عمران خان دوبارہ اقتدار حاصل کر سکتے ہیں!


تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے اور متعدد سیاسی پارٹیوں پر مشتمل حکومت قائم ہونے کے بعد بھی پاکستان میں مسلسل سیاسی بحران کی کیفیت ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ساتھی نئی حکومت کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کررہے ہیں حتی کہ صدر پاکستان اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے شہباز شریف اور ان کی کابینہ سے حلف لینے سے انکار کیا۔ اور اب گورنر پنجاب حمزہ شہباز کے انتخاب کو غلط قرار دے کر ان سے وزیر اعلیٰ پنجاب کا حلف لینے سے انکار کر رہے ہیں بلکہ صدر مملکت نے وزیر اعظم کی طرف سے گورنر پنجاب کو برطرف کرنے کے حکم باوجود ابھی تک صدارتی نوٹی فیکیشن جاری نہیں کیا۔

دوسری طرف عمران خان نے سیاسی اجتماعات کا سلسلہ جاری رکھا ہؤا ہے تاہم اس سے بھی زیادہ خطرناک کھیل سوشل میڈیا کے ذریعے مہم جوئی اور غلط معلومات کی بنیاد پر سراسیمگی کی کیفیت پیدا کرنے کا رجحان ہے۔ یوں لگتا ہے اہل پاکستان کسی ’سیاسی خلا‘ میں زندہ ہیں جو نہ تو حالات کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی جانے والی حکومت کی ناکامیوں کی وجوہ پر غور کرتے ہیں۔ اور نہ ہی نئی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ جمہوری پارٹیاں ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ان لوگوں نے منتخب حکومت کو اپنی مدت کیوں پوری نہیں کرنے دی اور کیا وجہ ہے کہ معاشی بحالی کا جو کام عمران خان کی حکومت چار سال میں مکمل نہیں کرسکی، اسے شہباز شریف کی ’جنگی کابینہ‘ چند ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال میں مکمل کرلے گی؟

یہ عین ممکن ہے کہ پاکستان میں عوام کی اکثریت یہ سوال اٹھاتی ہو اور اپنے طور پر ان کے جواب تلاش کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہو۔ تاہم اس وقت سوشل میڈیا کے علاوہ یو ٹیوب چینلز اور مین اسٹریم میڈیا کے ٹاک شوز کے ذریعے جو ماحول پیدا کیا گیا ہے، اس میں ملک کو بحران سے نکالنے کی بجائے اس موضوع پر زیادہ گفتگو کی جاتی ہے کہ یہ بحران کیسے گہرا ہوسکتا ہے، عمران خان کیسے ملکی سیاست میں طوفان برپا کرسکتے ہیں اور نئی حکومت میں کیسے اور کب افتراق و انتشار کے آثار نمودار ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اس قسم کے تمام مباحث سے عوام کی بے چینی میں تو اضافہ ہوتا ہے لیکن ملک کو درپیش مسائل کا کوئی حل تلاش کرنے کی صورت پیدا نہیں ہوتی۔ اس پر مستزاد یہ کہ نہ تو اقتدار سے محروم ہونے والے عمران خان کو اس کا احساس ہے کہ سیاسی ماحول میں شدت اور ذاتی تعصبات کے رویہ کو کم کیا جائے اور نہ ہی نئی حکومت کے زعما یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ وہ اینٹ کا جوب پتھر سے دینے کی بجائے اپنی کارکردگی کے ذریعے عوام کو سہولت بہم پہنچانے کا اہتمام کریں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں سیاسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر رائے عامہ کو شدید تقسیم کیا گیا ہے۔ عوام کے طبقات کو ایک دوسرے سے متصادم کرنے والے عناصر کو اس سے غرض نہیں ہے کہ اس سے ملکی معیشت کی بحالی کا کام نہیں ہوسکے گا۔ بلکہ مفاہمت اور ایک دوسرے کا بازو تھام کر ہی حالات کا رخ تبدیل کیا جا سکتا ہے تاکہ معاشی احیا کا بنیادی اور اہم ترین کام شروع کیا جا سکے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے آج اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس کی صدارت کی اور وزرا کو تجربہ کار اور وطن دوست قرار دیتے ہوئے ’جنگی بنیادوں‘پر ملکی معیشت کی بہتری اور عوام کو سہولیات کی فراہمی کے لئے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ جذبہ اگرچہ لائق تحسین ہے لیکن جب نئی حکومت میں درجن بھر کے قریب سیاسی گروہ حصہ دار ہوں جو ماضی قریب میں ایک دوسرے کے مدمقابل رہے ہوں، اور اقتدار سے محروم ہونے والی ملک کی سب سے بڑی پارٹی اسمبلیوں کے بائیکاٹ سے لے کر سڑکوں پر فساد پیدا کرنے جیسے اقدام کا اعلان کررہی ہو تو یہ خیال پریشان ضرور کرتا ہے کہ کیا ملک کبھی اپنی سمت کا تعین کرسکے گا۔ عمران خان اب اپنی جوشیلی تقریروں میں معیشت کی بات نہیں کرتے، نہ ہی یہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے اور دوبارہ اقتدار ملنے کے بعد وہ کیوں کر ملک کو اس عروج کی جانب لے جا سکیں گے جس کا ذکر صرف تقریروں اور سوشل میڈیا بیانات کی حد تک ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ کیوں کہ کوئی ان سے یہ سوال ہی نہیں کرتا۔ اس صورت میں عمران خان کو لگتا ہے کہ اگر سازش کے نام سے عوام کے امریکہ مخالف جذبات کو ابھارا جائے تو وہ اسٹبلشمنٹ کی مدد کے بغیر بھی دوبارہ اکثریت حاصل کر لیں گے۔ اسی لئے وہ فوری طور سے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ اس وقت تحریک انصاف کے حامیوں میں جوش و جذبہ کی جو کیفیت موجود ہے، اسے سیاسی کامیابی کے لئے استعمال کیا جاسکے۔

ملک میں امریکہ مخالف مہم چلانے کے باوجود آج ہی عمران خان نے پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی امریکی کانگریس کی رکن الہان عمر اور ان کے وفد سے ملاقات کی۔ الہان عمر مسلمان ہونے کے باوجود اس وقت حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کی نمائندہ ہیں۔ عمران خان اسی پارٹی کی حکومت پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کا الزام عائد کررہے ہیں۔ سابق وزیر شیریں مزاری نے فخریہ انداز میں امریکی وفد کے ساتھ عمران خان کی تصاویر شئیر کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ الہان عمر نے عمران خان کے اسلاموفوبیا کے بارے میں مؤقف کی تعریف کی۔ پوری کہانی نہ کوئی سننا چاہتا ہے اور نہ ہی کوئی بتانے کے لئے تیار ہوگا۔ ورنہ بنیادی سوال تو یہی ہے کہ جس ملک اور حکومت نے عمران خان کے خلاف سازش کی تھی، اب اسی کے ایک وفد سے ملنا کیوں ضروری تھا۔ عمران خان کا کوئی حامی اس تضاد کو محسوس نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ انہیں ایک خاص طرح سوچنے اور اسی طرح غور کرنے کے لئے ’پروگرام ‘ کر دیا گیا ہے۔

اس کے برعکس شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی کثیر الجماعتی حکومت کا خیال ہے کہ فی الوقت انتخابات کی بات نہ کی جائے، عمران خان کا جوش و ولولہ اور جذبہ وقت کے ساتھ ازخود ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ اس دوران کچھ ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے عوام کو کسی حد ریلیف ملے۔ اس مدت کو استعمال کرتے ہوئے انتخابی اصلاحات اور اہم عہدوں پر تقرریوں کے اہم کام کر لئے جائیں۔ بظاہر اتحادی حکومت کی حکمت عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے ذریعے کچھ وسائل حاصل کئے جائیں اور اسی طرح چین اور سعودی عرب کو پاکستان کی ہنگامی مدد پر آمادہ کیا جائے۔ حکومت کا قیاس ہے کہ نئی حکومت میں چونکہ تحریک انصاف کے سوا سب سیاسی پارٹیاں شامل ہیں، اس لئے یہ صورت حال دوست ممالک اور عالمی اداروں میں خیر سگالی کا جذبہ پیدا کرنے میں معاون ہوسکتی ہے۔ مالی تعاون کے اس منصوبہ کے تحت ایک سال کے دوران ڈالر اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں استحکام پیدا کرکے عوام کو خوشگوار حیرانی میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ پھر اگلے سال پسندیدہ عبوری حکومت کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کو شکست دی جا سکے گی۔

تاہم یہ سہانا منصوبہ اسی وقت کامیاب ہو گا جب ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہو سکے، معیشت کو کام کرنے کا موقع ملے اور نئی حکومت جسے اس کے مخالفین ابھی سے بھان متی کا کنبہ قرار دے رہے ہیں، واقعی قومی تعمیر کے جذبہ سے سیاسی جوڑ توڑ کی بجائے کام کرنے کا عزم کریں۔ وفاقی کابینہ پر اتفاق رائے پیدا ہونے میں جو وقت صرف ہؤا ہے، اس سے اتحادی جماعتوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ شہباز شریف جنگی بنیادوں پر معاشی بحالی کا کام کرنے کی بات تو کر رہے ہیں لیکن اس مقصد کے لئے مختصر اور مؤثر کابینہ چننے کی بجائے، اقتدار کے سب شراکت داروں کو حصہ دینے کی کوشش میں ایک بھاری بھر کم کابینہ مقرر کی گئی ہے جس میں کام کرنے والوں کی بجائے بندربانٹ میں شامل ہونے والوں کی بھرمار ہے۔ اور ابھی یہ کابینہ مکمل نہیں ہوئی بلکہ اعلان کیا گیا ہے کہ اس میں مزید وزیر شامل کئے جائیں گے۔ سب کو خوش کرنے کے طرز عمل کا اندازہ صرف اس حقیقت سے ہی کیا جاسکتا ہے کہ حنا ربانی کھر کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنانے کے ایک ہی روز بعد نواز شریف کے وفادار طارق فاطمی کو خارجہ امور پر وزیر اعظم کا معاون خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔ یہ وزارت پیپلز پارٹی کو دینے کا فیصلہ ہؤا تھا اور امکان ہے کہ معاملات طے ہونے کے بعد بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالیں گے۔ تاہم اسی وزارت میں مسلم لیگ (ن) کے ایک وفادار سابق بیوروکریٹ کی تقرری حکومت کے آغاز میں ہی الجھنوں اور مشکلوں کا سبب بن سکتی ہے۔

شہباز شریف نے اپنی کابینہ کو ’جنگی کابینہ‘ قرار دیا ہے۔ تاہم جنگی حالات میں کام کرنے والی ٹیم کو مختصر رکھا جاتا ہے اور شعبہ جاتی ماہرین کوہی اس میں شامل کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی جنگی کابینہ چونکہ کسی بیرونی خطرے کے مقابلے میں کھڑی ہوتی ہے، اس لئے اسے قومی سطح پر وسیع حمایت حاصل ہوتی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے احتجاج سے قطع نظر موجودہ حکومت کو خود اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کے لئے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔  یہ اتحاد صرف پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ کر تعمیر نو کے جذبہ کے تحت ہی پیدا ہوسکتا ہے لیکن موجودہ حکومت اور اس میں شامل پارٹیوں میں یہ جذبہ مفقود دکھائی دیتا ہے۔ اس کا ایک شاہکار شہباز شریف نے خود وزیر اعظم بننے کے باوجود پنجاب میں اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنوا کر پیش کردیا ہے۔ جب اعلیٰ ترین سطح پر اقربا پروری کا رویہ اس قدر حاوی ہو گا تو اس وقت بظاہر دکھائی دینے والا معمولی اختلاف، چند ہفتوں یا ماہ میں بڑا سیاسی بحران بھی بن سکتا ہے۔ حکومت ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوئی تھی کہ مولانا فضل الرحمان نے ’ہمیں جلد انتخابات چاہئیں‘ کا بیان دے دیا تھا۔ کیا یہ معاملات تحریک عدم اعتماد لاتے وقت طے نہیں کئے جا سکتے تھے؟

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے شدید سیاسی اختلافات اور تلخ ماضی کے باوجود عمران خان کی دشمنی میں مل کر تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم اگر ان پارٹیوں کی قیادت اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی ذمہ داری سمجھنے اور پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئی تو ملک کے حالات بھی خراب ہوں گے اور عمران خان کو ان اتحادیوں پو حملہ آور ہونے کے لئے نیا ہتھیار بھی میسر آ جائے گا۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ حکومتی اتحاد میں شامل بڑی پارٹیاں ابھی سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے آئندہ انتخابات میں جانے کا اعلان کریں۔ جون میں قومی بجٹ پیش کرتے ہی عبوری حکومت کے قیام اور نئے انتخابات کے انعقاد کا اہتمام کیا جائے تاکہ ملک ایک بار بے یقینی اور انتشار کے ماحول سے باہر نکل سکے۔

اس کے برعکس اگر اتحادی عہدوں کے لئے جھگڑتے رہے اور انتخابات میں اپنی انفرادی پوزیشن مضبوط کرنے کا مقصد پیش نظر رہا تو انہیں جان لینا چاہئے کہ عمران خان ایک نئی توانائی کے ساتھ سیاسی منظر نامہ پر حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں کے لئے یہ کوئی اچھی خبر نہیں ہوگی۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments