گندم کے خوشوں میں بسے خواب


جب تھریشر لگتی، کنک نکلتی تو کسانوں کے من نیم کی شاخوں پہ لگے بور کی طرح کھل جاتے۔ ہم بچوں کے گندمی رنگ بھی وساکھ کی دھوپ کی مانند چمک اٹھتے۔

کھوہ پہ جائیں گے۔ بھینسوں کے باڑے کے عقب والی بیر کے رتے لال بیر وٹے مار مار اتاریں گے یا جھانبڑ سے گرائیں گے اور جیب میں بھر کر ایک ایک مزے سے کھائیں گے۔ تھریشر سے اڑتی توڑی کے بگولوں میں سے بھاگ کر گزریں گے اور پھر ایک دوسرے کے بالوں، بھنووں، پلکوں اور چہرے پہ جمی باریک توڑی دیکھ دیکھ ہنسیں گے۔

ٹیوب ویل کے تالاب میں کھڑے پانی میں ڈبکیاں لگائیں گے اور کھڑے پانی میں اپنا عکس دیکھ کر بال سنواریں گے۔ ونگار والوں کے ساتھ مل کر زمیں پہ بچھے تان پر بیٹھ کر تنور کی روٹی، آلو گوشت اور سوجی کا حلوہ کھائیں گے۔ چاٹی کی کھٹی لسی پئیں گے۔ بھینسوں کی اکھرانی میں بیٹھ کر پل بھر میں اپنی الگ دنیا بسائیں گے۔ کسان بن بیٹھیں گے، کھیتی کریں گے، آبیاری کریں گے اور پکی فصل کاٹ لیں گے۔ پھیری والوں سے رینڈیاں، لچھے اور شکر قندی لے کر کھائیں گے۔

اور دانے گھر آئیں گے تو جھولی بھر مل جائیں گے۔ ایک دو جھولیاں کھسکا لیں گے اور حاجی کی دکان پر بیچ کر ٹافیاں، ٹانگر اور متیرے کھائیں گے۔

ایک اور بھی مزے کا کام تھا۔ چاچا بشیر کمہار جب ڈھیری اٹھانے کھوہ پر اپنے کھوتے لے جاتا تو ہم بھی کسی کھوتے پہ سوار ہو جاتے۔ ہم کہتے چاچا کسی اصیل گدھے پہ بٹھانا جو دولتی نا مارتا ہو، اچھلتا کودتا نا ہو اور وہ جو بچوں کو جھرجھری لے کر گراتا نا ہو۔

چاچا بشیر بھی اس دن خوش ہوتا تھا۔ سال بھر چکی سے آٹا پسوانے، گھروں کی لپائی کے لیے مٹی لانے، مٹی کے برتن دینے اور ڈھیری اٹھانے کی سیپی ملنے کا دن ہوتا تھا وہ۔ ہم بچوں کی یہ بات بھی خوشی خوشی مان لیتا تھا۔

کھیتوں سے، قطار میں رکھے گندم کے گٹھوں کے درمیان میں سے، ٹاہلی کیکر کے پیڑوں کے نیچے سے، جنگلی بوٹیوں پہ منڈلاتی رنگ برنگی تتلیوں کے پاس سے، بڑے شریہنہ کی جھکی شاخوں کو چھو کر، بھیڑ بکریوں کے چرتے ریوڑ کو دیکھتے، پگڈنڈیوں پہ ٹیوب ویل جانے کا وہ مزہ کیسا تھا، ہم کتنے خوش ہوتے تھے، یہ کیسے بتائیں۔

دور سے تھریشر سے اڑتی گرد کے بادل دکھائے دیتے تو دل میں خوشی کی چھم چھم پھوار سی ہونے لگتی۔

تیز ہوائیں سنسنا رہی ہوتیں۔ واورولے چلتے تو گندم کی بندھی بھریوں کو جھنجھوڑ جاتے۔ کئی گٹھوں کو اتھل پتھل کر جاتے۔ جو گندم بندھی نا ہوتی اس کے چھوٹے چھوٹے مٹھے کئی کئی میٹر فضا میں اٹھا لے جاتے اور پھر تنکا تنکا بکھیرتے دور نکل جاتے۔ واورولوں کو گندم سے کیا بیر تھا یہ تو رب ہی جانے۔

واورولے بھی سال بھر نا جانے کس گاؤں رہتے تھے۔ بس کنک کے موسم میں ہمارے گاؤں میں آتے تھے۔ کوئی کہتا اس میں بھوت ہوتے ہیں جو گھومتے جاتے ہیں۔ کوئی کہتا اس میں جوتا پھینکو تو پیسوں کا بھر کر نیچے گرے گا۔ بس الٹا نا گرے، الٹا گرا تو گندگی سے بھرا ہو گا۔

کئی بار جوتے پھینک کر ہم مایوس ہو جاتے کہ یہ بس کسی بچے نے بے پر کی اڑائی ہے۔ پیسے دینے والا واورولا ہمارے گاؤں نہیں آیا کبھی۔ یا پھر اس کے بھوتوں کی جیبیں ہی خالی ہوتی تھیں۔ بہت دور دوسرے کسی گاؤں میں شاید واورولوں کے بھوت بچوں کے جوتوں میں پیسے بھرتے ہوں گے۔ ہمارے گاؤں تو بس گندم تنکا تنکا کرتے اور دھول اڑاتے تھے۔

چاچا بشیر کمہار اور چاچا نجا تڑکڑی پہ دانے تول تول کر بوروں میں ڈالتے جاتے۔ ڈھائی ڈھائی من کے بورے بھرتے جاتے۔ گنتی بڑی مزے کی کرتے تھے۔

برکت آ جی۔ برکت آ جی۔ وادھے آ جی۔ وادھے آ جی۔ تن آ جی۔ تن آ جی۔

جب سب بورے بھر جاتے تو پھر پگڑی میں ٹنگا سوآ نکال کر بوروں کو سی دیتے۔ گدھوں پہ لاد کر واپس گاؤں کا رخ کرتے۔

دانے گھر کے صحن میں انڈیل دیے جاتے۔ پھر تھال، پراتیں، بٹھل لے کر ہم سب بھڑولی میں بھرتے۔ کچھ گٹوں میں ڈال کر رکھتے۔ باقی بیچ دیتے۔ کافی سارے لوگ کنڈے وٹے، گٹے لے کر آتے۔ تول لگتا اور بوریوں میں بھر بھر لائن میں رکھتے۔ پھر سوئے سے سیتے جاتے۔ لائن میں رکھی بوریوں پہ کھیلنے کا بھی اپنا الگ سواد تھا۔

پھر وہ لوگ کمر پر لاد کر ٹرالے میں بھر لیتے۔

پیسے دے جاتے۔ ان پیسوں سے ہم گاؤں والوں کے خواب اور سدھریں جڑی ہوتیں۔ ہماری زندگی کا ساماں ہوتا۔ ان سے گرمیوں کے کپڑے اور جوتے خریدے جاتے۔ بچوں کی ایک سکول کی وردی بختیار ٹیلر ماسٹر سے سلوائی جاتی۔ گھر کا سودا سلف آتا۔ زندگی دھیرے دھیرے رواں رہتی۔

گندم کے خوشوں میں دانے نہیں، ہمارے خواب بھی بستے ہیں۔ گندمی رنگ کے لوگوں کے سنہری سٹوں میں بھرے ننھے ننھے سپنے۔

دھرتی کی خیر ہو۔ گندم آباد رہے۔ خواب اگتے رہیں۔ خوشوں میں بھرے ننھے سپنوں میں سورج کی کرنیں یوں ہی بسیرا کرتی رہیں۔

 

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 77 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments