ہمیں ایک این آر او کی اشد ضرورت ہے


حکومت میں آتے ہی حکمران بھوک سے نچڑے کاندھوں پر زندگی کا بوجھ اٹھانے سے قاصر عوام کی جو سب سے پہلی توہین کرتے ہیں وہ یہ جملہ ہے کہ ہمیں تو پتا ہی نہیں تھا کہ اتنی خرابی گزشتہ حکومت نے پیدا کر رکھی ہے۔ انفارمیشن کے اس دور میں جب معلومات ہر شخص کی انگلیوں کی جنبش پر ہے یہ جملہ محض اپنے بلند و بانگ جھوٹے دعووں پر اٹھتے سوالوں کا منہ بند کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ یہی 2018 کے انتخابات میں 90 دن کی تبدیلی کے وعدوں پر آنے والے خان صاحب نے کیا اور یہی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بننے والی مہمان موجودہ حکومت نے کیا۔

حکومت سازی سے محض چند روز قبل نسیم زہرا صاحبہ کے پروگرام میں مہنگائی خصوصاً اشیاء خورونوش کی چیزوں کی قیمتوں میں کمی کا شہباز شریف صاحب کا وعدہ تنخواہوں میں 10 فیصد کے اعلان کی طرح ان کی جوش خطابت سیریز کا سیکوئل ہی نکلا۔ ویسے انہیں وزارت عظمی کی کرسی کا خود کو اہل ثابت کرنے کے لیے اپنی اس جوش خطابت کی خو کو ترک کرنا ہو گا جس سے انہوں نے عین امریکی سازش بیانیہ کے عروج پر Beggers are not Choosers کہہ کر پی ٹی آئی کی بڑی مدد کی۔

اس حکومت کے آتے ہی روزمرہ کے استعمال کی چیزوں میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ شہباز شریف صاحب کے حلف اٹھاتے ہی جس ڈالر کے نیچے آنے اور سٹاک ایکسچینج میں تیزی کو مارکیٹ کے ان پر اعتماد سے تعبیر کیا جا رہا تھا اور سابقہ حکومت والی ہی ”امیج میکنگ“ کی کیمپین کی جا رہی تھی ان کی لمبی چوڑی کابینہ کے حلف اٹھانے کے فوراً بعد ڈالر کے ریٹ میں اضافے اور سٹاک ایکسچینج میں زبوں حالی اس کی چغلی کھا رہی ہے۔

طالب علم اسی لیے تحریک عدم اعتماد کے ایک آئینی راستہ ہونے کے باوجود خان حکومت کو 5 سال پہلے ہٹانے کے خلاف تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ اس سے ”خواص“ ہی کو فائدہ ہو گا۔ کسی کی انا کی تسکین ہو گی، کسی کا انتقام پورا ہو گا، کسی کو خود کو کلین چٹ دلوانے کا موقع ملے گا اور کسی کے ”ضمیر“ جاگنے کے بعد اسے دوبارہ گہری میٹھی نیند سونے کے لیے لوڈ شیڈنگ سے رت جگوں کی ماری قوم کے پیسوں سے ایوانوں میں سجے مخملی بستر دستیاب ہو گا۔ رہی عوام تو اس کے لیے ایک جملہ ہے ناں کہ ہمیں نہیں پتا تھا خرابی اتنی زیادہ ہے۔

کس قدر عوامی بے وقعتی کا عالم ہے کہ پچھلے دو ہفتوں سے 12 کروڑ آبادی کے صوبہ پنجاب کا کوئی والی وارث نہیں۔ جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا ایک پنجابی کیا پاکستانی ہونے کے ناتے شرمناک ہے جب ایک دوسرے پر لوٹے برسائے جا رہے تھے۔ سپیکر ڈپٹی سپیکر کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور تو اور خواتین نمائندگان اپنے دوپٹوں میں کچھ بھر کر ان سے پولیس والوں پر تشدد کر رہی تھیں۔ یہ سب کچھ انتہائی قابل مذمت تھا۔

پی ڈی ایم جس سے میرے اساتذہ کرام ماضی کے تجربات کی بنیاد اور ایک سیاسی ارتقاء سے گزرنے کے بعد ایک بہتر سیاسی رویے کا حسن ظن قائم کیے ہوئے تھے۔ اب وہ حسن ظن آپسی اختلافات کی خبروں کی زد میں ہے۔ مولانا فضل الرحمن صاحب فوری الیکشن کا مطالبہ کر چکے تو وزیر خارجہ کے لئے نامزد بلاول بھٹو زرداری صاحب حلف لیے بنا میاں صاحب سے ملاقات کرنے لندن روانہ ہیں۔

عمران خان صاحب کراچی جلسے میں اپنی جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیے جانے کے خدشے کا اظہار کر چکے جسے موجودہ وزیر داخلہ انہی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے ”انتقام نہیں لیکن انصاف ضرور ہو گا“ کہہ چکے جن مونچھوں سے پکڑ کر خان صاحب نے انہیں جیل میں ڈالنا تھا اور جعلی ہیروئن کے کیس میں ڈالا بھی۔ نظر آ رہا ہے کہ پاکستانی سیاست پھر 90 کی دہائی کی طرف معکوس ترقی کے سفر کا آغاز کر چکی۔ یہی ڈر تھا۔

صدر وزیراعظم کے درمیان خلش، گورنر وزیراعلی کے درمیان دراڑ، سابقہ حکومت کا عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے ٹکراؤ، عوام کا ایک جم غفیر سڑکوں پر اور خان صاحب کی احتجاجی سیاست کا دوبارہ آغاز یہی ان تمام خدشات کا عملی طور پر سچ ثابت ہونا ہے جن کا اظہار میرے جیسے لوگ خان حکومت کو 5 سال پورا نہ کرنے دینے کی صورت میں کر رہے تھے۔ افسوس

تعصب ایک ایسی عینک ہے جسے آنکھوں پر لگا کر دیکھا جائے تو منظر نامہ اسی رنگ میں ڈھل جاتا ہے جس رنگ کے عینک کے شیشے ہوں۔ اس وقت مگر عصبیت سے معاملات کو دیکھنا (خدانخواستہ) کسی بڑی تباہی کی طرف ملک و قوم کو دھکیل سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ در حقیقت ”نیوٹرل“ ہو کر مستقبل کی پیش بینی کی جائے۔

میں نے عمران خان صاحب کے قول پر پی ٹی آئی کے ایک دل و جان سے فریفتہ کارکن سے ان کے فعل کے تضاد پر ایک ناقد کا سفر طے کیا ہے۔ لیکن خدا کا ہدایت والا کلام کہتا ہے کسی کی دشمنی یا دوستی انصاف کے راستے میں حائل نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے دو ہفتوں میں عوامی ردعمل کے جو مناظر پاک سر زمین نے دیکھے ہیں ان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ خان صاحب کی آواز پر پاکستان ہی نہیں دنیا بھر سے لوگ نکلے ہیں۔ ان لوگوں کے جذبوں کا مذاق اڑانے کی بجائے جمہوریت کی روح کے مطابق احترام کرنا چاہیے۔ خصوصاً نون لیگ پی ٹی آئی کے ابھرنے کے دوران انہیں ممی ڈیڈی اور برگر بچے کہنے کا انجام دیکھ چکی ہے۔ لیکن طے شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف کے لوگوں کو بھی اسی اصول کے تحت دوسروں کو عزت دینا ہو گی۔

خان صاحب کا امریکی سازش کا بیانیہ فواد چوہدری صاحب کے اسٹیبلشمنٹ ناراضگی بیان اور وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آتے تضاد ات کے نیچے دب جائے گا۔ کیوں نہ اسے ایک بڑے مقصد کے تحت خیر باد کہا جائے کہ بیرونی سازش کے نتیجے میں غدار حکومت بیانیے کے ساتھ وہ آپ کو الیکشن میں نہیں جانیں دیں گے۔ اور اسے کاؤنٹر کرنے کے لیے آپ کے خلاف فارن فنڈنگ غداری اور پابندی کی کوشش کریں گے تو اس غداری غداری کھیل کے نتیجے میں پہلے ہی ہم آدھا وطن گنوا چکے جو آج اپنی آزادی کی پچاسویں سالگرہ بطور خاص ہم سے بہتر معاشی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہوئے مناتا ہے۔

ہمارا ملک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنا ہو گا ایک اجتماعی مقصد کے حصول کے لیے۔ ایک نئی صبح کا آغاز کرتے ہوئے ایک نئے سفر پر گامزن ہونا ہو گا۔ ماضی کو صرف اس حد تک یاد رکھنا ہو گا کہ اس نے ہمیں اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لیے حال میں ایک سبق عطا کیا۔

ذرا تصور کیجیے کہ اس این آر او کے بعد اگلے الیکشن میں ہونے والے سیاسی جلسوں میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ہیجان زدہ تقریریں کرنے چور ڈاکو کے نعرے لگانے مرنے مارنے کی دھمکیاں دینے اور ذاتی حملوں کی بجائے یہ بتایا جا رہا ہو کہ توانائی بحران، غذائی بحران، صاف پانی کا بحران، روزگار کا بحران، خارجہ تعلقات، خسارے کے بھیر بجٹ، چائلڈ لیبر کا خاتمہ، مفت تعلیم و علاج، داخلی امن و امان کے مسائل، بلوچستان اور فاٹا ایریا کے مسائل، کراچی کے مسائل، لا اینڈ آڈر، دہشتگردی کا خاتمہ، فرقہ واریت کا خاتمہ، دھرنا سیاست کا اختتام، زرعی و معاشی اصلاحات، چائلڈ ایبیوز کی روک تھام، عورتوں کے حقوق، فوری انصاف کی فراہمی کے لیے عدالتی اصلاحات، پارلیمان کو موثر بنانا، اسمبلی کی مدت چار سال، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ، کیسے اور کتنی دیر میں ہوگی۔ کون کرے گا۔ کون سے ایکسپرٹس کی ٹیم ہے۔ ان کی مہارتیں کیا ہیں۔ نہ کر سکنے کی صورت میں کیا لائحہ عمل ہے وغیرہ وغیرہ۔

اگر این آر او ( National Reconciliation Ordinance) نام بدنام اور نا پسندیدہ ہے تو اسے کوئی اور پسند کا نام دے دیا جائے لیکن طے شدہ بات ہے کہ ہمیں آغاز نو کی اشد ترین ضرورت ہے ایک کے بعد دوسرا دیوار سے لگانے کا شکوہ کرتا رہے گا لیکن کب تک؟ کہیں دیوار خود ہی نہ گر جائے۔ اور دیوار گر جائے تو جناب فراز یاد آتے ہیں جو اب جنتیوں کو کلام سناتے ہوں گے کہ۔

دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے گھر میں رستے بنا لیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments