عمران خان کا تو چھوٹا بھائی بھی کوئی نہیں


ہماری سیاسی تاریخ بھی عجیب ہے۔ ہم چند برسوں میں ہی گھوم پھر کر پھر اسی مقام پر واپس آ جاتے ہیں۔ سانپ اور سیڑھی کا قدیم کھیل اسی طرح جاری ہے۔ خدا جانے عوام بے چارے سانپ ہیں کہ سیڑھی۔ انھیں باور تو یہی کرایا جاتا ہے کہ تمھاری وجہ سے یہ اقتدار کا سنگھاسن سجتا ہے۔ تمھارے ووٹوں سے یہ ایوان تشکیل پاتے ہیں لیکن جاننے والے سب جانتے ہیں۔ عوام اگر سانپ ہیں تو بس سمجھیے ایک دوسرے کو ڈس رہے ہیں اور چالیں چلنے والا اپنے مہرے کو ان کے سروں کے اوپر سے گزارتا ہوا اقتدار کی کرسی پر جا بٹھاتا ہے۔

کچھ مناظر تو بہت واضح نظر آتے ہیں۔ جو نقشہ آج کل ترتیب پا رہا ہے یہی 2017 میں بھی مسلم لیگ نون کے سامنے رکھا گیا تھا جسے مائنس نواز فارمولا کہا گیا بلکہ 2017 سے بہت پہلے معروف دھرنوں کے وقت بھی یہ فارمولا گردش میں رہا جو نواز شریف کو قبول نہ تھا اور ظاہر ہے پارلیمنٹ میں واضح اکثریت رکھتے ہوئے وہ اسے کیسے قبول کرتا۔ پھر یوں ہوا کہ اسے جیسے تیسے اقتدار کے کھیل سے باہر کر دیا گیا اور 2018 کے الیکشن کا سٹیج سجا دیا گیا۔

شہباز شریف کو یقین دلایا گیا کہ اس کے لیے اقتدار کا سہرا سر پر سجانے کا سنہری موقع ہے لیکن بھائی جان کی ضد آڑے آ گئی، اب ایک طرف بڑا بھائی تھا تو دوسری طرف وزارت عظمیٰ۔ نواز شریف نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا اور جب ائر پورٹ پر اترے تو استقبال کے لیے رواں مسلم لیگ نون کا جذباتی قافلہ شہباز شریف کی قیادت میں مال روڈ پر ہی پھنسا رہ گیا اور بھائی صاحب جیل پہنچ گئے۔ شہباز شریف کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس عمل نے ان کی ایک طرح سے مدد ہی کی، گریز پائی کا یہ عمل بعد ازاں دونوں بھائیوں کے کام آیا۔

شہباز شریف کو اس وقت بھی مکمل امید دلائی گئی تھی کہ اب کے آپ سمجھیں وزیراعظم بن گئے۔ لیکن اوپر والے کچھ اور سوچ رہے تھے۔ شہباز شریف تو بس عمران خان پر دباؤ ڈالنے کا ایک ذریعہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے عمران خان کو ہمیشہ خطرہ محسوس ہوا اور شہباز کے نام سے ہی چڑ ہو گئی۔ رقابت کی آگ اتنی بڑھی کہ شہباز شریف کو چیری بلاسم کہہ کر پکارنے لگے۔ اسی خطرے کے باعث عمران خان الیکشن کے بعد بھی تسبیح تھامے انتہائی خشوع و خضوع سے رد بلا کے لیے ورد کرتے دکھائی دیے۔

عمران خان کو ڈانواں ڈول اکثریت کی حامل حکومت دی گئی۔ شہباز شریف بھی اچھے کی امید پر ”ان“ سے ناراض نہ ہوئے اور آن بورڈ رہے۔ ادھر بڑے بھائی کو بھی مسلسل سمجھاتے بجھاتے رہے۔ آن بورڈ نہ ہوتے تو بڑے بھائی کو علاج کے لیے باہر کیسے لے کر جاتے۔ جب بڑے بھائی کو ملک سے باہر لے جانے میں کامیاب ٹھہرے تو یقیناً بھائی سے کہا ہو گا کہ، ”دیکھیں بھائی جان اب میں نے آپ کی جان چھڑائی ہے، آئندہ میرا خیال رکھنا، پلیز ایک بار۔“ یاد رہے کہ یہ کام شہباز شریف نے اکیلے نہیں کیا بلکہ عمران خان نے بھی کابینہ میں نواز شریف کی سفارش کی۔ کابینہ کے اس اجلاس کی روداد افضل چن سے سن لیں۔ یوں ان سب نے مل کر نواز شریف سے جان چھڑائی کیونکہ وہ جیل میں رہ کر بھی مصیبت بنا ہوا تھا۔

رفتہ رفتہ وزیراعظم عمران خان بقول ”ان“ کے آپے سے باہر ہونے لگے۔ بزدار جیسوں کی روحانی بنیادوں پر تقرریاں اور اس پر اڑے رہنے، نالائق ترین ٹیم کی تشکیل، اپنوں کی کرپشن سے صرف نظر، سماج میں بدزبانی اور بگاڑ پھیلانے اور وژن سے عاری حکمرانی نے معیشت اور سماج کا بیڑہ غرق کر دیا۔ آگ جب بھڑکانے والوں کے دامن تک پہنچنا شروع ہوئی یعنی معیشت کی بربادی اور عالمی سطح پر تعلقات داؤ پر لگنے لگے تو انھوں نے سر جوڑ لیے کہ اب کیا کیا جائے؟

پرانے تجربات کی روشنی میں یہ طے تھا کہ ہم جس کو بھی پالتے پوستے ہیں، جب اس سے قطع تعلق کرتے ہیں تو گلے پڑتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ڈر یہی تھا کہ یہ بھی ایسا ہی کرے گا، تو پھر کیا کیا جائے؟ پارلیمنٹ جو موجود ہے۔ پارٹی پوزیشن تو وہی 2018 والی ہے اور سب پر بھاری ایک زرداری اور خادم اعلی دونوں موجود ہیں۔ جب انھیں بتایا گیا کہ ملک مشکل میں ہے، آپ کی مدد درکار ہے، تو دونوں نے کہا ہم حاضر ہیں، دیر کاہے کی۔

لیکن سامنے وہی سوال منہ کھولے کھڑا تھا کہ وہ جو باہر بیٹھا ہے اسے کیسے قائل کریں۔ اس کار خیر کے لیے مولانا کے علاوہ اپنے پرائے کئی لوگ تھے، سب باری باری اسے سمجھانے میں جت گئے۔ وہ بضد رہا لیکن اسے جب مستقبل کا نقشہ کھینچ کر دکھایا گیا، اور بتایا گیا کہ اس نئی صورت حال میں اگلے کئی برسوں تک سسٹم بالکل ایک نئی ڈگر پر جا سکتا ہے، جس میں شاید آپ کی واپسی کی گنجائش ہی نہ رہے، تو وہ بے دلی سے مان گیا لیکن یہ شرط رکھی کہ عمران خان کو نکالنے تک میں آپ سب کے ساتھ ہوں لیکن بعد کی بعد میں دیکھیں گے۔

یوں پہلے سے تیار بیک اپ کو فوراً متحرک کیا گیا اور نتیجہ نئی حکومت کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ عمران خان حیران و پریشان کھڑا سوچتا رہ گیا کہ ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو ۔ ایسے میں اک امید کی کرن دکھائی دی، اسے یاد آیا کہ ہمارے ملک میں تو مذاق میں بھی اکثر کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب امریکہ کرا رہا ہے۔ اور لوگ مان بھی جاتے ہیں۔ اس نے شور مچا دیا اور بھائی لوگوں کو بتانے لگا کہ یہ دیکھو یہ سب امریکہ کرا رہا ہے۔

اب انھیں کون بتاتا، انھیں تو سب معلوم تھا کہ کون کرا رہا ہے اور کیوں کرا رہا ہے، سو انھوں نے مسکرا کر بات سنی ان سنی کر دی۔ اس پر عمران خان مزید غصے میں آ گیا۔ اس نے آئین سے ٹکرانے کی کوشش کی لیکن وہاں عدالت آڑے آ گئی۔ اوپر سے الیکشن کمیشن نے سات ماہ کے وقت کا پتہ پھینک دیا۔ اب کہتے ہیں الیکشن کمشنر بھی اسٹیبلشمنٹ نے لگوایا تھا۔ خیر اب خان کا غصہ عروج پر ہے، جس نے ”ان“ کو حیرانی سے زیادہ پریشانی کا شکار کر دیا ہے۔

اب اس کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ فوری طور پر نئے الیکشن کرائے جائیں۔ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے جلد الیکشن کی باتیں اور نون کے اندر سے خواجہ آصف جیسی کچھ آوازیں یہ بتا رہی ہیں کہ معاملہ اب اتنا سادہ نہیں رہا۔ مسئلہ گھوم پھر کر وہیں لندن جا رہا ہے۔ بلاول کا لندن جانا محض وزارتوں کے لیے نہیں ہو سکتا، ضرور کوئی اہم بات ہونی ہے، کیونکہ وزارتوں کے لین دین کے معاملات ایسے نہیں کہ ان پر بات چیت کو خفیہ رکھنے کی ضرورت ہو۔ معاملہ جو بھی ہو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اب چھوٹا بھائی بیچ بچاؤ کرا کے بڑے کو بچاتا ہے یا بڑا بھائی ایک بار پھر چھوٹے بھائی کی خوشیوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کا تو چھوٹا بھائی بھی کوئی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments