مہنگے تحائف اور مختلف ممالک کے توشہ خانے


پاکستان میں توشہ خانہ پہلے بھی موجود تھا، کچھ سابق حکمرانوں کی توشہ خانے کے تحائف اونے پونے داموں یا بالکل مفت حاصل کرنے کی داستانیں سامنے آئیں۔ اسی حوالے سے کچھ کیسز بھی ابھی تک پاکستان کی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ سوشل میڈیا اور عمران خان کی مہربانی سے پچھلے چند روز میں توشہ خانے کو شہرت دوام ملی ہے۔

جب کوئی سربراہ حکومت یا کوئی وزیر کسی دوسرے ملک کے دورے پر جاتا ہے تو خیر سگالی کے طور پر اسے تحائف وصول ہوتے ہیں اسی طرح بعض ملک میں آنے والے مہمان بھی اپنے میزبان کو تحائف پیش کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ وہ تحفہ کسی شخصیت کے لئے نہیں بلکہ اس کے عہدے دوسری صورت میں ملک کے لئے ہوتا ہے۔ اس تحفے کو وصول کرنے یا وصول کنندہ کی ذاتی طور پر رکھنے کے لئے کچھ قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔

پاکستان میں اگر تحفے کی مالیت 30000 روپے تک ہو تو وصول کنندہ اسے رکھ سکتا ہے۔ مگر قیمت اس سے زیادہ ہو تو کسٹم حکام اس کی قیمت طے کرتے ہیں جسے پہلے 20 فیصد رقم اور اب پچاس فیصد رقم ادا کر کے وصول کنندہ خرید سکتا ہے۔ باقی دنیا میں اس حوالے سے قانون کیا کہتا ہے چند ممالک کا جائزہ لیتے ہیں۔

جرمنی میں کسی بھی سطح پر ملنے والے تحفے کی قیمت اگر 153.39 یورو سے زیادہ ہو جائے تو وہ ان کو وصول کنندہ کی طرف سے ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان تحائف کو وہاں کے توشہ خانے Bundesvermögen میں جمع کرا دیا جاتا ہے یا سو فیصد رقم ادا کر کے اسے تحفہ وصول کرنے والا خرید سکتا ہے۔ لیکن اگر وصول کنندہ اسے نہ خریدنا چاہے تو اس کا نیلام عام ہوتا ہے اور حاصل کردہ رقم فلاحی کاموں میں صرف کی جاتی ہے۔

آسٹریلیا میں حکومتی سطح پر ملنے والا تحفہ اگر 750 آسٹریلین ڈالر سے زیادہ مالیت کا ہو تو وہ تحفہ وصول کنندہ خرید سکتا ہے۔ لیکن خریدنے کے لئے 750 ڈالر سے زائد رقم اسے پوری ادا کرنی ہوگی اور اس پر دس فیصد ٹیکس بھی ادا کرنا پڑے گا۔ یعنی اگر تحفے کی قیمت دو ہزار ڈالر ہو تووہ خریدنے والے کو 1250 ڈالر قیمت اور 125 ڈالر ٹیکس ادا کر کے یہ 1375 ڈالرز میں مل سکتا ہے۔

کینیڈا میں ایک سال میں 200 کینیڈین ڈالر سے زائد مالیت کے تحائف وصول کرنے والے کو انہیں ظاہر کرنا ضروری ہے۔ تاہم تحفہ پاس رکھنے کی زیادہ سے زیادہ حد 1000 ڈالر ہے۔ اس سے زائد مالیت کا تحفہ وہاں کے توشہ خانے میں چلا جاتا ہے۔ کینیڈا میں Ethics Commissioner ایسے معاملات پر گہری نظر رکھتا ہے کہ کوئی بے ضابطگی نہ ہونے پائے۔

چین نے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو ہواوے کا ایک موبائل تحفے میں دیا تھا جس کی قیمت 1300 ڈالر تھی اس لئے وہ وزیراعظم استعمال نہیں کرسکے اور یہ توشہ خانے میں جمع کروانا پڑا۔ اسی طرح جاپان کے وزیراعظم کی طرف سے دی گئی سیکو کی دو گھڑیاں اور اردن کے بادشاہ کی طرف سے دیے گئے سونے کے قلم بھی انہیں جمع کرانے پڑے کیونکہ ان کی مالیت 1000 ڈالر سے زائد تھی۔ پھر 2017 میں وزیراعظم ٹروڈو کو پرنس کریم آغا خان کا ذاتی مہمان بننے اور ان سے تحائف وصول کرنے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اپوزیشن کی طرف سے یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا اور وزیراعظم نے تندوتیز سوالات کے جوابات دیے۔ حالانکہ پرنس کریم نے انہیں صرف ایک بیگ (overnight bag) تحفے میں دیا تھا اور وزیراعظم نے اسے کینیڈین کسٹم اور بارڈر ایجنسی میں ظاہر بھی کیا تھا کہ یہ تحفہ جائز قانونی حد کے اندر ہے۔ سال 2018 میں کینیڈا نے جی سیون کانفرنس کی میزبانی کی تھی۔ اس موقعے پر کینیڈین وزیراعظم کو وائن، پینٹنگز، ٹائی، سکارف، کافی جیسے ”قیمتی“ تحائف ملے تھے۔ ان تمام تحائف کو عوام کے لئے ظاہر کیا گیا تھا۔ جس کی پوری فہرست عوام کے ملاحظے کے لئے موجود ہے۔

برطانیہ میں تحفہ پاس رکھنے کی حد 140 برطانوی پاونڈ ہے۔ اس سے زائد مالیت کے تحائف کو ظاہر کرنا لازمی ہے۔ اور اگر انہیں خریدنا مقصود ہو تو 140 پاونڈ سے اضافی رقم ادا کر کے اسے خریدا جاسکتا ہے۔ یعنی وصول کنندہ کو کل قیمت سے 140 پاونڈ کی رعایت مل جائے گی۔

امریکن صدر کے لئے 350 ڈالرز سے زائد کے تحائف کو ظاہر کرنا لازمی ہے۔ صدر قیمتی تحائف وصول کر کے اپنے توشہ خانے (National Archives warehouse) میں جمع کروا دیتا ہے۔ اگر وہ تحفہ خود رکھنا چاہے تو اسے مارکیٹ ویلیو کے حساب سے پوری رقم کے علاوہ ٹیکس بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے زیادہ تر تحائف میوزیم کی زینت بن جاتے ہیں۔ بارک اوباما نے ملنے والا کوئی بھی تحفہ نہیں خریدا جبکہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے ایک ہار جس کی قیمت 1000 ڈالر تھی قیمت ادا کر کے خریدا۔

ہندوستان میں بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کی مالیت اگر پانچ ہزار روپے تک ہو تو اسے وصول کنندہ خود رکھ سکتا ہے۔ اس سے زائد مالیت کے تحائف اگر رکھنا چاہے تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق پوری قیمت ادا کر کے رکھ سکتا ہے وگرنہ تحفہ راشٹرپتی بھون یا وزیراعظم ہاؤس میں رکھ دیا جاتا ہے۔

مغرب میں بہت زیادہ قیمتی تحائف دینے کا رواج بھی نہیں ہے، بدقسمتی سے یہ رواج عرب ممالک میں زیادہ ہے۔ سعودی عرب سب سے قیمتی، مرصع اور پرتعیش تحائف دینے کا عادی ہے اور بھاری رقم اس پر خرچ کرتا ہے۔

پاکستان کی اشرافیہ نے اپنے فائدے کے لئے الگ ہی قوانین بنا رکھے ہیں۔ ان قوانین کی آڑ میں پہلے پندرہ فیصد اور اب پچاس فیصد رقم ادا کر کے تحفہ اپنے پاس رکھا جاسکتا ہے۔ یہ رعایتی قیمت کیوں؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ سربراہان حکومت اور ریاستی اداروں کے سربراہان کو ملنے والی تحائف کی فہرست پبلک کی جائے۔ عدالت اس پر فیصلہ بھی دے چکی ہے۔ دوسرا یہ کہ مہنگے تحائف ایک مخصوص رقم کو معاف کر کے باقی مکمل رقم تحفہ رکھنے کے خواہشمند سے وصول کی جائے۔ باقی اشیا کسی ”محفوظ“ میوزیم میں رکھی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments