لاہور کا جلسہ کتنا بڑا تھا؟


آج وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ سفیر اسد مجید امریکی اہلکار ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات اور اس بارے میں لکھے گئے مراسلہ پر اپنا موقف پیش کرنے کے لئے کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں واشنگٹن میں سابق پاکستانی سفیر کا موقف سنا گیا اور مراسلے کا جائزہ بھی لیا گیا۔ قومی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ایک بار پھر قومی سلامتی کمیٹی کو آگاہ کیا کہ حکومت گرانے کی کسی سازش کا انکشاف نہیں ہوا۔

این ایس سی کے پریس ریلیز میں واضح کیا گیا ہے کہ سابق حکومت کے خلاف کسی غیر ملکی سازش کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں بھی ایسے ہی اجلاس میں اس مراسلہ کے مندرجات پر غور کیا گیا تھا۔ اس وقت بھی مسلح افواج کی نمائندگی انہیں لوگوں نے کی تھی جو اس وقت بھی فوج، فضائیہ اور بحریہ کی سربراہی کر رہے ہیں۔ آئی ایس آئی بدستور لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی سربراہی میں کام کر رہی ہے اور وہ بھی اسی حیثیت میں آج کے اجلاس میں شریک تھے۔ تاہم آج قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت نئی اتحادی حکومت کے سربراہ وزیر اعظم شہباز شریف نے کی اور مختلف مناصب پر فائز نئے سیاسی عہدیدار اس میں شریک تھے۔ اسی طرح سابقہ اجلاس کے برعکس آج سفیر اسد مجید بھی اجلاس میں موجود تھے۔ اس لئے ان کے بھیجے گئے سفارتی مراسلہ کے بارے میں جو ابہام موجود تھا، وہ بھی دور ہو گیا ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے گزشتہ ہفتہ کے دوران ایک پریس کانفرنس میں نشاندہی کی تھی کہ این ایس سی کے بیان میں کسی سازش کا ذکر نہیں تھا۔ البتہ آج قومی سلامتی کمیٹی نے خود واضح کر دیا ہے کہ اگرچہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر رائے زنی کرنے پر امریکہ سے احتجاج کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن کسی قسم کی سازش کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ میجر جنرل بابر افتخار کے بیان کے بعد تحریک انصاف کے نمائندے سازش اور مداخلت کو ہم معنی بتاتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے رہے تھے کہ درحقیقت کسی ملک کے معاملات میں مداخلت ہی سازش ہوتی ہے۔ عمران خان نے کراچی میں جلسہ کے دوران حاضرین سے ہاتھ کھڑا کر کے اس بارے میں رائے دینے کی درخواست بھی کی تھی۔

گزشتہ رات عمران خان نے لاہور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف ہونے والی سازش اور موجودہ حکومت کے قائدین کو ملک دشمن قرار دیتے ہوئے قوم کو آزادی دلانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کے علاوہ باقی پارٹیوں سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں سے بھی اپیل کی کہ وہ ان کی کال کا انتظار کریں۔ ’میں بہت جلد آپ کو اسلام آباد آنے کے لئے کہوں گا تاکہ موجودہ مسلط شدہ حکومت سے نجات چھڑانے اور نئے انتخابات کروانے کے لئے دباؤ بڑھایا جائے‘ ۔ عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان کی آزادی کی جنگ نئے انتخابات تک جاری رہے گی۔ کیوں کہ ان کے خیال میں جس نے بھی غلطی کی ہے، اس کا ایک ہی علاج ہے کہ نئے انتخابات منعقد کیے جائیں۔

عمران خان کی باتیں ’عوام‘ کے دلوں میں ضرور گھر کرتی ہیں لیکن ان سے کوئی واضح مطلب اخذ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اب اگر اسی بات کو لے لیا جائے کہ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اس لئے نکالا گیا ہے کیوں کہ مخالف سیاسی لیڈر امریکی سازش کا حصہ بن گئے تھے اور اس کے فراہم کردہ وسائل سے ان کے خلاف ارکان کو خرید کر حکومت کو فارغ کر دیا گیا۔ اس موقف کی بنیاد وہ اسی خط پر رکھتے ہیں جو سفیر اسد مجید نے لکھا تھا اور جن کی باتیں سن کر، خط کا جائزہ لے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی رائے پر غور کرنے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ کسی حکومت کے خلاف کوئی سازش نہیں ہوئی۔ اگر ’عوام‘ ملکی سلامتی کی نگرانی کرنے والے اس سب سے بڑے ملکی فورم کی بات کا اعتبار کر لیں گے تو عمران خان کے بیان کردہ سازشی غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ لیکن کیا تحریک انصاف کے حامیوں میں اتنی اخلاقی جرات اور حالات کو پرکھنے کی ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ حقائق کو جذبات اور نعروں سے علیحدہ کر کے پرکھ سکیں؟

بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا، اسی لئے عمران خان ’آزادی مارچ‘ جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں۔ لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ پاکستان کو کس سے آزادی دلوانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ آزادی امریکہ سے دلوانی ہے تو پھر تو جلسوں میں نعرے لگانے کی بجائے کسی قابل اعتبار فورم پر ٹھوس شواہد کے ساتھ یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ واقعی امریکہ یا بعض دوسرے ملک عمران خان کی پالیسیوں سے اپنے ’قومی مفادات‘ کو اس قدر خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ انہیں ایک منتخب پاکستانی حکومت کے خلاف ’سازش‘ کرنا پڑی۔ اور اس میں پاکستان کی چھوٹی بڑی تمام سیاسی پارٹیوں کو شامل کر لیا گیا۔ ایک منتخب حکومت کے خلاف ایسی بڑی سازش تیار کی گئی بلکہ اس پر عمل درآمد بھی ہو گیا لیکن ملک کی سپریم کورٹ سے لے کر قومی سلامتی کمیٹی یا دوسرے لفظوں میں اعلیٰ عسکری قیادت کو اس کی بھنک بھی نہیں پڑی اور نہ ہی وہ عمران خان کے شور مچانے کے باوجود اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ کسی سازش کا کوئی سراغ کسی مراسلہ سے ملا ہے۔ اب یا تو عمران خان اپنا بیان واپس لے لیں یا یہ تسلیم کریں کہ ان کے سوا اس ملک میں سب ادارے اور عہدیدار دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں اور امریکہ کے خوف میں بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں۔

عمران خان اینڈ کمپنی کا دعویٰ رہا ہے کہ 3 اپریل کو قاسم سوری نے ڈپٹی اسپیکر کے طور پر ’غیر ملکی سازش‘ کا انکشاف ہونے پر ہی تحریک عدم اعتماد مسترد کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا حکم دیا تھا۔ عمران خان نے تحریک انصاف کے چئیر مین اور وزیر اعظم کے طور پر اس حکم پر عمل درآمد روکنے کی پوری کوشش کی۔ 9 اپریل کو قومی اسمبلی کا اجلاس سارا دن جاری رہا لیکن اسپیکر، قومی اسمبلی کے ایجنڈے پر عمل کرنے کی بجائے، عمران خان کے پاس حاضری لگوانے وزیر اعظم ہاؤس پہنچے ہوئے تھے۔ البتہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس معاملہ کا نوٹس لینے کے حالات دیکھتے ہوئے اسد قیصر نے رات پونے بارہ بجے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر ایاز صادق کو عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانے کا حق تفویض کیا۔ اب عمران خان جلسوں میں یہ سوال کرتے ہیں کہ میں نے کیا جرم کیا تھا کہ عدالتیں رات کو کھول لی گئیں۔ لاہور کے جلسہ میں انہوں نے اسد قیصر اور قاسم سوری کو قوم کے ہیرو بنا کر پیش کیا۔ گویا عمران خان کی وفاداری میں اپنے عہدے کے حلف اور ملکی آئین کے تقاضوں سے انحراف کرنے والے لوگ اب اس ملک کے ہیرو کہلائیں گے۔

عمران خان کے پاس اس مسئلہ کا ایک ہی حل ہے کہ نئے انتخابات منعقد کروائے جائیں۔ ان کے بقول اس طرح غلطی کسی کی بھی ہو ملکی معاملات اپنی ڈگر پر واپس آسکتے ہیں۔ گویا وہ اپنی آئین شکنی کو ایسی معمولی غلطی سمجھتے ہیں کہ اب انتخابات سے اس ’داغ‘ کو دھویا جاسکتا ہے لیکن اس کا بار وہ دوسروں کے سر ڈالنا چاہتے ہیں۔ لیکن عمران خان کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ نئے انتخابات بھی اسی وقت ’قوم کی آزادی‘ کا پیام لا سکتے ہیں اگر ان میں عمران خان کی پارٹی کو اکثریت مل جاتی ہے اور وہ دوبارہ ملک کے وزیر اعظم بن جاتے ہیں۔ اگر ان کی مخالف پارٹیاں انتخاب جیت گئیں تو ملکی آزادی کا ’مقصد‘ پورا نہیں ہو سکے گا۔ ملکی آزادی اس بات سے مشروط کر دی گئی ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ سیاسی لحاظ سے اس سے پست دعوے کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔

ایک جمہوری نظام میں کوئی بھی سیاسی پارٹی اور اس کا لیڈر اپنے منشور پر عمل کے لئے عوامی رابطہ مہم چلاتا ہے اور لوگوں کو بتاتا ہے کہ اس کے پروگرام میں وہ کون سی خوبیاں ہیں جن کی بنیاد پر عوام اسے ووٹ دیں تاکہ وہ اکثریت حاصل کر کے ان پر عمل کرے اور ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے کا کام کرسکے۔ اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مدمقابل کس پارٹی اور لیڈر کی باتوں یا سیاسی پروگرام کو درست تسلیم کر کے منتخب کرتے ہیں۔ تاہم اسی عمل میں اگر اپنے منشور اور نظریہ کی بات کرنے کی بجائے مخالفین کی کردار کشی کو شعار بنا لیا جائے اور یہ دعویٰ کیا جائے کہ اپنے منہ میاں مٹھو کے مصداق چونکہ اس ملک میں ’میں ہی واحد ایماندار اور سچا ہوں، باقی سب چور اچکے، ملک دشمن اور لٹیرے ہیں‘ تو اسے سیاسی گراوٹ کے سوا کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔ البتہ اگر عمران خان کی طرح کوئی لیڈر یہ دعویٰ کرنے لگے کہ تمام قومی ادارے اور اہلکار غلط ہیں، بس اس کی کہی ہوئی بات درست ہے کیوں کہ وہی امریکہ کو سب سے زیادہ جانتا ہے۔ یوں قومی آزادی و خود مختاری کو ایک شخص کی سیاسی کامیابی و ناکامی سے مشروط کر دیا جائے تو یہ سیاسی مہم جوئی کا پست ترین درجہ کہا جائے گا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے قول و فعل کے آئینے میں خود ہی اپنی صورت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

اس پس منظر میں لاہور کے گزشتہ رات والے تحریک انصاف کے جلسے کے بارے میں یہ بحث کی جا رہی ہے کہ اس میں شریک لوگوں کی تعداد کیا تھی۔ تحریک انصاف کی آنکھوں سے دیکھا جائے تو سارا پاکستان جلسہ گاہ میں امڈ آیا تھا لیکن مخالفین کو یہ تعداد ہزاروں یا زیادہ سے زیادہ ایک دو لاکھ تک دکھائی دیتی ہے۔ لیکن جب سچ اور جھوٹ کا معیار نعرے اور ذاتی اقتدار کو بنا لیا جائے گا اور پاکستان ہر اس مرحلے پر ’غلام مملکت‘ دکھائی دینے لگے گا جب کوئی ایک خاص لیڈر سیاسی طور سے کامیاب نہ ہو پائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ جلسے میں کتنے لوگ تھے۔

عمران خان نے جلسہ گاہ میں لوگوں کی تعداد دیکھ کر سازشی نظریہ کا پرچار شروع نہیں کیا۔ انہوں نے عوامی جذبات سے کھیلنے کے لئے ایک نعرہ ایجاد کیا ہے اور اب وہ اس ہتھیار سے صرف سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ قومی اداروں اور ملکی وقار کو نشانہ بنانے کی مہم پر روانہ ہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2764 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments