نئی وفاقی کابینہ کا انتخاب


نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف کی 34 رکنی کابینہ نے پہلے مرحلے کے تحت حلف اٹھا لیا ہے جن میں 31 وفاقی وزراء، 3 وزرائے مملکت اور 3 مشیر شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے 13 وفاقی وزراء، 2 وزیرمملکت اور ایک مشیر کے علاوہ پیپلز پارٹی کے 9 وفاقی وزیر، 2 وزیرمملکت اور ایک مشیر، جمعیت علماء اسلام کے 4 وفاقی وزیر، ایم کیو ایم کے 2 وفاقی وزیر، بلوچستان عوامی پارٹی، جمہوری وطن پارٹی اور ق لیگ کا ایک ایک وفاقی وزیر کابینہ کا حصہ ہیں جب کہ ایک مشیر کا عہدہ جہانگیر ترین گروپ کے عون عباس چوہدری کو دیا گیا ہے۔

کابینہ ڈویژن کی جانب سے جاری شدہ نوٹیفکیشن کے مطابق رانا ثناء اللہ وفاقی وزیر داخلہ، خواجہ آصف دفاع، احسن اقبال منصوبہ بندی و ترقی، مریم اورنگزیب کو وزیراطلاعات و نشریات، خواجہ سعد رفیق ریلوے اور ہوابازی، مفتاح اسماعیل کو مشیر خزانہ بنایا گیا ہے جبکہ سید خورشید شاہ وفاقی وزیر آبی وسائل اور نوید قمر کو وزیر تجارت، شازیہ مری کو تخفیف غربت اور سماجی تحفظ کی وفاقی وزیر، سید مرتضی محمود کو صنعتی پیداوار، ساجد حسین طوری اوور سیز پاکستانیز اور انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر ہوں گے۔ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ رانا تنویر حسین کو تعلیم، احسان الحق مزاری کو انسانی حقوق اور عابد حسین بھیو کو وزارت نجکاری کا قلمدان دیا گیا ہے۔

نئی کابینہ میں مولانا فضل الرحمان کے صاحبزادے اسعد محمود کو وفاقی وزیر مواصلات بنایا گیا ہے جبکہ مولانا عبد الواسع کو ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور مفتی عبدالشکور کو وزارت مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کا قلمدان سونپا گیا ہے۔ سینیٹر طلحہ محمود کو وفاقی وزیر سیفران، امین الحق کو آئی ٹی اور ٹیلی کمیونیکیشن اور فیصل سبزواری کو بحری امور کی وزارت دی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اسرار ترین کو دفاعی پیداوار، شاہ زین بگٹی کو نارکوٹکس کنٹرول اور طارق بشیر چیمہ کو نیشنل فوڈ سکیورٹی کا قلمدان دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا وزیرمملکت برائے خزانہ اور حنا ربانی کھر وزیرمملکت برائے خارجہ ہوں گی۔ کابینہ ڈویژن کے مطابق قمرزمان کائرہ وزیراعظم کے مشیر برائے امور کشمیر اور گلگت بلتستان ہوں گے۔

واضح رہے کہ اس 34 رکنی کابینہ میں سے 18 ارکان پنجاب، 6 کا خیبر پختونخوا اور باقی سندھ و بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں، خیبر پختونخوا سے جے یو آئی کے حصے میں تین وزارتیں آئی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی نئی نومنتخب وفاقی کابینہ میں 14 ارکان ایسے بھی ہیں جو پہلی بار وزیر بنے ہیں جب کہ ان 14 نئے وزراء میں 4 ارکان ماضی میں صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ پہلی بار وفاقی وزیر بننے والے 14 ارکان میں عابد حسین بھیو، مرتضی محمود، عبد القادر پٹیل، احسان الرحمان مزاری، ساجد حسین طوری، مولانا اسعد محمود، مولانا عبد الواسع، مفتی عبدالشکور، سینیٹر طلحہ محمود، اعظم نذیر تارڑ، میاں جاوید لطیف، مرتضی جاوید عباسی، شاہ زین بگٹی، اسرار ترین، رانا ثنا اللہ، عائشہ غوث پاشا، شازیہ مری اور فیصل سبزواری شامل ہیں۔

اس کابینہ کی ایک خاص اور منفرد بات اگر ایک طرف اس کا قومی اتفاق رائے کی شکل اختیار کرنا ہے کیونکہ اس اتحادی حکومت میں سوائے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتیں شامل ہیں جب کہ اس کابینہ کی ایک اور اہم بات اس میں اتحادی جماعتوں سے شامل کیے جانے والے ان جماعتوں کے کہنہ مشق افراد کی شمولیت ہے۔ نئی کابینہ کی ایک اور خاص بات اس میں متناسب انداز سے چاروں صوبوں کی نمائندگی ہے جب کہ اگر آگے جاکر اس میں این ڈی ایم، اے این پی اور بی این پی جیسی قوم پرست جماعتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں تو اس سے یہ کابینہ بظاہر حجم میں تو بڑھ جائے گی لیکن اس سے احساس کمتری کی شکار چھوٹی قومیتوں کو قومی دھارے میں لانے کی نئی راہیں بھی کھل سکیں گی۔

گو کہ اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کابینہ میں ابھی مزید کچھ وزرا ء اور مشیر شامل ہونا ہیں اور اس حوالے سے بعض اختلافات اور تحفظات کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ کابینہ پرانے اور نئے چہروں کا ایک متوازن مجموعہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پی ٹی آئی کے حلقوں کی جانب سے نئی منتخب حکومت اور کابینہ پر اعتراضات میں ہر گزرے دن کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے لیکن ان اعتراضات کے علی الرغم پوری قوم کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کی نظریں بھی یقیناً نئی حکومت اور اس کی کارکردگی پر مرکوز ہیں۔

اس بات میں کوئی دو آرا ء نہیں ہیں کہ اگر یہ حکومت گزشتہ حکومت کی بعض عاقبت نا اندیش پالیسیوں اور خاص کر گورننس میں ناکامی اور بے تحاشا مہنگائی جیسے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو گئی تو اس سے نہ صرف وہ پی ٹی آئی کی ممکنہ احتجاجی تحریک کا اثر زائل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے بلکہ کسی بھی ممکنہ بہترین کارکردگی کے نتیجے میں یہ جماعتیں مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں بھی اپنے لئے جگہ مستحکم کر سکتی ہیں۔ بصورت دیگر اگر یہ جماعتیں چھوٹے چھوٹے ایشوز پر آپس میں مشت و گریبان ر ہیں یا پھر اگر ان کی ترجیح اپنے ذاتی فوائد سمیٹنے تک محدود رہی تو اس کے نتیجے میں جہاں ان جماعتوں کو قصہ پارینہ بننے میں دیر نہیں لگے گی وہاں اس کا بھاری نقصان قوم کو بھی بے شمار مسائل کی صورت میں اٹھانا پڑ سکتا ہے لہٰذا توقع ہے کہ نئی حکومت ہر قدم قوم کے وسیع تر مفاد میں پھونک پھونک کر انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں اٹھائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments