صحرائے تھر میں خواتین کی بڑھتی ہوئی خودکشیوں کا چھپایا جانے والا سبب


سندھ کا صحرائے تھر اپنے فطرتی حسن کی وجہ سے پرکشش تعارف رکھتا ہے، وہاں پر ہی کارونجھر کا پہاڑ ہے، جو کہ معدنی وسائل، نباتات اور ہربل پودوں کی ایک بڑی آماجگاہ ہے۔ کارونجھر پہاڑ کئی صدیوں سے عبادتوں، ریاضتوں اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی روحانی شخصیات کا مرکز و محور رہا ہے، یہاں پر قدیم ترین ”جین دھرم“ کے مندر بھی موجود ہیں تو بھوڈیسر کی وہ مسجد بھی موجود ہے جو کہ گجرات کے حاکم محمد شاہ بیگڑھ نے سنہ۔ میں تعمیر کروائی تھی۔

کارونجھر کا ایک تعارف تاریخ میں یہ بھی ہے کہ یہاں پر روپلو کولہی نام کے ایک بہادر شخص نے برٹش آرمی کے خلاف مسلح جدوجہد بھی کی تھی اور یہاں ہی اسے پھانسی پر چڑھایا گیا تھا۔ اس مخصوص علاقے کو ننگر پارکر کہا جاتا ہے۔ صحرائے تھر، اور خاص طور پر ننگر پارکر میں گزشتہ کئی سالوں سے خواتین میں خودکشی کا رجحان بڑی تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔

خواتین کی بڑھتی ہوئی خودکشیاں مقامی اور عالمی سطح پر بہت عرصے سے موضوع بحث بنی ہوئی ہیں اور کئی سرکاری اور نیم سرکاری اداروں نے اس سلسلے میں تحقیقات کر کے ان کے اسباب معلوم کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں اور اپنی تجاویز بھی پیش کی ہیں۔

ڈی آئی جی میرپور خاص نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے جو اسباب اور درپیش مسائل پیش کیے تھے وہ درجہ ذیل ہیں۔

·میڈیکو لیگل افسران کی عدم موجودگی اور ماہرانہ صلاحیتوں کا فقدان۔
·منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال
·مائیکرو فنانسنگ بینکس اور مائیکرو کریڈٹ این جی اوز کا قرضہ اور سود۔
·کم عمر، بے جوڑ اور وٹہ سٹہ بنیاد پر کی گئی شادیاں۔
·عامل، بھوپے، کالا جادو کرنے والے جعلی پیر وغیرہ۔
·معاشی مسائل، بیروزگاری اور فیملی پلاننگ پر عمل نہیں کرنا۔

اس کمیٹی نے اس سلسلے میں کچھ تجاویز بھی دیں کہ
·لاش رکھنے کے لئے سرد خانہ بنایا جائے تاکہ انویسٹی گیشن صحیح طریقے سے ہو سکے۔
·تھرپارکر میں کیمیکل لیبارٹری قائم کی جائے۔

·ڈسٹرکٹ لیول پر سینئر پولیس افسران اور سول سوسائٹی کے ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو کہ اسباب کو معلوم کر سکے۔

·پولیس کو کیمیکل ٹیسٹ کے لئے بجٹ فراہم کی جائے۔
·نفسیاتی بحالی کے مراکز قائم کیے جائیں۔
·اسپیشل میڈیکلو لیگل افسران تعینات کیے جائیں۔
·تعلقہ سطح پر ہسپتالوں میں نفسیاتی ڈاکٹر مقرر کیے جائیں۔
·ہر پولیس اسٹیشن کے حدود میں این جی اوز کی مدد سے کھلی کچہریاں رکھی جائیں۔
·Early Warning Helpline قائم کی جائیں۔
·ڈپٹی کمشنر تھرپارکر مختلف ڈونرس اور Stake Holders کو مدعو کرے جو غریبوں کی مالی معاونت کر سکیں۔
·کلچر ڈپارٹمنٹ، اسٹریٹ تھیٹرس کے ذریعے Awareness پیدا کرے۔
·پاپولیشن ڈپارٹمنٹ فیملی پلاننگ کے اصولوں پر عوام کو عمل درآمد کرائے۔
·تھر کے لوگوں کی معاشی امداد کے لئے سیاحت کو فروغ دیا جائے۔

یہ تھی وہ تجاویز اور اسباب جو کہ سرکاری اور نیم سرکاری سطح پر کی گئی تحقیق کے بنیاد پر تشکیل دی گئی کمیٹی نے پیش کی۔ اس رپورٹ اور اس سے ملتی جلتی اور رپورٹوں کے بڑے، غور سے پڑھنے کے بعد بھی میرے دماغ میں بس ایک ہی سول گھومتا رہا کہ کیا ہم جنہیں خودکشیاں قرار دیتے ہیں وہ قتل تو نہیں؟ ننگرپارکر مختلف گاؤں وینجھنہاری، کاسبو، آدھی گام، سکھ پور اور پورن واہ کے مکینوں، پولیس، پریس اور سول سوسائٹی سے اس موضوع سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ یہ بات تو صحیح ہے کہ خواتین میں خودکشی کے بڑھتے رجحانات کے اسباب یہ بھی ہوسکتے ہیں، لیکن ایک سب سے بڑا سبب بھی ہے جو کہ باتوں باتوں میں آ کے پھر دب جاتا ہے۔

کیا ہمارا سماج اور اخلاقیات اس موضوع پر بات کرنے کی اجازت نہیں دیتی یا کوئی خوف اور سماجی پابندی ہے جو کہ کہ سب کو روک رہی ہے اور بے گناہ عورتیں موت کے اندھے کنویں میں چھلانگ مار کے اپنی زندگی کا دیا بجھا رہی ہیں۔

پولیس اسٹیشن ننگرپارکر کے ایس ایچ او تھانے کی حدود میں ہونے والی خودکشیوں کا سبب پوچھا تو اس نے آن دی رکارڈ جو سبب بتایا وہ صرف نفسیاتی مسائل کے اردگرد گھوم رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ جب بھی کہیں خودکشی ہوتی ہے تو لواحقین اس کا سبب نفسیاتی بیماری ہی بتاتے ہیں۔ وہ انکار کر رہا تھا کہ ایسے واقعات میں ہمیں کوئی بھی اوپر کی فون یا مقامی سیاسی دباؤ درپیش نہیں آتا۔ وہ کہہ تو رہا تھا پر میں نے سوچا کہ کیا ننگرپارکر جسے پسماندہ علاقے میں یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ تھانے اوپر کی فون کالز کے بغیر چلیں؟

گزشتہ تین سال میں وہاں جتنے بھی خودکشی کے واقعات ہوئے ہیں ان میں کسی بھی ایک کیس میں بھی رشتےداروں کے بجائے خود سرکار مدعی نہیں بنی۔ کیوں نہیں بنی؟ اس سوال کا جواب متعلقہ اداروں کے پاس خاموشی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ چھپے اسباب کی کھوج میں مسلسل دو دن کوشش کے بعد مجھے کچھ کردار مل ہی گئے جنہوں نے اپنا نام اور شناخت راز میں رکھنے کے شرط پر وہ کچھ بتایا جو کہ کسی تحقیق میں مجھے نظر نہیں آیا۔

”یہ خودکشیاں نہیں بلکہ قتل ہیں جو کہ اپنے ہی رشتہ داروں کے جنسی ہوس کی صورت میں رونما پذیر ہوتے ہیں“ ننگر پارکر کے ایک مکین نے مجھے بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کی کچھ مخصوص کمیونٹیز میں ایک رواج عام ہے کہ وہ اپنے کم عمر لڑکوں کی شادیاں اپنی لڑکیوں سے کرواتے ہیں جو کہ ان سے عمر میں کچھ بڑی ہوتی ہیں۔ اور وہاں سے معاملات جنم لیتے ہیں۔ یا تو وہ خواتین اپنے خواہشات کی تکمیل کے لئے غیر مردوں سے تعلقات استور کرتی ہیں اور اسی بناء پر انہیں قتل کر کے خودکشی کا نام دیا جاتا ہے یا تو پھر اپنے ہی گھر میں موجود سسر یا دیور جیسے رشتوں کی ہوس کا شکار بن جاتی ہیں۔ اس کے بعد ان کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں یا تو وہ خاموشی سے یہ سبب برداشت کرتی رہیں یا تو پھر کسی درخت میں پھندا ڈال کر یا کسی کنویں میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کو ختم کر دیں۔ کیونکہ اس کے گھر میں غیر موجود اس کا شوہر اس کی بات کا اعتبار نہیں کرتا اس کے والدین کا دروازہ اس کے لئے پہلے ہی ہمیشہ لئے بند ہو چکا ہوتا ہے اور اس کی ساس جو کہ خود بھی اس عذاب کو جھیل کے اپنی زندگی گزار چکی ہوتی ہے وہ یہ بھی یہ کہہ کر اسے چپ کرانے کی کوشش کرتی ہے یہ سب ہوتا ہے، چلتا ہے۔ ایسے حالات میں جو عورت کچھ زیادہ حساس ہوتی ہے اس کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی اور راستہ بچتا بھی نہیں ہے اور نفسیاتی ہیجان کا شکار بن کر خودکشی کر دیتی ہیں۔ ”جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو وہاں کسی کے بھی چہرے پر پریشانی اور دکھ کا کوئی عالم نہیں ہوتا اور اکثر ایسی خودکشیاں سسرال کے گھر پر ہوئی ہوتی ہیں۔“

مجھے ایک پولیس افسر نے بتایا جو کہ آج تک اپنے ہاتھوں سے ایسے سینکڑوں لاش اٹھا چکا ہے۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو لواحقین خود تھانے آ کر رپورٹ لکھوا دیتے ہیں اور سبب بھی وہ ہی بیان کرتے ہیں ”نفسیاتی بیماری“ ۔

صحرائے تھر میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے واقعات کو روکنے کے لئے وہاں کے مقامی سوشل ورکر نے بتایا کہ ”اگر ایسے واقعات میں سرکار خود مدعی بن کر، خاندان کے لوگوں سے تفتیش کرے، لاش کے کیمیکل اجزاء اور حاملہ عورت کے ڈی این اے وغیرہ لے کر تحقیقات کرے اور ملوث لوگوں کو قانون کی گرفت میں لائے تو عین ممکن ہے کہ یہ جرم بڑھنے کے بجائے کم ہو جائے۔”

ننگر پارکر سے ہی تعلق رکھنے والے ایک رائٹر علی خان چانڈیو کا کہنا ہے کہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے کیسز کو ایسے بھی روکا جا سکتا ہے کہ بے جوڑ اور کم عمر شادیوں پر مکمل پابندی رائج کی جائے۔ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات واضح ہے کہ تھرپارکر اور خاص طور پر اس کے علاقے ننگرپارکر میں خواتین میں بڑھتی ہوئی خودکشی کے واقعات پر ملکی اور عالمی اداروں کو فوجی بنیادوں پر تحرک لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ وہاں پر خودکشی کے نام پر قتل عام کا سلسلہ اپنے عروج پر ہے جس کا ایک اہم سبب شجر ممنوع بنا ہوا موضوع ہے، جس پر بات تو کیا تنقید کرنے کا حق بھی اخلاقیات کے اصولوں کے خلاف مانا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments