شہباز شریف کے لیے معاشی چیلنج


شہباز شریف صاحب پنجاب کی وزارت اعلی کے دوران جن انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکے ہیں اس کو فراموش کرنا کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ اس وقت مگر وطن عزیز کو کئی طرح کے اندرونی و بیرونی چیلنجز درپیش ہیں اور وزارت عظمی کا منصب شہباز شریف صاحب کے لیے کسی امتحان سے کم نہ ہو گا۔ کیونکہ ایک صوبے کی دو تہائی اکثریت کی حامل حکومت کی سربراہی اور اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ کے رحم و کرم پر کھڑی ایسی وفاقی حکومت چلانے، جس کے اقتدار کا دورانیہ بھی واضح نہ ہو، میں بہت فرق ہے۔

شہباز شریف صاحب کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی لانا ہو گا جس کے لیے انہیں طویل مدت تک برآمدات میں اضافے کی کوشش کرنا ہوگی اور اس حوالے سے گزشتہ حکومت کی اس غلطی کو دہرانے سے گریز کرنا ہو گا جس کی وجہ سے ملکی معاشی شرح نمو منفی سطح تک گر گئی تھی۔ بلا شبہ نون لیگ کے پچھلے حکومتی ادوار میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جتنا بڑھ چکا تھا اس میں کمی لانا تحریک انصاف کی حکومت کے لیے نا گزیر تھا لیکن اس کمی کے لیے تحریک انصاف کی حکومت کو برآمدات میں اضافے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔

اس کے برعکس عمران خان صاحب کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی بغیر سوچے سمجھے ہر قسم کی درآمدات میں کمی کر دی۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی لانے کے نام پر ترقیاتی منصوبوں میں استعمال ہونے والی مشنری کی درآمد بھی مکمل روک دی جس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں عارضی طور پر کمی تو آ گئی لیکن اس حکمت عملی سے ترقیاتی منصوبوں پر بھی اثر ہوا اور ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہو گیا۔ یہ صورتحال شہباز شریف کی معاشی ٹیم کے لیے قابل غور ہونی چاہیے اور اس کے ازالے کی کوشش لازم ہے۔

ملکی معیشت کا یہ المیہ ہے کہ ہمارے ہاں جی ڈی پی گروتھ ہمیشہ امپورٹ بیس رہی ہے۔ نون لیگ کے پچھلے دور میں جی ڈی پی گروتھ چھ فیصد کے قریب تو پہنچ گئی تھی لیکن اس کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی نا قابل برداشت حدوں کو کراس کرنے لگ گیا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ابتدا سے ہی برآمدات میں اضافے کی کوشش نہیں کی اور تمام تر انحصار ترسیلات زر اور درآمدات میں وقتی اور مصنوعی کمی پر رکھ کر ڈھنڈورا پیٹتی رہی کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پا لیا گیا ہے جس کا معیشت کو فائدہ ہونے کے بجائے الٹا ملک میں بیروزگاری بڑھ گئی۔

اسی پالیسی کی بدولت ایک موقع پر تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں جی ڈی پی گروتھ منفی سطح پر چلی گئی تھی اور پھر جب اس وقت کی معاشی ٹیم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو پھر امپورٹ پالیسی میں نرمی کی گئی جس سے جی ڈی پی گروتھ میں کچھ اضافہ تو ہو گیا لیکن کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم و بیش دوبارہ وہیں پہنچ گیا جہاں نون لیگ کی حکومت نے چھوڑا تھا۔

میرے خیال میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے اس حوالے کی معتدل پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے اور حکومت خواہ کسی کی بھی ہو اب یہ ادراک ہو جانا چاہیے کہ جب تک روزگار کے نئے مواقع پیدا نہیں ہوں گے عوام کی مشکلات میں کمی نہیں آ سکتی۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے نہایت ضروری ہیں اور موجودہ حالات میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کے لیے حکومت کو اپنے غیر ضروری اخراجات میں بھی کمی کرنا ہوگی۔

حکومت کے لیے ایک بڑا درد سر بجلی کا شعبہ ہے جس کا گردشی قرض ہر سال خطیر رقم نگل جاتا ہے پھر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ گزشتہ حکومت میں آئی پی پیز سے متعلق ایک رپورٹ کا بڑا چرچا تھا جس کے مطابق بجلی بنانے کی نجی کمپنیوں سے ایسے معاہدے کیے گئے جنہوں نے وفاقی حکومت کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور وہ مہنگی بجلی خریدنے کی پابند ہے۔ اس پر مستزاد ملک میں بجلی کی بڑے پیمانے پر چوری چکاری ہے جس کی قیمت ایمانداری سے بل دینے والوں اور حکومت کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں حکومت بجلی خریدنے کے لیے قومی خزانہ سے تقریباً سوا دو ہزار ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ اس کے باوجود اس وقت بجلی کا گردشی قرض ڈھائی ہزار ارب روپے کا ہندسہ کراس کرچکا ہے۔ جب تک اس مسئلے کا حل نہیں نکلتا حکومت کسی کی بھی ہو آمدن اور اخراجات میں توازن لانا ممکن نہیں ہو گا۔

غیر ترقیاتی اخراجات کم کرنے کے لیے طویل مدتی، سخت فیصلوں کی ضرورت ہوگی اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے جیسا غیر مقبول فیصلہ کرنا پڑے گا۔ میرے خیال میں پہلی ہی تقریر میں تنخواہوں میں اضافے کا اعلان غیر ضروری شہرت حاصل کرنے والا اقدام تھا۔ اس وقت وفاقی اور صوبائی ملازمین کی تعداد تقریباً تیس لاکھ ہے اور پچیس لاکھ سے زائد ریٹائرڈ ملازمین ہیں جو پنشن وصول کرتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تعداد کو کم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے نصف تعداد بھی کار مملکت بخوبی انجام دے سکتی ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتوں سے محروم کرنا لیکن مشکل فیصلہ ہو گا اور پیپلز پارٹی جیسی اتحادی جماعت کے سہارے پر کھڑے حکومت یہ فیصلہ نہیں کر پائے گی۔ اسٹیل مل کے 10 ہزار ملازم گولڈن شیک ہینڈ دے کر فارغ کرنے کی کوشش پہلے بھی ہو چکی ہے جس پر کتنا شور شرابا ہوا۔ حالانکہ یہ ملازمین کئی سالوں سے گھر بیٹھے ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی سے عیش کر رہے ہیں۔ اب تک قومی خزانہ سے اسٹیل مل کے نقصان کو پورا کرنے پر سینکڑوں ارب خرچ کیے جا چکے ہیں اور یہی حال پی آئی اے، ریلوے اور دیگر سرکاری اداروں کا ہے جو ہر سال قومی خزانہ سے کئی سو ارب ہڑپ کر جاتے ہیں۔

خسارے میں چلنے والے ایسے تمام اداروں کی نجکاری فی الفور ضروری ہے۔ کوئی حکومت لیکن ایسے فیصلے نہیں کر سکی کیونکہ اپوزیشن وقتی مفاد کی خاطر اسے سیاسی ایشو بنا لیتی ہے۔ ہر حکومت ڈرتی ہے کہ احتجاج اور ہنگامہ آرائی ہوئی تو امن و امان کا مسئلہ بنے گا جو اقتدار کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح حکومت کو آمدن میں اضافے کے لیے ٹیکس کے نظام کو عام فہم بنانے اس میں اصلاحات اور اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ یقیناً تاجر برادری اور پراپرٹی مافیا اس میں مزاحم ہوگی مگر ان معاملات پر دلیرانہ فیصلے اور اقدامات کیے بغیر ملکی معیشت کو پٹری پر نہیں ڈالا جا سکتا اور آج نہیں تو کل یہ کام کرنا ہو گا۔ قرض، ترسیلات زر کے سہارے یا درآمدات میں مصنوعی کمی کے ذریعے ملک کو طویل عرصہ تک نہیں چلایا جا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments