یہ کیسی سازش ہے جو ہواؤں میں بہہ رہی ہے


عمران خان صاحب واقعی خطرے ناک ہوچکے ہیں۔ ماضی قریب کی اپوزیشن اور موجودہ حکومت مانے نہ مانے (ویسے اس کا ماننا بنتا بھی نہیں ہے ) وہ عوام کا ایک ایسا سیلاب سڑکوں پر لے آئے ہیں جو یا تو ان کے مخالفوں کو بہا کر لے جائے گا یا پھر وہ خود اس سیلاب کی نذر ہو جائیں گے۔ ان کے حامیوں خاص کر شہبازگل اور فواد چوہدری کو تو پورا یقین ہے کہ یہی وہ ”سیلاب بلا“ ہے جو پاکستان تحریک انصاف کی کشتی کو، جس میں وہ آئے روز سوراخ کرتے رہتے ہیں، کنارے لگائے گا۔

خان صاحب کا سونامی سڑکوں پر تو آ گیا ہے لیکن ان کا سارا بیانیہ ایک لفظ ”سازش“ پر ”تیر“ رہا ہے۔ جس پر سوائے ان کے جذباتی حامیوں کے کوئی بھی یقین نہیں کر رہا۔ یہاں تک کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ معاملہ سازش کا نہیں مداخلت کا تھا اسی لیے نیشنل سکیورٹی کونسل میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ امریکہ سے اس معاملے میں احتجاج کیا جائے۔ ان دونوں الفاظ کے معانی میں اتنا ہی فرق ہے جتنا خود خان صاحب اور شہباز شریف صاحب کے مزاج میں ہے۔

پریس ریلیز میں مداخلت کے ساتھ ساتھ غیر سفارتی زبان کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے، جس پر ہمارا امریکہ سے احتجاج بنتا ہے لیکن ہم جیسے لوگ، جن کی پرورش اگلے وقتوں میں ہوئی، پارلیمان اور پارلیمان سے باہر، سیاست دانوں کی طرف سے استعمال کی جانے والی غیر پارلیمانی زبان کا احتجاج کس سے کریں، جس میں تحریک انصاف کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔

زبان پارلیمانی ہو یا غیر پارلیمانی، خان صاحب کی گفتگو میں تکرار لفظی بہت ہے۔ آج کل تو ایک ہی لفظ کی تکرار سنائی دیتی ہے۔ سازش، سازش اور بس سازش۔ باقی ساری تو تکرار بھی اسی لفظ کی گھمن گھیریوں میں ہے۔ تکرار لفظی اگر شعر میں ہو تو اس کا لطف دوبالا کر دیتی ہے لیکن کسی سیاست دان کی گفتگو میں در آئے تو وہ سیاست دان سے زیادہ ایچ ای سی کا سند یافتہ محقق اور نقاد بن جاتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ خان صاحب کا حشر بھی ان نقادوں اور محققین جیسا ہو، جنھیں ایچ ای سی کے علاوہ کوئی گھاس بھی نہیں ڈالتا۔

پاکستانی سیاست کی ایچ ای سی، اسٹیبلشمنٹ ہے جس کا احساس خود خان صاحب کو بھی ہے، کہ اسی کی طرف سے جاری کردہ صادق و امین کی سند سے انھوں نے تین سال سات ماہ تک مسند اقتدار سنبھالے رکھی۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ انھیں یہ سند عطا کرنے والی یہ ”اشرف المخلوقات“ شرف انسانیت سے گر کر ”حیوانیت“ کے درجے پر ”فائز“ ہو گئی اور انھیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اور اب وہ ہاتھ منہ دھو کر اپنے سیاسی حریفوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

ہمارے دوست اور اردو کے ممتاز شاعر اختر عثمان نے، تو آج سے پینتیس سال پہلے ہی اس کی پیش گوئی کر دی تھی۔

ہمارے دور میں الٹا ہے ارتقا کا سفر
عجب نہیں ہے کہ انسان جانور بن جائے

اختر عثمان چوں کہ ترقی پسند شاعر ہیں اس لیے ہمیں پورا یقین ہے کہ دوسرے مصرعے میں ”انسان“ سے مراد اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ میں ثبوت کے طور پر ان کے کئی اشعار پیش کر سکتا ہوں لیکن ان کے صرف ایک ہی شعر پر اکتفا کرتا ہوں جس میں واضح اشارہ موجود ہے۔

مفاہمت نہ سکھا دشمنوں سے اے سالار
تری طرف نہ کہیں موڑ دوں کمان کو میں

خان صاحب نے سر دست اپنی زبان کی کمان اس طرف نہیں موڑی حالاں کہ انھیں ”دشمن“ سے مفاہمت سکھانے کی بہت کوشش کی گئی۔ یعنی وہ تاحال تینتیس فی صد خطرے ناک ہوئے ہیں۔ (انھیں پاسنگ مارک تو دینا بنتا ہے ناں )

اپنی حکومت کے آخری دنوں میں انھوں نے اپنے مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کی اس کا اسٹیبلشمنٹ نے بھی برا منایا۔

خان صاحب کو زبان دراز کہنے کی جسارت تو صرف موجودہ حکومتی اتحاد کے ”شہباز گل“ یا ”فواد چوہدری“ (اب یہ نام ہماری دانست میں لفظ ”حکومتی ترجمان“ کے مترادف ہو چکے ہیں ) ہی کر سکتے ہیں۔ تاہم انھیں زبان دان کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ انھوں نے نہ صرف ہماری سیاسی زبان میں کئی نئے لفظوں اور محاوروں کا اضافہ کیا بل کہ بعض لفظوں کو نئے معانی بھی پہنائے۔ ان کے دخیل کردہ زیادہ تر لفظ اور محاورے چوں کہ غیر پارلیمانی ہیں (سوائے خطرے ناک کے ) اس لیے ہم ان سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک لفظ ”سازش“ تک محدود رہتے ہیں، جسے ہماری دانست میں انھوں نے بالکل ایک نئے معانی پہنائے ہیں۔

اردو کی تقریباً تمام لغات میں لفظ سازش کے معنی؛ربط ضبط، گٹھ جوڑ، میل جول، میل ملاپ، خفیہ تدبیر یا کارروائی اور خفیہ ساز باز کے ہیں۔ خان صاحب کا مزاج بتاتا ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں اس لفظ کو؛ربط ضبط، گٹھ جوڑ، میل جول یا میل ملاپ کے معنوں میں تو ہر گز استعمال نہیں کرتے ہوں گے کہ ان لفظوں سے تو انھیں سخت چڑ ہے۔ ورنہ اگر وہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد صرف اپنے اتحادیوں ہی سے میل جول، میل ملاپ، ربط ضبط بڑھا کر گٹھ جوڑ کر لیتے تو آج بھی مسند اقتدار پر براجمان ہوتے۔

جہاں تک خفیہ تدبیر یا خفیہ کارروائی اور خفیہ ساز باز کا تعلق ہے تو ہمارا گمان ہے کہ وہ لفظ سازش کو اس معنی میں بھی ہر گز نہیں برت رہے۔ برت بھی کیسے سکتے ہیں کہ ان کے بقول امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر کو امریکی عہدے داروں نے باقاعدہ بلا کر بتایا کہ امریکہ، وزیر اعظم پاکستان کے دورۂ روس پر سخت برہم ہے اور یہ کہ وہ پی ڈی ایم سے مل کر ان کی حکومت ہٹانے کی ”سازش“ کر رہا ہے۔

سو ان کے نزدیک سیاست میں سازش سے مراد:

” ایک ایسی تدبیر، کارروائی یا سازباز ہے جو کسی فرد، ادارے یا ملک کی طرف سے کسی دوسرے فرد، ادارے یا ملک کے خلاف علانیہ کی جائے اور جسے کوئی قاصد یا اہلکار اس طریقے سے لکھ کر بھیجے کہ اسے پبلک کرنا آئین اور قانون کے خلاف ہو۔“

خان صاحب کی زندگی کا بیشتر حصہ لندن میں گزرا بل کہ ماضی بعید میں وہ ان کا سسرالی شہر بھی رہا ہے۔ اردو کے ممتاز شاعر ساقی فاروقی نے بھی ساری زندگی لندن میں گزاری ہمیں نہیں معلوم کہ خان صاحب کبھی ان سے ملے یا نہیں لیکن ان کی نظم ”نوحہ“ خان صاحب کی ذہنی کیفیت کی خوب ترجمانی کرتی ہے :

یہ کیسی سازش ہے جو ہواؤں میں بہہ رہی ہے
میں تیری یادوں کی ساری شمعیں
بجھا کے خوابوں میں چل رہا ہوں
تری محبت مجھے ندامت سے دیکھتی ہے
وہ آبگینہ ہوں خواہشوں کا کہ دھیرے دھیرے پگھل رہا ہوں
یہ میری آنکھوں میں کیسا صحرا ابھر رہا ہے
میں بال روموں میں بجھ رہا ہوں
شراب خانوں میں جل رہا ہوں
جو میرے اندر دھڑک رہا تھا وہ مر رہا ہے

(نوٹ:تیسرے مصرعے میں تیری یادوں سے مراد امریکی یادیں ہیں۔ پانچویں مصرعے میں تری محبت سے عوامی محبت مراد ہے جب کہ ساتویں مصرعے میں بال روم سے مراد وہ کمرہ ہے جہاں کپتان کی آخری گیند رکھی ہوئی ہے جس کا پچھلے دنوں بہت چرچا رہا ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments