توشہ خانہ یا تشہ خانہ


اس سے پہلے کہ میں اس موضوع پر کچھ لکھنے کے لئے آگے بڑھوں، پہلے پہل اس توشہ خانہ اور تشہ خانہ کے درمیان فرق کو واضح کرتا چلوں۔ دراصل توشہ پشتو یا فارسی میں تحفہ، ہدیہ یا بخشش کو کہتے ہیں (اردو لغت میں توشہ: عموماً وہ کھانا جو مسافر کے ساتھ ہو۔ ذخیرہ، ساز و سامان، مجازاً سہارا۔ زاد راہ اور راستے کا خرچ، سفر خرچ)۔ توشہ پشتو میں بھلائی، کام آنے یا ساتھ دینے کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہ اگر کوئی کسی کے کام کا نہ ہو یا کسی کے کام نہ آتا ہو یا کسی سے کوئی خیر کی توقع نہ ہو تو پشتو میں ایسے بندے کے لئے بولتے ہیں ”دے د چا د شے توشے نہ دے۔ “ یعنی فلاں شخص یا آدمی کسی کے بھلے کا نہیں۔ اور جو کسی کے کام آتا ہو تو ایسے شخص کے لئے کہا جاتا ہے کہ ”دا د شے توشے سڑے دے“ ۔ اب جب توشہ تحفہ ہوا اور کام آنے والی چیز ہو گئی تو ایسی چیز کو تو سنبھال کر بھی رکھنا ہو گا تو ایسی جگہ جہاں یہ اچھی بھلی شے، تحفہ، ہدیہ یا بخشی ہوئی چیز بحفاظت رکھی جاتی ہے کو توشہ خانہ کہا جاتا ہے۔ ویسے بھی عام زندگی میں کسی کے ہاتھ کی نشانی یا تحفہ کوئی بیچتا نہیں بلکہ یادگار کے طور پر سنبھال کر رکھا جاتا ہے۔

اور اگر یہ توشہ یا تحفہ پھر کسی ملک یا کسی ملک کے سربراہ کی طرف سے ہو تو ایسے تحفے یا توشے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں وہ صرف قیمت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی اہمیت، قدر اور وزن اس ملک یا ملک کے سربراہ یا پھر اس ملک کی اپنی شناخت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اب آتے ہیں تشہ خانہ کی جانب۔ تشہ پشتو میں خالی کو بولتے ہیں اور خانہ گھر کو کہتے ہیں تو تو تشہ خانہ کا مطلب ہوا خالی خانہ یا خالی گھر۔ اب توشہ خانے میں جو توشہ ہے اگر اس کو کسی کو دے دیا جائے یا بیچ دیا جائے تو خانہ میں اندر کچھ نہیں بچتا اور اس اندر کچھ نہیں بچنے کی حالت کو پشتو میں تش یا تشہ بولتے ہیں اور جب یہ حالت توشہ خانہ سے متعلق ہو تو اسے توشہ خانہ نہیں بلکہ تشہ خانہ یعنی خالی گھر یا خالی خانہ کہا جائے گا۔

اور یہ بھی اتفاق ہے کہ جب بھی کوئی حکومت بدلتی ہے تو وہ جو سب سے پہلے رونے دھونے کا ورد کرتی ہے تو وہ خزانہ خالی کا کرتی ہے اور جس حکومت کو خزانہ خالی ملتا ہو تو توشہ خانہ کہاں سے بھرا ملے گا۔ اور عمران خان توشہ خانہ ریفرنس کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ تحفے عمران خان کی ذاتی ملکیت نہیں یہ ریاست کی جاگیر ہے۔ یہ واپس کیا جائے اور گزشتہ بیس سالوں کا توشہ خانے کا ریکارڈ بھی پیش کیا جائے۔

بالکل درست کہا ہے جج صاحب نے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اگر ایسے ریمارکس نیب اور دیگر کرپشن کے کیسسز میں بھی آئے تو کیا مزہ آئے گا کیونکہ کرپشن میں بھی ملکی خزانے کو لوٹنا کسی کی ذاتی ملکیت کے فارمولے پر پورا اترتا ہے یہ لوٹا ہو مال بھی ریاست کی جاگیر ہوتی ہے اسے واپس کرنا چاہیے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کیس ثابت ہی نہیں ہوتے، ریاست کے لوٹے ہوئے پیسوں پر حکومت کے اہلکار پلی بارگین کر جاتے ہیں اور ملزمان کو کچھ پرسنٹ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور جب یہ قانون پاس ہو رہا تھا تو ایسی سوچ کہاں مفقود تھی کہ اس کا راستہ روکتے۔ جس کی زندہ مثال ایڈمرل منصور الحق تھے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ توشہ خانہ کے تحائف بیچے گئے اس سے پہلے بھی سابقہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، نواز شریف، آصف علی زرداری، وغیرہ پر یہ الزامات عائد ہو چکے ہیں۔

بات یہ ہے کہ جو خزانہ خالی کرانے پر تلے ہوئے ہوں ان سے توشہ خانہ کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ جہاں بیرونی قرضہ میں کک بیکس اور پرسنٹیج لیا جاتا ہو وہاں پر توشہ خانہ بچانا چہ معنی دارد جہاں نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے لوگ لے جانے اور بٹورنے کے عادی ہوں وہاں توشہ خانہ کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ جہاں مسجد سے لوگ چپل چرا کے کے لے جاتے ہوں، جہاں پانی کا ایک سستا گلاس لوگ نہیں چھوڑتے اور اس کو لے جانے کے خوف سے پابہ زنجیر کیا گیا ہو۔

جہاں بینکس وغیرہ میں دس روپے کی بال پوائنٹ کو لے جانے کی خوف سے باندھا گیا ہو۔ جہاں پلاسٹک کی کرسیاں لے جانے کی خوف سے زنجیر سے باندھی گئی ہو۔ جہاں گاڑیوں کے سائیڈ گلاسز، بیٹریاں۔ ٹائرز، ٹیپس اور گاڑیوں کے اپر یا کور غیر محفوظ ہوں۔ جہاں سڑکوں کے گٹر کے ڈھکنے آئے دن غائب ہوں وہاں توشہ خانے کی سلامتی کے تصور پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جمہوریت ہے اور جمہوریت میں فیصلے عوامی ہوتے ہیں جس کا بس چپل چرانے کا چلتا ہے وہ چپل لے جاتے ہیں، جس کا گلاس پر اکتفا ہوتا ہے وہ گلاس اٹھا لیتے ہیں، جو کرسیاں، گاڑیوں کے شیشے، ٹائرز، کورز اور بیٹریاں لے جانے پر قادر ہوں وہ یہ سب چیزیں لے جاتے ہیں۔

جمہوریت میں ہر چیز گراس روٹس لیول سے آغاز کرتا ہے جیسے عوام ویسے حکمران بس ان کو ان سے بڑی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع ملتا ہے وہ اس پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ جج صاحب نے درست ریمارکس دیے ہیں کہ یہ ریاستی مال ہے یہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں اور ہمارے ملک میں کوئی بھی چیز کسی کی ملکیت نہیں ہوتی جو جس کو جس وقت چاہیے یا درکار ہو وہ موقع دیکھتے ہی اس چیز کو توشہ خانے کی مال کی طرح مال غنیمت سمجھ کر اچک کر لے جاتے ہیں بس موقع ملنے کی دیر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments