حضرت علی (رض) کا گورنر مصر کو خط: افواج، عدلیہ اور حکومتی اہلکاروں کی اہلیت (حصہ دوئم)


 

حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے گورنر مصر مالک بن حارث الاشتر کو لکھے گئے تفصیلی خط کا دوسرا حصہ پیش خدمت ہے جس میں آپ (رض) ایک بہترین ماہر عمرانیات کے طور پہ معاشرے کا تجزیہ کرتے نظر آتے ہیں جس میں وہ عوام کے طبقات ان کی اہمیت اور ان کے فنکشنز کے ساتھ ساتھ حکومت کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کے بارے تفصیلی ہدایات دیتے ہیں۔ خاص حصہ وہ توجہ لائق ہے جس میں حکومت کے ہر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں کی اہلیت کی شرائط اور ان کے پیچھے چھپے دلائل ہیں۔ آپ نے فرمایا:

عوام کے طبقات :حضرت علیؓ نے فرمایا، رعایا میں کئی طبقے ہوتے ہیں، یہ طبقے ایک دوسرے سے وابستہ رہتے ہیں اور آپس میں کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے، چنانچہ ایک طبقہ وہ ہے، جسے خدا کی فوج کہنا چاہیے۔ دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو عوام و خواص کا تحریری کام کرتے ہیں۔ پھر انصاف کرنے والے قاضی ہیں۔ امن و انتظام کے عمال ہیں۔ ذمی اور مسلم اہل جزیہ و اہل خراج ہیں۔ پھر سوداگر اور اہل حرفہ ہیں۔ غریبوں اور مسکینوں کا نچلا طبقہ بھی ہے۔

خدا نے حق میں ہر طبقے کا حصہ مقرر کر کے اپنی کتاب میں یا اپنے نبی کی سنت میں اسے ضروری ٹھہرا دیا ہے اور اس کی پابندی و بجا آوری ہمارے ذمہ لازمی کردی ہے۔ خدا کی فوج باذن اللہ رعایا کا قیام فوج ہی سے ہے، لیکن فوج کا قیام خراج سے ہے جو خدا اس کے لئے نکالتا ہے۔ خراج ہی سے سپاہی جہاد میں تقویت پاتے اور اپنی حالت درست کرتے ہیں۔ پھر ان دونوں طبقوں فوجیوں اور اہل خراج کی بقا کے لئے تیسرا طبقہ ضروری ہے، یعنی قضاة، عمال، کتاب کا طبقہ کہ یہی لوگ ہر قسم کے عالمی معاملات انجام دیتے ہیں اور ان چاروں طبقوں کی بقاء کے لئے تاجر اور اہل حرفہ ضروری ہیں کہ بازار لگاتے اور سب کی ضرورتیں مہیا کرتے ہیں۔

آخر میں ادنیٰ طبقہ آتا ہے اور اس طبقے کی امداد و اعانت از بس ضروری ہے۔ خدا کے یہاں سب کی گنجائش ہے اور حاکم پر سب کا حق قائم ہے۔ حاکم جتنی بھی بھلائی کر سکتا ہے، کرتا رہے، مگر اس بارے میں اپنے فرض سے وہ عہدہ برا ہو نہیں سکتا، جب تک توفیق الٰہی کی دعا کے ساتھ حق ہی پر ثابت قدم رہے گا، چاہے حق آسان ہویا مشکل۔

فوج: اپنی فوج کے معاملے میں ہوشیاری سے کام لینا، انہی لوگوں کو افسر بنانا جو تمہارے خیال میں اللہ کے رسول کے اور تمہارے امام کے سب سے زیادہ خیرخواہ ہوں۔ صاف دل ہوں، ہوشمند ہوں، جلد غصے میں نہ آ جاتے ہوں، عذر و معذرت قبول کرلیتے ہوں، کمزوروں پر ترس کھاتے ہوں، زبردستوں پر سخت ہوں، نہ سختی انہیں جوش میں لاتی ہو، نہ کمزوری انہیں بٹھا دیتی ہو۔

فوج کے لئے انہی کو منتخب کرنا جن کا حسب نسب اور خاندان اچھا ہے، جن کا ماضی بے داغ ہے جو ہمت و شجاعت، جود و سخا سے آراستہ ہیں۔ شرافت اور نیکی ایسے لوگوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ ان فوجیوں کے معاملات کی ویسی ہی فکر کرنا، جیسی فکر والدین کو اولاد کی ہوتی ہے۔ ان کی تقویت اور درستی حال کے لئے جو بھی بن پڑے، کرتے رہنا اور جو کچھ کرنا، اسے بہت نہ سمجھنا۔ اپنے کم سے کم لطف و احسان کو بھی معمولی نہ سمجھنا، کیونکہ اس سے ان کی خیر خواہی بڑھے گی اور حسن ظن میں اضافہ ہو گا۔

ان کی ادنیٰ سے ادنیٰ ضرورتوں سے بھی بے پروائی اس بھروسے پر نہ کرنا کہ بڑی ضرورتوں کا خیال کر رہے ہو، کیونکہ تمہاری معمولی رعایت بھی ان کے لئے نعمت ہوگی اور بڑی ضرورتوں میں تو وہ سراسر تمہارے لطف وکرم کے ہمیشہ محتاج ہی رہیں گے۔ وہی فوجی سردار تمہارے سب سے زیادہ مقرب ہوں جو فوجیوں کی سب سے زیادہ مدد کرتے ہوں۔ اپنے ہاتھ کی دولت سے سپاہیوں کو ان کی ضرورتوں اور بال بچوں کی فکروں سے آزاد کرتے ہوں تاکہ پوری فوج ایک دل ہو جائے اور اس کے سامنے بس ایک ہی خیال رہے۔

دشمن سے جنگ۔ فوج کے سرداروں پر تمہاری توجہ فوج کے دلوں کی تمہاری طرف متوجہ کردے گی۔ حاکم کی آنکھ کی ٹھنڈک کس چیز میں ہونی چاہیے، اس میں کہ خود انصاف قائم کرے اور رعایا اس سے محبت ظاہر کرتی رہے۔ رعایا کی محبت ظاہر نہیں ہوتی، جب تک اس کے دل سلیم نہ ہوں، اس کی حکومت کو بوجھ اور اس کے زوال میں دیر کو وبال نہ سمجھتی ہو۔

ضروری ہے کہ رعایا کی امیدوں کے لئے میدان کشادہ رکھنا، اس کی دل جوئی برابر کرتے رہنا، اس کے بہادروں کا جوش بڑھانا اور پیچھے رہ جانے والوں کی ہمتیں اونچی ہوتی ہیں۔ ہر آدمی کے کارنامے کا اعتراف کرنا، ایک کا کارنامہ دوسری سے منسوب نہ کرنا، انعام دینے میں کبھی کوتاہی نہ کرنا، خاندانی ہونے کی وجہ سے کسی کے معمولی کام کو بڑھا نہ دینا۔ اسی طرح ادنیٰ خاندان ہونے کی وجہ سے کسی کے بڑے کارنامے کی بے قدری نہ کرنے لگنا۔

مشتبہ معاملات پیش آئیں اور تمہاری بصیرت و علم کام نہ دے تو انہیں اللہ کی طرف اور اللہ کے رسول کی طرف لوٹانا، کیونکہ خدا مسلمانوں کی ہدایت کے لئے فرما چکا ہے، وہ جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کر و رسول کی اور اپنے میں سے اہل الحل والعقد کی۔ لیکن اگر تم میں کسی بات پر اختلاف ہو جائے تو اس بات کو اللہ اور رسول کے پاس لوٹاؤ۔ اللہ کی طرف معاملے کا لوٹانا یہ ہے کہ کتاب محکم اور نص صریح کی طرف لوٹایا جائے اور رسول کی طرف لوٹنا یہ ہے کہ جامع سنت نبوی کو لیا جائے، نہ کہ اسے جس میں اختلاف پڑ گیا ہے۔

انتخاب:پھر ملک میں انصاف قائم کرنے کے لئے ایسے لوگوں کا انتخاب کرنا جو تمہاری نظر میں سب سے افضل ہوں۔ ہجوم معاملات سے تنگ دل نہ ہو جاتے ہوں، اپنی غلطی پر اڑے رہنا ہی ٹھیک نہ سمجھتے ہوں اور حق کے ظاہر ہو جانے کے بعد باطل سے چمٹے نہ رہتے ہوں۔ طماع نہ ہوں، اپنے فیصلوں پر غور کرنے کے عادی ہوں، فیصلے کے وقت شکوک و شبہات پر رکنے والے ہوں، صرف دلائل کو اہمیت دیتے ہوں، مدعی اور مدعا علیہ سے بحث میں اکتا نہ جاتے ہوں۔ واقعات کی تہہ تک پہنچنے سے جی نہ چراتے ہوں اور حقیقت کھل جانے پر اپنے فیصلوں میں بے باک اور بے لاگ ہوں۔ یہ ایسے لوگ ہوں، جنہیں نہ تعریف بے خود کرتی ہو، نہ چاپلوسی ہی مائل کر سکتی ہو، مگر ایسے لوگ کم ہوتے ہیں۔

قاضی: تمہارا فرض ہے کہ اپنے قاضیوں کے فیصلوں کی جانچ کرتے رہو۔ کھلے دل سے انہیں معاوضہ دو تا کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں اور کسی کے سامنے انہیں ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اپنے دربار میں انہیں ایسا درجہ دو کہ تمہارے کسی مصاحب اور درباری کو ان پر دباؤ ڈالنے یا انہیں نقصان پہنچانے کی ہمت نہ ہو سکے۔ قاضیوں کو ہر قسم کے خوف سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔ اس بات میں پوری توجہ سے کام لینا، کیونکہ دین اشرار ہاتھ میں پڑ گیا تھا جو اپنی خواہشوں پر چلتے اور دین کے نام پر دنیا کمایا کرتے تھے۔

عمال حکومت:عمال حکومت کے معاملات پر بھی تمہیں نظر رکھنا ہوگی جسے مقرر کرنا امتحاناً مقرر کرنا۔ رو رعایت سے یا صلاح مشورے کے بغیر کسی کو عہدہ نہ دینا، کیونکہ ایسا کرنے سے ظلم و خیانت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اچھے گھرانوں اور سابق میں اسلام کے خدمت گزاروں میں تجربہ کار اور باحیا لوگوں ہی کو منتخب کرنا کہ ان کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں۔ اپنی آبرو کا خیال رکھتے ہیں۔ طمع کی طرف کم جھکتے ہیں اور انجام پر زیادہ نظر رکھتے ہیں۔

عہدیداروں کو بہت اچھی تنخواہیں دینا، اس سے یہ لوگ اپنی حالت درست کرسکیں گے اور اس مال سے بے نیاز رہیں گے جو ان کے ہاتھ میں ہو گا۔ اس پر بھی حکم عدولی کریں یا امانت میں خلل ڈالیں تو تمہارے پاس ان پر حجت ہوگی، مگر ضروری ہے کہ ان کاموں کی جانچ پڑتال کرتے رہنا۔ نیک لوگوں کو مخیر بنا کر ان پر نہ چھوڑ دینا، یہ سب اس لئے کہ جب انہیں معلوم ہو گا کہ خفیہ نگرانی بھی ہو رہی ہے تو امانت داری اور رعایا سے مہربانی میں زیادہ چست ہو جائیں گے۔ پھر اگر ان میں سے کوئی شخص خیانت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور تمہارے جاسوسوں سے تصدیق ہو جائے تو بس یہ شہادت کافی ہے، تم بھی سزا کا ہاتھ بڑھانا۔ جسمانی اذیت کے ساتھ خیانت کی رقم بھی اگلوا لینا۔ خائن کو ذلت کی جگہ کھڑا کرنا اور بری طرح اسے رسوا کر ڈالنا۔

محکمہ خراج: دیکھو محکمہ خراج کی نگرانی میں کوتاہی نہ ہو۔ خراج ٹھیک رہنے ہی میں سب کی بھلائی و خوشحالی ہے۔ سب کے رزق کا مدار خراج پر ہے اور خراج کے تحصیلداروں پر ، لیکن خراج سے زیادہ ملک کی آبادی پر توجہ دینی چاہیے، کیونکہ خراج بھی تو خوشحالی سے حاصل ہوتا ہے۔ جو حاکم تعمیر کے بغیر خراج چاہتا ہے، اس کی حکومت یقیناً چند روزہ ثابت ہوگی۔ اگر کاشتکار خراج کی زیادتی کی، کسی آسمانی آفت کی، آبپاشی میں خلل پڑ جانے کی، رطوبت میں قلت کی، سیلاب یا خشکی کے سبب، تقاویٰ کے خراب ہو جانے کی شکایت کریں تو ان کی سننا اور خراج کم کر دینا، کیونکہ کاشتکار ہی تمہارا اصل خزانہ ہیں۔

ان سے جو رعایت بھی کرو گے اس سے ملک کی فلاح ہوگی۔ حکومت کی رونق بڑھے گی۔ نیز تم رعایا سے مال کے خراج کے ساتھ تعریف کا خراج بھی وصول کرو گے۔ اس وقت ان میں عدل پھیلانے سے تمہیں اور زیادہ خوشی حاصل ہوگی۔ مشکلات میں ان کی قوت پر تمہارا بھروسا بڑھ جائے گا اور جو راحت تم نے انہیں پہنچائی ہے اور جس انصاف کا انہیں خوگر بنا دیا ہے، اس پر ان سے شکرگزاری تمہارے لئے خزانہ بن جائے گی۔ ممکن ہے مشکلات نازل ہوں اور ان لوگوں پر بھروسا کرنے کی مجبوری پیش آ جائے، ایسی حالت میں وہ بخوشی تمہارا ہر مطالبہ قبول کر لیں گے۔

ملک کے عوام: ملک کے عوام کی بہبودی و سر سبزی ہر بوجھ اٹھا سکتی ہے، لہٰذا اس کا ہمیشہ خیال رکھنا، ملک کی بربادی تو باشندوں کی غربت ہی سے ہوتی ہے اور باشندوں کی غربت کا سبب یہ ہوتا ہے کہ حاکم دولت سمیٹنے پر کمر باندھ لیتے ہیں، کیونکہ انہیں اپنے تبادلے اور زوال کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور وہ عبرتوں سے فائدہ اٹھانا نہیں چاہتے۔ اپنے منشیوں کے معاملے کو بھی اہمیت دینا، یہ منصب بہترین آدمیوں ہی کے سپرد کرنا۔ راز کی خط و کتابت پر انہی لوگوں کو مقرر کرنا جو اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوں۔

جنہیں نہ اعزاز گستاخ بنا دے کہ بھری مجلس میں تم سے بدتمیزی کرنے لگیں یا معاہدوں میں تمہاری مصلحتوں، فائدوں سے چوک جایا کریں یا اگر کسی معاہدے سے تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے تو اس سے مخلصی کی صورت نہ پیدا کرسکیں۔ یہ لوگ ایسے ہونے چاہئیں کہ خود اپنی قدر جانتے ہوں، کیونکہ جو شخص اپنی قدر نہیں جانتا وہ دوسروں کی قدر کیا جانے گا؟ ان لوگوں کا چناؤ محض اپنی فراست، میلان طبیعت یا حسن ظن کی بناء پر نہ کرنا کیونکہ لوگوں کا دستور ہے کہ تصنع اور ظاہر داری سے اپنے آپ کو حاکموں کی فراست کے مطابق بنا لیتے ہیں مگر خیرخواہی اور امانت داری سے کورے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments