لاہور جلسے کے بعد جرنیلوں کی سیاست اور شری چار سو بیس


آوارہ، شری چار سوبیس، آہ، میرا نام جوکر، سنگم، برسات اور اس معیار کی دوسری لازوال فلمیں دینے والا راج کپور 14 دسمبر 1924 کو پختونخوا کے مردم خیز شہر پشاور میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے اپنی قدرتی اداکاری اور شاندار ہدایتکاری کی بنا پر انڈین سنیما پر اتھارٹی سمجھے جانے والے لکھاریوں اور تنقید نگاروں سے دی گریٹسٹ شو مین کا خطاب پایا۔ اس کے بعد اگر کسی پر دی گریٹسٹ شو مین کی خطاب جچتی ہے تو وہ بلاشبہ عمران خان ہے۔

شری چار سو بیس میں راج کپور کا نام راج ہوتا ہے۔ وہ جب تک ایماندار ہوتا ہے غریب ہوتا ہے۔ جس دن بے ایمانی کی راہ پر چل پڑتا ہے بڑے بڑے سیٹھ ساہوکار اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں اور وہ چند دنوں میں جھوٹ فریب دھوکا اور چرب زبانی سے امیر ہوجاتا ہے۔ غربت کی زندگی کے دوران وہ فٹ پاتھ پر سونے والے محنت کشوں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہاں پہلی دفعہ اس سے کوئی نام پوچھ لیتا ہے تو وہ کہتا ہے میں راج ہوں۔ اس پر ایک فٹ پاتھیا ہنس کر کہتا ہے کہ میں نہ کہتا تھا کہ ایک دن ہمارا بھی راج آئے گا۔ عمران خان کی حکومت کو بھی ابتدا میں ہم غریبوں کا راج سمجھا گیا تھا۔ بے ایمان ہو کر راج کپور اس فل میں سو سو روپے میں غریبوں کے لئے گھر بنانے کے خواب بیچنا شروع کر دیتا ہے اور محنت کشوں سمیت بھیک مانگنے والوں کو بھی ان کے جمع پونجی سے محروم کر دیتا ہے۔

خان صاحب کو میں اس لئے گریٹسٹ شو مین سمجھتا ہوں کہ اس نے بھی خواب بیچے ہیں۔ اس میں بھی گریٹسٹ شو مین کی خاصیت ہے۔ وہ تماشا لگانا اور بھیڑ اکٹھی کرنا جانتا ہے۔ پہلی حکومت کے دوران کرپشن فری پاکستان، لاکھوں گھر، کروڑوں نوکریاں، سبز پاسپورٹ سمیت پاکستانیوں کی ہر ائرپورٹ پر والہانہ استقبال، میرٹ، اور نئے پاکستان کے خواب اس نے تھوک کے حساب سے بیچے۔ جب کہ تعبیر میں مہنگائی، کرپشن، بیروزگاری، معاشی بدحالی، حکومتی بدانتظامی اور نا اہلی ملی۔ اب اس بدترین کارکردگی کی جواب دہی کا وقت آیا تو بیرونی سازش امپورٹڈ حکومت اور آزاد پاکستان کے خواب بیچنے کے لئے اس نے پھر بھیڑ لگانے اور تماشا دکھانے کے فن کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔

لاہور کے جلسہ میں عمران خان کی وہی تقریر سنی جو وہ ہمیشہ کرتا ہے۔ لیکن اس میں ایک نئی بات بھی تھی۔ وہ یہ کہ خان صاحب نے گزشتہ پونے چار سال کی حکومت میں جو نیا پاکستان بنایا تھا اب اگلی ملنے والی حکومت کے دوران وہ اس نئے پاکستان کو آزاد کرانا چاہتا ہے۔ شاید یہ دنیا کی پہلی ریاست ہے جو خان صاحب کے ہاتھوں بن تو گئی ہے لیکن آزاد نہیں ہوئی۔ اس لئے اسے آزاد کرانے کے لئے آج خان صاحب نے جلسے کے شرکا، اور ساتھ ساتھ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے سادہ کارکنان سے جو گھروں میں بیٹھ کر خان کا جلسہ دیکھ رہے تھے، عہد لیا کہ آپ نے دن رات اس وقت تک اس ملک کی آزادی کے لئے جدوجہد کرنی ہے جب تک شہباز شریف نئے الیکشن کا اعلان نہ کر دیں۔

دی گریٹسٹ شو مین نے آج کی بھیڑ اس لیے اکٹھی کی تھی کہ اگر شہباز شریف نئے الیکشن کا اعلان کردے تو یقین کریں پاکستان خود بخود آزاد ہو جائے گا۔ اور یہ بات سن کر جلسے کے شرکا نے بڑی دیر تک وفور شوق میں تالیاں بجائیں۔ خان صاحب اور تماش بینوں نے ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سوچا کہ انتخابات کا اعلان کرنے سے اس نئے پاکستان کی آزادی کا کریڈٹ تو شہباز شریف کو چلا جائے گا۔

میں خود ششدر رہ گیا کہ شہباز شریف کے ایک اعلان سے پاکستان آزاد ہو سکتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔ پہلے بھی تو پاکستان کی آزادی کا اعلان برٹش پارلیمنٹ نے دستخط کر کے کیا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر صرف نئے انتخابات کے اعلان سے پاکستان آزاد ہو سکتا ہے تو پھر یہ اعلان گریٹسٹ شو مین نے اپنی حکومت کے دوران کیوں نہیں کیا؟ جب تین سال سے حزب اختلاف اس سے لانگ مارچز اور دھرنوں کے دوران نئے انتخابات کا انعقاد چاہتی رہی۔ اس طرح کم از کم آپ نئے اور آزاد پاکستان کے اعلان کرنے کا شرف تو حاصل کرلیتے۔

حکومت اور عمران خان کے درمیان اصل یہ مسئلہ ہے، کہ آنے والے جرنیل کو کون سی حکومت نامزد کرے گی؟ اس لئے موجودہ حکومت اکتوبر کے قریب نئے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے، کیونکہ اس وقت جنرل باجوہ کی سروس کا آخری دور چل رہا ہو گا، یوں موجودہ حکومت اپنی مرضی سے نئے آنے والے جرنیل کو نامزد کر سکے گی۔ جبکہ عمران خان کی کوشش ہے کہ فوری الیکشن کا اعلان ہو جائے تو اس کو حیران کن حد تک یقین ہے کہ اس کی حکومت دوبارہ بن جائے گی اور یوں وہ آنے والا جرنیل اپنی مرضی سے نامزد کر لے گا۔ یوں حکومت اور حزب اختلاف کی موجودہ سیاست کو تین لفظوں میں بیان کرنا ہو تو اس سارے کشمکش کو جرنیلوں کی سیاست کہا جاسکتا ہے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سی گارنٹی ہے جو فوری الیکشن کی صورت میں عمران خان کو دوبارہ حکومت دلا سکتی ہے اور وہ بھی فیصلہ کن اکثریت کے ساتھ؟

فرض کریں موجودہ حکومت کسی وجہ سے فوری الیکشن کا اعلان کر بھی دے، اور نئے انتخابات کے بعد عمران خان کی پارٹی دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آئی، تو اس صورت میں کیا وہ پھر آرام سے حزب اختلاف کی سیٹوں پر بیٹھ کر اپنا آئینی کردار ادا کرے گا؟ مجھے اس کا یقین نہیں۔ پتہ نہیں اسے کیسے یہ یقین ہو گیا ہے کہ نیا ہو یا پرانا پاکستان حکومت کرنے کا حق صرف وہ رکھتا ہے خواہ وہ الیکشن جیتے یا ہارے۔

حکومت چاہتی ہے کہ تباہ کردہ اکانومی کو آئی سی یو سے نکال کر پوسٹ آپریشن والی حالت تک لے آئے تاکہ وہ آکسیجن سیلنڈر سے آزاد ہو کر خود سانس لینا شروع کردے اور اس دوران انتخابی اصلاحات کر کے آئندہ انتخابات کو شفاف اور سب کے لئے قابل قبول بنا سکے، لیکن عمران خان ایسا نہیں چاہتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کہ انتخابی قوانین میں اس نے جو بارودی سرنگیں لگائی ہیں وہ اس کی خواہشات کی تحفظ کی ضامن ہیں اور دوسرا یہ کہ دیر سے الیکشن منعقد ہونے کی صورت میں وہ بننے والے مختلف مقدمات کی پاداش میں یقینی طور پر جیل جاسکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی پارٹی ہمیشہ کے لئے تتر بتر ہو سکتی ہے۔ اس لئے اسے جب تک بھیڑ اکٹھا کی سہولت حاصل ہے وہ خواب بیچنا چاہتا ہے، نئے پاکستان کو اب آزاد پاکستان بنانے کے لئے جو صرف ایک الیکشن کی دوری پر ہے۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments