اصل نشانہ قبلۂ اوّل، مسجد اقصی ہے
مشرق وسطی میں واقع غاصب ریاست اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کا قیام ظلم و جبر، قبضہ و غصب اور قتل و غارتگری سے ہوا ہے۔ اب اس ریاست کی افواج، پولیس، دفاعی عملے اور ادارے، وزیر و منتری، سپاہی و سنتری، حکمراں و قائدین اور خواص و عوام سب کے سب اگر ظلم و نا انصافی، قتل و غارتگری اور دوسروں کے ملکیت کو قبضہ کرنے کی بات کریں اور اسے عملی جامہ بھی پہنائیں ؛ تو اس میں بہت زیادہ تعجب کی بات نہیں ہے۔ آج یہی سب کچھ اسرائیلی حکومت کی نگرانی میں ہو رہا ہے۔
اس ریاست کا قیام ہی قیام، عدل و انصاف کو بالائے طاق رکھ کر کیا گیا۔ اس کے وجود میں آتے ہی، لاکھوں فلسطینیوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ جنھوں نے اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اپنی دھرتی پر رہنے کو ترجیح دی، انھیں تشدد و اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر حکومت کی نگرانی میں حملے کیے گئے اور انھیں قتل کیا گیا۔ عدل و انصاف کو بالائے طاق رکھنے کی بات اس لیے کہی گئی ہے کہ اگر دنیا کی تاریخ مطالعہ کیا جائے ؛ تو ایسا کہیں نہیں ملے گا کہ عوامی مطالبہ اور جد و جہد کے بغیر، کسی بین الاقوامی سازش کے تحت، ایک خاص مذہب کے پیروکاروں کے لیے، دوسروں کی زمین پر ایک نئے ملک کا قیام عمل میں آیا ہو۔
پھر دوسرے ممالک سے اس خاص مذہب کے ماننے والوں کو لاکر، وہاں بسایا گیا ہو۔ ہمیں یہی سب کچھ اسرائیل کے قیام میں نظر آتا ہے کہ عوامی مطالبہ کے بغیر، ایک بین الاقوامی سازش کے تحت، یہودیوں اور صہیونیوں کے لیے فلسطین میں، اسے قائم کیا گیا اور مختلف ممالک سے یہودیوں اور صہیونیوں کو لاکر وہاں آباد کیا گیا۔ کوئی بھی فہم سلیم رکھنے والا شخص اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا۔
گزشتہ سال رمضان کے مبارک و مسعود موقع پر ، 7 /مئی 2021 ء کو غاصب ریاست کی قابض فوج نے مسجد اقصی میں نمازیوں اور روزہ داروں پر حملہ کر کے اپنی درندگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس بار پھر یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ قابض دہشت گرد فوج کی طرف سے بروز: جمعہ 15 /اپریل 2022 سے، مسجد اقصی میں، نمازیوں اور روزہ داروں پر درندگی و حیوانیت کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ کسی امتیاز کے بغیر، مسجد اقصی میں عبادت میں مشغول خواتین و مرد حضرات ان کی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ہتھیار سے لیس دہشت گرد فوجی عملہ بوڑھے کے ساتھ دھینگا مشتی کر رہا ہے۔ کرسی پر بیٹھ کر قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ضعیف و کمزور لوگوں کو پولیس دھکا مار کر زمین پر گرا دیتی ہے اور وہ منھ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ مصلے پر بیٹھ پر ذکر و اذکار میں مشغول ضعیف لوگوں کو جوتے کی نوک سے دھکا مارا جاتا ہے اور وہ زمین پر گر جاتے ہیں۔ آنسو گیس کا استعمال کر کے لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے۔ جو فلسطینی نوجوان اپنی بہادری و شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، دہشت گرد مسلح پولیس اور افواج کے عملے کی کارروائی کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں ؛ تو انھیں اوندھے منھ لٹا کر، ان کے دونوں ہاتھ ان کے پیٹھ پر باندھ دیے جاتے ہیں۔ پھر انھیں گرفتار کر کے، کسی جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
اسرائیل افواج کی طرف سے، مسجد اقصی میں بہ روز: جمعہ، 15 /اپریل 2022 کو مسلمانوں پر ، تشدد کی ابتدا یوں ہوئی کہ اس دن یہودیوں کے کسی نام نہاد تہوار کے نام پر ، انتہا پسند یہودیوں کے کئی گروہ، طاقت اور شدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلمانوں کی مسجد اقصی میں، یہودی رسومات کی ادائیگی کے لیے داخل ہو گئے۔ مسجد اقصی میں موجود روزہ دار مسلمانوں نے ان انتہا پسند یہودیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی۔ پھر کیا تھا!
قابض اسرائیلی افواج کے عملے کو ایک بہانہ ہاتھ لگ گیا۔ انھوں نے اس نام نہاد یہودی تہوار کی آڑ میں، نمازیوں اور روزہ داروں کو ، مسجد اقصی میں ہی، تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس میں تقریباً 150 فلسطینی زخمی ہوئے اور چار سو فلسطینی گرفتار کیے گئے۔ خبر رساں ادارہ ”وفا“ کے مطابق: ”جمعہ کو اسرائیل فوج نے مسجد اقصی کے صحنوں پر دھاوا بولا۔ انھوں نے نمازیوں پر آنسو گیس چھوڑے اور صوتی بم برسائے۔ اس کے نتیجے میں مسجد اقصی میں نماز پڑھنے والے درجنوں افراد زخمی ہوئے۔ اسرائیلی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ اس نے مسجد اقصی سے تقریباً تین سو لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔“
اب جمعہ کے دن سے ہی قابض افواج نمازیوں کو مسجد اقصی سے نکال رہی ہے۔ ان کو مسجد میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ جو لوگ مزاحمت کی کوشش کرتے ہیں، ان کے ساتھ تشدد سے پیش آ رہی ہے۔ اب یہ بھی خبر ہے کہ اس شدت پسندی کے ساتھ، اسرائیلی حکام نے مغربی کے کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس کے درمیان، رابطے کے لیے استعمال ہونے والی تمام گزرگاہوں کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان حکام کے بیان کے مطابق یہ بندش ہفتے کی شام تک جاری رہے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکیورٹی کی صورت حال کے پیش نظر اس میں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔
ابھی جو فلسطینی مسلمان مسجد اقصی میں جانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو جانے سے روکا جا رہا ہے۔ جو فلسطینی مسجد اقصی میں ہیں، ان کو قابض افواج طاقت کا استعمال کر کے بھگار رہی ہے۔ جس طرح سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی قابض افواج کے اذیت و تشدد اور طاقت کے استعمال کی ویڈیو پائی جا رہی، اسے دیکھ کر بہت رنج و افسوس ہوتا ہے۔ کسی ویڈیو میں یہ منظر پیش کیا گیا ہے کہ کئی قابض افواج ایک معذور شخص کو دھکے دے رہی ہے اور وہ شخص اپنے بے بسی و لاچاری کا اظہار کرتے ہوئے، پیچھے قدم لوٹائے جا رہا ہے۔
کسی ویڈیو میں یہ دکھ رہا ہے کہ چند مسلمان فلسطینی لڑکیوں کو کئی خاتون قابض افواج رگید رہی ہیں اور ان خواتین افواج کی مدد کے لیے ان کے پیچھے فوج کے کئی مرد افراد ہیں۔ ایک ویڈیو میں یہ دردناک منظر قید کیا گیا ہے کہ ایک فلسطینی مسلمان اپنے ایک کم عمر بچے کے ساتھ جا رہا ہے۔ اسے قابض افواج دوڑا دوڑا کر پیٹ رہی اور اس بچہ چیختے چلاتے، خود کو بچانے کے لیے بھاگ رہا ہے۔ ایک ویڈیو ایسی بھی سوشل میڈیا پر ساجھا کی گئی، جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کچھ خواتین، قبلی مسجد میں خواتین والے سیکشن میں عبادت میں مشغول ہیں۔ ان کو اسرائیلی افواج نے باہر سے بند کر دیا۔ وہ خواتین اندر سے ”اللہ اکبر“ کا نعرہ لگا رہی ہیں اور دہشت گرد اسرائیلی افواج اس کے باہر کھڑی ہے۔
اسلامی اور عرب ممالک، جیسے : ترکی، سعودی عرب، یمن، متحدہ عرب امارات، عراق، لیبیا، پاکستان، ایران، مصر، اردن وغیرہ نے مسجد اقصی پر اس حالیہ اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے دوسرے عرب ممالک، اسلامی تنظیموں اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسجد اقصی پر اسرائیلی حملے کو روکیں۔ مصر کی وزارت خارجہ کے ترجمان سفیر احمد حافظ نے اسرائیلی فوج کی جانب سے اس حملے اور تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ تشدد کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔
ترجمان نے تشدد اور اشتعال انگیزی کو اس کی تمام شکلوں میں مسترد کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رمضان عبادت کا مہینہ ہے۔ اس دوران اسرائیلی فوج کی قبلہ اول پر چڑھائی فلسطینیوں کو مشتعل کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی مرکزی کمیٹی کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ کے درمیان فون پر بات چیت کی گئی جس میں مسجد اقصی کی تازہ صورت حال پر تبادلہ خیال ہوا۔
اس اسرائیلی تشدد کے بعد سے پورے طور پر مسجد اقصی میں دہشت گرد افواج کا قبضہ ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد مسجد اقصی میں موجود ہے۔ مسجد اقصی کی بے حرمتی کی جا رہی ہے۔ ان کو مسجد اقصی سے نکالنے کے لیے فلسطینی حکام نے اپنے عرب برادر ممالک اردن اور مصر کو ”بیت المقدس“ (یروشلم) کی موجودہ صورت حال سے واقف کرایا اور اس حوالے سے مشاورت کی ہے۔ یہ دونوں ممالک قابض اسرائیلی ریاست کے ساتھ رابطے میں ہیں ؛ تاکہ مسجد اقصی سے اسرائیلی فوج کو نکالا جا سکے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ جب بھی کچھ ہوتا ہے ؛ تو قابض اسرائیلی افواج مسجد اقصی میں داخل ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں کو وہاں سے بھگانا شروع کر دیتی ہے۔ اسی طرح کی صورت حال ابھی بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ ان قابض افواج کا یہ عمل بین الاقوامی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی صہیونی ریاست کا اصل نشانہ قبلۂ اول: مسجد اقصی ہے۔ اس طرح کے عمل سے اسرائیلی حکومت، اس عوام اور افواج مسجد اقصی پر اپنا مذہبی تسلط بڑھانے کی کوشش میں لگے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح مسجد اقصی پر قبضہ کر لیا جائے اور اسے ہیکل سلیمانی میں تبدیل کر دیا جائے۔ اب فلسطینی مسلمانوں کو خدشہ ہونے لگا ہے کہ ہیبروں میں واقع ”ابراہیمی مسجد“ کی طرح مسجد اقصی کو بھی اسرائیلی صہیونی ریاست اپنے طاقت و تشدد کی بدولت کہیں دو حصے میں تقسیم نہ کردے۔ پھر آہستہ آہستہ پوری مسجد اقصی پر ہی قبضہ کر لے۔ اگر ایسا ہوتا ہے ؛ تو یہ امت مسلمہ کی بہت بڑی توہین ہوگی۔ ابھی بھی وقت ہے کہ پوری امت مسلمہ کو بیک آواز مسجد اقصی اور فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائے۔ سالوں سال سے جو فلسطینی مسلمان مسجد اقصی کی حفاظت اور آزادی کے لیے اسرائیلی افواج کا ظلم و ستم برداشت کر رہے ہیں اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، وہ اسلام کے ہیرو اور سورما ہیں۔ وہ پوری ملت اسلامیہ کی طرف سے حوصلہ افزائی اور شکریے کے مستحق ہیں۔ ہم ان سورماؤں اور ابطال کو سلام پیش کرتے ہیں۔ ••••
٭مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ
- عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کا مایوس کن اجلاس - 27/11/2023
- فلسطینی عوام پر صہیونی ریاست اسرائیل کی بمباری کا مقصد - 08/11/2023
- غزہ اسپتال پر وحشیانہ بمباری: عالمی قانون سے کھلواڑ - 23/10/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).