلف ادوار میں اہم صوبائی وزارتوں پر فائز رہے ہیں۔

17 جون 2014 کو ماڈل ٹاؤن سانحہ کے وقت رانا ثنا اللہ صوبائی وزیرِ قانون تھے۔ اس حادثے کے محرکات نے بعدازاں ایک مُدت تک مسلم لیگ ن کے لیے مشکلات کو جنم دیے رکھا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں رانا ثنا اللہ پر منشیات کا کیس بنایا گیا تھا۔ انھیں یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ 24 دسمبر 2019 کو یہ ضمانت پر رہا ہوئے۔

اعظم نذیر تارڑ

اعظم نذیر تارڑ کی بنیادی شہرت ایک معروف قانون دان کی ہے۔ وہ ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر پہلی مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔ پی ڈی ایم اتحاد سے پیپلز پارٹی کی راہیں جُدا کرنے کی ایک وجہ سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی جانب سے اپوزیشن لیڈر کے طور پر اعظم نذیر تارڑ کی نامزدگی کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔

اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ملزم کے وکیل تھے۔ اعظم تارڑ پہلی بار وفاقی کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔

صحافی اکمل شہزاد گھمن جو ان کے قریبی رفقا میں سے ہیں، اِن کے بڑے بھائی ڈاکٹر معظم تارڑ کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ ’اعظم نذیر تارڑ کو بچپن ہی سے سیاست سے لگاؤ رہا ہے۔ یہ سیاسی جلسوں کی روداد گھر میں والد کو آ کر سُنایا کرتے تھے۔ وہ موجودہ آرمی چیف قمر باجوہ کے کلاس فیلو بھی رہے ہیں۔‘

مریم اورنگزیب

مریم اورنگزیب

مریم اورنگزیب کی والدہ اور خالہ طویل عرصہ سے مسلم لیگ ن سے وابستہ ہیں۔ طاہرہ اورنگزیب خواتین کی مخصوس نشست پر مسلم لیگ ن کی ایم این اے ہیں۔

مریم اورنگزیب کو سنہ 2013 کے عام انتخابات میں قائم ہونے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اُس وقت وفاقی وزیرِ اطلاعات بنایا، جب 29 اکتوبر 2016 کو پرویز رشید کو وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات سے ہٹایا گیا تھا۔

مسلم لیگ ن کے لیے یہ ایک کڑا وقت تھا، مگر مریم اورنگزیب نے اس عہدے کے لیے خود کو بہترین چوائس ثابت کیا۔

ملکی سیاست کے ساتھ مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کالم نگار خورشید ندیم کہتے ہیں کہ ’مریم اورنگزیب نے مشکل کی ہر گھڑی میں اپنے خاندانی روایات کو مقدم رکھتے ہوئے شریف خاندان کا ساتھ دیا۔ مشرف کے دور میں سنہ 2000 میں راولپنڈی کے جب سب دروازے کلثوم نواز پر بند ہو چکے تھے، ایک ہی دروازہ ایسا تھا جو نجمہ حمید اور طاہرہ اورنگزیب کا تھا جو اُن کے لیے کُھلا رہتا۔‘

’جس طرح مریم اورنگزیب کی والدہ اور خالہ، کلثوم نواز کے ساتھ کھڑی رہیں، اسی طرح مریم اورنگزیب، مریم نواز کے لیے ڈٹ کر کھڑی رہی ہیں۔‘

سید خورشید احمد شاہ

خورشید شاہ

سید خورشید احمد شاہ سینیئر سیاست دان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما ہیں۔ اِن کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر سکھر سے ہے۔ یہ 1968 سے عملی طور پر سیاست میں ہیں۔ کالج کے زمانہ میں سنہ 1974 میں طلبہ یونین کے نائب صدر پھر چار سال بعد صدر بن گئے۔

سنہ 1979 میں پارٹی کی طرف سے سکھر میونسپل کارپوریشن کے الیکشن میں حصہ لیا اور جیت گئے۔ اُس وقت ان کی عمر محض 27 برس تھی۔ 1980 میں خورشید شاہ سکھر میں پارٹی کے صدر بنے۔ سنہ 1988 کے انتخابات میں صوبائی سطح کی سیاست کا آغاز کیا اور ایم پی اے منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بھی رہے۔

سنہ 1990 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی سیٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے۔ ان کی کامیابی کا سلسلہ بلاتعطل 2018 کے عام انتخابات تک جاری رہا۔ سنہ 2013 کے انتخابات میں قائم ہونے والی مسلم لیگ کی حکومت میں یہ اپوزیشن لیڈر تھے۔

سنہ 2014 میں جب عمران خان اور طاہرالقادری کی جماعتوں نے مل کر اسلام آباد دھرنا دے رکھا تھا اور 28 اگست کو عمران خان اور طاہرالقادری نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سے ملاقات کی، تو یہ خبر سامنے آئی تھی کہ حکومت نے فوج سے ثالثی کی مدد مانگی ہے۔

اگلے روز پارلیمنٹ کے اجلاس میں سید خورشید شاہ نے جوش سے بھرپور تقریر کرتے ہوئے کہا ’وزیراعظم کو ڈٹ جانا چاہیے، پھر دیکھتے ہیں کہ کون جمہوریت کی بساط کو لپیٹتا ہے۔‘ ان کی تقریر کا میاں نوازشریف پر اس قدر اثر ہوا کہا اُنھوں نے کہا ’فوج کی ثالثی کی بات عمران اور طاہرالقادری نے خود کی تھی۔ مجھے یہ اطلاع دی گئی کہ یہ دونوں آرمی چیف سے ملنا چاہتے ہیں۔‘

نواز شریف کی اس تقریر کا آئی ایس پی آر نے یہ کہہ کر ردِعمل دیا تھا کہ ’حکومت نے خود سہولت کار بننے کا کہا تھا۔‘

خورشید شاہ نے اپنی مذکورہ تقریر کے حوالہ سے مجھے اپنے انٹرویو میں بتایا تھا کہ ’اگر 2014 میں پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر دھیمے انداز میں بات کرتا تو کچھ اثر نہ ہوتا۔ میری آواز میں سچائی تھی، گونج تھی، اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ حالات خطرے میں ہیں۔‘

خورشید شاہ کی سیاست اِن کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں بھی لائی۔ خورشید شاہ کے مطابق ’اُنھیں پہلی مرتبہ سنہ 1977 میں جیل ہوئی پھر 1979 میں، 1983 اور 1986 اور پھر 1990 میں جیل کاٹنی پڑی۔‘

واضح رہے کہ 19ستمبر 2019 کو اِنھیں آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ 25 ماہ بعد ضمانت منظور ہونے پر رہا ہوئے۔

نوید قمر

سید نوید قمر

سید نوید قمر پیپلزپارٹی کے سینیئر رہنما ہیں۔ اِن کی سیاست کا آغاز 1988 کے الیکشن سے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم پر صوبائی نشست سے ہوا تھا۔ یہ صوبائی وزیرِ اطلاعات بھی رہے۔

سنہ 1990 کے انتخابات میں یہ صوبائی سے قومی اسمبلی کی سیٹ پر آ گئے۔اس وقت سے 2018 کے انتخابات تک یہ ناقابلِ شکست چلے آ رہے ہیں۔ یہ مختلف ادوار میں مختلف وزارتوں پر فائز رہے۔

نوید قمر وفاقی وزیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل، وزیر برائے پانی و بجلی، اور دفاع کے وزیر بھی رہے۔ سنہ 2016 میں انھیں قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کا پارلیمانی لیڈر بنایا گیا تھا۔

شیری رحمان

شیری رحمان

شیری رحمان پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما ہیں اور انھیں پارٹی میں بڑی حیثیت حاصل ہے۔ شیری سنہ 1960 میں کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی خاتون نائب صدر ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔

ایسا ہی کچھ اعزاز شیری رحمان کے پاس بھی ہے جب وہ مارچ 2018 میں سینیٹ میں پہلی خاتون قائد حزبِ اختلاف مقرر ہوئیں۔

شیری رحمان نے امریکہ سے سیاسیات اور آرٹ ہسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ شیری رحمان کا تعلق صحافت سے بھی رہا۔ شیری رحمان 2002 کے انتخابات میں پہلی مرتبہ پی پی پی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئیں۔ اسی طرح دوسری بار یہ 2008 کے الیکشن میں مخصوص نشست پر رُکن منتخب ہوئیں۔ شیری رحمان وفاقی وزیرِ اطلاعات کے علاوہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر بھی رہ چکی ہیں۔

نومبر 2011 کو یہ امریکہ میں سفیر مقرر ہوئی، بعدازاں انتخابات کے بعد یہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئی تھیں۔

شیری رحمان کی پارلیمان میں موجودگی خواتین کے حقوق کی آئینہ دار بھی رہی ہے۔ انھوں نے خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے قوانین کی تیاری میں بھرپور معاونت کی۔

حنا ربانی کھر

کھر خاندان کی حنا ربانی کھر پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ خارجہ ہونے کا اعزاز رکھتی ہیں۔ حنا جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ کے علاقہ سنانواں سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا خاندان سیاست میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔

جب حنا ربانی کھر نے وزاتِ خارجہ کا قلمدان سنبھالا تھا تو ان کی عمر بمشکل 35 برس تھی۔ ان کے وزیرِ خارجہ بنتے وقت کئی تجزیہ کاروں کی جانب سے تنقید سامنے آئی تھی۔ اور اس بارے میں کہا گیا تھا کہ ایک کم عمر اور کم تجربہ کار شخصیت کو اہم وزارت سے نواز دیا گیا۔ مگر حنا ربانی کھر نے جب انڈیا کا دورہ کیا تو لوگوں کی توجہ کو اپنی جانب مرکوز کیا تھا۔

شازیہ مری

شازیہ مری

سندھ سے تعلق رکھنے والی شازیہ مری کے والد عطا محمد مری قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلی کے رکن رہے ہیں۔ عطا مری سندھ اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر بھی رہے۔ عطا محمد مری کے والد برطانوی عہد میں قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔

شازیہ مری کی سیاست کا آغاز سندھ اسمبلی سے خواتین کی مخصوص نشست سے انتخابات کی صورت میں ہوا۔ سنہ 2002 اور 2008 میں یہ سندھ اسمبلی کی نشست پر رہیں۔

جولائی 2012 میں سندھ کی مخصوص خواتین نشست پر قومی اسمبلی کی رُکن بن گئیں۔ اس وقت یہ سانگھڑ کے حلقہ این اے 216سے ایم این اے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سنیچر کی شب وزیراعظم ہاؤس میں آخر ہوا کیا؟

اب ’زخموں سے چُور‘ چوہدری پرویز الہٰی کی سیاست کا مستقبل کیا ہے؟

صدر عارف علوی موجودہ حکومت کے لیے کیا مشکلات کھڑی کر سکتے ہیں؟

زاہد اکرم درانی

زاہد اکرم درانی، اکرم خان درانی کے صاحبزادے ہیں۔ اکرم درانی جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیئر رہنما ہیں۔ یہ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے سنہ 2002 سے 2007 تک خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔

اکرم درانی گذشتہ دورِ حکومت میں وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس بھی کام کر چکے ہیں۔

سنہ 2018 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا کے حلقہ این اے 35 پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور اکرم خان درانی کے مابین مقابلہ ہوا۔ یہ شہر جمعیت علمائے اسلام ف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، مگر عمران خان نے اکرم خان درانی کو شکست سے دوچار کیا۔ بعد میں جب سابق وزیرِ اعظم نے یہ سیٹ خالی کی تو یہاں زاہد اکرم درانی نے اپنے والد کی شکست کا بدلہ لیا اور ایم این اے منتخب ہوئے۔

سنہ 2018 کے عام انتخابات میں پی کے 88 سے صوبائی سطح کا الیکشن لڑا اور پی ٹی آئی کے امیدوار سید نسیم علی شاہ سے ہار گئے تھے۔

بنوں سے تعلق رکھنے صحافی محمد وسیم کہتے ہیں ’زاہد اکرم درانی ملنسار شخصیت ہیں۔ اپنے رویے میں بے حد لچک رکھتے ہیں۔ وہ اپنے حلقے کے عوام سے رابطے میں رہتے ہیں۔‘

اسد محمود

اسد محمود مولانا فضل الرحمان کے بڑے بیٹے ہیں۔ یہ 2018 کے الیکشن میں ٹانک کے حلقہ این اے 37 سے منتخب ہو کر پارلیمان کا حصہ بنے۔ جبکہ 2013 کے ضمنی الیکشن میں ٹانک کے حلقہ سے ہار گئے تھے۔

یہ ملتان میں قاری حنیف جالندھری کے مدرسہ خیر المدارس سے فارغ التحصیل ہیں اور ملتان میں جامعہ قاسم العلوم کے مہتمم ہیں۔

اسد سنہ 2018 میں پہلی مرتبہ جیت کر سامنے آئے ہیں۔ ان کی سیاسی تربیت مولانا فضل الرحمان نے خود کی ہے۔ اسلام آباد کے صحافی عمر فاروق جو جمعیت علمائے اسلام ف کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں بتاتے ہیں کہ ’ایک بار اسد محمود نے اپنے والد مولانا فضل الرحمن سے کہا کہ میں قائداعظم یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقاتِ عامہ کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ تو جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تم! گھر میں یونیورسٹی چھوڑ کر باہر جانا چاہتے ہو۔‘

سید فیصل علی سبزواری

سید فیصل علی سبزواری متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے اہم اور سینیئر رہنما ہیں جن کی سیاست کا آغاز سنہ 2002 سے ہوا۔

فیصل سبزواری سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہے۔ سنہ 1975 میں پیدا ہونے والے فیصل سبزواری ایم کیو ایم پاکستان کا ایک سافٹ امیج ہیں۔ یہ کراچی کی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

شاہ زین بگٹی

شاہ زین بگٹی نے حالیہ عرصہ میں پی ٹی آئی سے اپنا اتحاد ختم کیا ہے۔ یہ جمہوری وطن پارٹی کے رہنما ہیں۔ شاہ زین بگٹی، طلال بگٹی کے صاحبزادے ہیں۔

سنہ 2018 کے انتخابات میں شاہ زین بگٹی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ جبکہ اِن کے بھائی صوبائی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ 2018 میں یہ پی ٹی آئی حکومتی اتحاد کا حصہ بنے تھے۔ مگر جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تو اِنھوں نے پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کر دیا۔

شاہ زین بگٹی نے بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کر کے اس وقت کی وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ اِن کا پی ٹی آئی حکومت پر اعتراض یہ تھا کہ یہ ڈیلیور کرنے میں یکسر ناکام رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32505 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments