نئی حکومت نئے چیلنجز


عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں نئی حکومت منتخب ہو گئی ہے۔ یہ ایک مخلوط حکومت ہے جس میں دس سے زیادہ سیاسی جماعتیں اس مخلوط حکومت کا حصہ ہیں۔ یہ حکومت بھی نہ صرف مخلوط حکومت ہے بلکہ عددی تعداد میں ایک کمزور حکومت بھی ہے جو محض دو ووٹوں کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ عمومی طور پر پاکستان کا بنیادی مسئلہ ایک مضبوط سیاسی حکومت ہے جو نہ صرف عددی تعداد میں واضح برتری حاصل ہو بلکہ اسے اتحادی جماعتوں کی جانب سے حکومت بچاؤ تحریک میں سیاسی بلیک میلنگ کا شکار نہ ہو۔

کیونکہ چند ووٹوں کی بنیاد پر بننے والی حکومتیں بحران کو حل کرنے کی بجائے اور زیادہ مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ کیونکہ اتحادی جماعتوں کا سیاسی المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تو کھڑی ہوتی ہیں مگر حکومتی بحران یا مسائل میں حصہ دار بننے کی بجائے ساری ناکامی کا ملبہ حکومت پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔

شہباز شریف کی نئی حکومت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب ملک کے سیاسی منظرنامہ میں نہ صرف ایک بڑا سیاسی بحران ہے بلکہ اس برس کو ہی عام انتخابات کا برس بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ انتخابات 2023 جولائی میں ہی متوقع ہیں مگر سیاسی صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ یہ ملک اسی برس میں کسی بھی وقت نئے انتخابات کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ شہباز شریف کی نئی حکومت کو پانچ محاذوں پر بڑے چیلنجز درکار ہیں۔ ان میں اول وزیر اعظم کا بڑا چیلنج دس بارہ جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت کو چلانا ہے۔

کیونکہ مسلم لیگ نون کا ماضی کا ریکارڈ یہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ مخلوط حکومت کو چلانے کا کوئی اچھا تجربہ نہیں رکھتے۔ دوئم قومی اسمبلی سے تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی مستعفی ہو گئے ہیں اور ان کے بقول فوری انتخابات ہی مسئلہ کا حل ہے۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف چاروں اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر ایک بڑا سیاسی بحران پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سوئم گورننس کا بحران ہے اور وہ کیسے اس مختصر عرصہ میں عوام کو معاشی ریلیف دے سکیں گے اور جو مہنگائی کا معاملہ ہے اس سے کیسے نمٹ سکیں گے۔

چہارم عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات جن میں دیار غیر پاکستانیوں کو ووٹ کا حق، الیکٹرانک ووٹنگ، نیب کے خاتمہ یا اس میں ترمیم سمیت جو مقدمات حکمران طبقہ پر ہیں ان سے کیسے نمٹیں گے۔ پنجم جو سیاست اب تحریک انصاف عمران خان کی قیادت میں پارلیمنٹ سے باہر عوامی سیاسی میدان میں کر رہی ہے جو فوری انتخابات کی حامی ہے اس تحریک کی بنیاد پر کیسے حکومتی سطح پر نمٹا جائے۔ کیونکہ اب عمران خان بھی بطور حزب اختلاف اتنی آسانی سے حکومتی اتحاد کو چلنے دے گی اور نہ چاہے گی کہ اس حکومت کی مدت چند ماہ سے زیادہ ہو۔

شہباز شریف کی مخلوط حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ تک محدود رکھے اور سیاسی میدان میں جاری تحریک انصاف کی مزاحمت کو کمزور کرے۔ لیکن شہباز شریف حکومت کا مسئلہ یہ ہو گا کہ کھیل اب پارلیمنٹ سے زیادہ سیاسی میدان میں چلا گیا ہے اور عملی طور پر عمران خان نے ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں پارلیمنٹ سے زیادہ سیاسی میدان کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور حکومت اور ان کی عملی اتحادی جماعتوں کو بھی جلد ہی سیاسی میدان میں کودنا پڑے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کو حکومت کرنے کے لیے لمبی مدت حاصل نہیں اور ان کو جو مختصر وقت ملا ہے اس میں کچھ غیر معمولی یا کچھ بڑے کام کی توقع ممکن نہیں۔ سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہی ہو گا کہ کیا وہ موجودہ معاشی مسائل کی موجودگی میں واقعی عوامی مفادات پر مبنی سیاست میں کچھ ایسا کرسکیں گے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا کچھ نہ کرسکے تو عام انتخابات سے قبل حکمرانی کا بحران مسلم لیگ نون کو اگلے انتخابات میں نئی مشکلات پیدا کرے گا۔

کیونکہ جو حکمرانی کے مسائل کا سامنا تحریک انصاف کی حکومت کو عوامی سطح پر درپیش تھا اب وہ ہی مسائل مسلم لیگ نون کو بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ شہباز شریف کی جو مختصر حکومت ہوگی وہ ان کے لیے واقعی ایک بڑا سیاسی امتحان ہو گا اور وہ اس سے کیسے باہر نکل سکیں گے، مشکل سوال نظر آتا ہے۔ کیونکہ ایک بات وزیر اعظم کو سمجھنی ہوگی کہ بحران کا حل ان ہی کو ہی اٹھانا ہو گا اور ان کو بہت زیادہ توقع اپنی اتحادی جماعتوں سے نہیں کرنی چاہیے۔ وہ یقینی طور پر اقتدار کے مزے تو لیں گے مگر بحران میں کسی بھی صورت میں حکومت کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے۔

اگر واقعی تحریک انصاف فوری عام انتخابات کے لیے قومی اسمبلی کے بعد چاروں صوبائی اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہو جاتے ہیں تو اس پر فوری ضمنی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہو گا۔ اگرچہ قانون یقینی طور پر ضمنی انتخابات ہی کا تقاضا کرتا ہے مگر جو سیاسی ماحول قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد بنے گی اس سے سیاسی کشیدگی، تناؤ اور ٹکراؤ کا ماحول اور زیادہ بڑھے گا۔ اگرچہ مسلم لیگ نون کے بعد بڑی سیاسی حکومتی جماعت پیپلز پارٹی ہے۔

لیکن پیپلز پارٹی نے اس کھیل میں مسلم لیگ نون کے مقابلے میں زیادہ بہتر کارڈ کھیلے ہیں اور وہ کسی بھی صورت میں مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کی بجائے ان پر سیاسی دباؤ بڑھا کر اپنے لیے پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں سیاسی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں مسلم لیگ نون سے پندرہ قومی اور پچیس صوبائی نشستوں پر ان کی انتخابی امیدواروں کی حمایت اور مشترکہ امیدوار کا مطالبہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی اندازہ ہے کہ عام انتخابات زیادہ عرصہ تک نہیں روکے جا سکے گا اور اسی بنیاد پر پیپلز پارٹی نے فوری طور پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے چناؤ کے لیے اپنی مہم شروع کردی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے لیے ایک بڑی مشکل عمران خان کی مزاحمت سے نمٹنا ہے۔ کیونکہ عمران خان عملی طور پر سیاسی میدان میں کود گئے ہیں اور ان کی پاپولر سیاست بھی شہباز شریف کی مشکلات میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ اسی طرح شہباز شریف کا بطور وزیر اعظم ایک مسئلہ یہ بھی ہو گا کہ ان کو کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے قبل نواز شریف کی مشاورت درکار ہوگی، وہ خود تنہا فیصلہ نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے شہباز شریف کو چاہیے کہ وہ بطور وزیر اعظم بہت دور تک سوچنے کی بجائے معاملات کو کچھ عرصہ تک دیکھ کر ایسے فیصلے کریں جو ان کو انتخابی سیاست میں فائدہ پہنچا سکیں۔

اسی طرح حکومت میں ان کو محض آصف زرداری کی طرف سے ہی نہیں بلکہ اسمبلی سے باہر بیٹھے مولانا فضل الرحمن کی بھی سیاست کے دباؤ کا سامنا ہو گا اور وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ایسے فیصلے کرنے پر حکومت کو مجبور کریں گے جو ان کے سیاسی مفاد میں ہو گا۔ یہ بھی بات واضح ہے کہ نئی حکومت کے پاس بھی جو قومی مسائل ہیں ان کی بنیاد پر کوئی ٹھوس روڈ میپ نہیں ہے اور اسی وجہ سے وہ سطحی بنیادوں پر ہی حکومت کریں گے۔ جس طرز کی مخلوط کابینہ بن رہی ہے اس کی بنیاد پر کسی ٹھوس منصوبہ کی خواہش بے معنی ہے کیونکہ یہ سب جماعتوں کی عملی کوشش ہوگی کہ وہ اپنے اور پارٹی مفاد کو زیادہ طاقت فراہم کریں اور حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ ان کے مفاد کو زیادہ اہمیت دیں۔

اس لیے حکومت کے تناظر میں عملاً اتحادی نہیں بلکہ خود مسلم لیگ نون اور شہباز شریف ہی جوابدہ ہوں گے۔ شہباز شریف کی سیاست کا انداز جذباتیت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور لوگ ان سے توقع کریں گے کہ وہ کوئی جادوئی چھڑی سے مہنگائی کا خاتمہ کریں گے۔ لیکن حزب اختلاف کے مقابلے میں حکومت میں جادو کی چھڑی نہیں ہوتی اور حکمرانی کے معاملات میں زیادہ تلخیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے مسلم لیگ نون کو اقتدار تو مل گیا ہے مگر اب ان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اس سے کیسے سرخرو ہوتے ہیں۔

کیونکہ ان کے سامنے مسائل کا ایک انبار ہے اور ان سے فوری طور پر نمٹنا ممکن نہیں ہو گا۔ ان کو حکومت اور حزب اختلاف یعنی داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر روزانہ کی بنیاد پر نئے نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر واقعی نئی حکومت کو مختلف محاذوں پر مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو اس کا براہ راست فائدہ آج کی حزب اختلاف یعنی عمران خان کو ہو گا۔ اس بات کا امکان بھی کم ہے کہ امریکی یا غیر ملکی سازش کی کوئی بڑی تحقیقات ممکن ہو سکے۔ یہ معاملہ بھی سیاسی میدان میں موجود ہو گا اور عمران خان کی ساری مہم ہی امپورٹڈ حکومت اور عالمی سازش کی بنیاد پرہی ہوگی اور وہ اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہی استعمال کر کے سیاسی مخالفین کو بڑے دباؤ میں لانا چاہتے ہیں اور ان کی حالیہ مقبولیت کی وجہ بھی یہ ہی بیانیہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments