صدارتی استثنا: کب، کیوں اور کس حد تک


دنیا کے اکثر جمہوری ممالک میں اہم ریاستی عہدوں پر تعینات افراد کو کسی حد تک عدالتی کارروائیوں سے استثنا حاصل ہوتا ہے۔ اور اس استثنا کا مقصد ان افراد کو آزادی اور اطمینان کے ساتھ اپنی آئینی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے انجام دینے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب بادشاہ بنانا یا آمر بنانا ہر گز نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ جمہوری نظام میں صدارتی استثنا کا مطلب مطلق استثنا نہیں ہے کیونکہ جمہوریت کا مطلب ہی ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں ہر عوامی اور سرکاری عہدیدار آئین اور قانون کے مطابق کسی نہ کسی شکل میں اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں آئین کا دفعہ دو سو اڑتالیس صدر اور گورنر صاحبان کو عدالتی کارروائیوں سے استثنا فراہم کرتا ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ استثنا قانونی معاملات میں احکامات جاری کرنے تک محدود ہے۔ ذاتی یا سیاسی مفادات کے لئے صدر یا گورنر کے فیصلے استثنا کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ یہ استثنا اس وقت تک ہے جب تک صدر یا گورنر آئین کے کسی اور شق کی خلاف ورزی نہ کر رہا ہو۔ جبکہ اسی آئین کی دفعات چار پانچ اور پچیس تمام شہریوں کو یکساں طور پر قانون کے سامنے جوابدہ بناتا ہے۔ اب ایسی صورتحال میں جب ہم ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں جس میں حضرت عمر کی بھرے مجمع میں جوابدہی کی مثال ہمارے سامنے ہیں دوسری طرف اپنی خواہشات یا سیاسی مفادات کے لئے مروجہ آئین قانون اور روایات کو پامال کرتے ہوئے آئینی استثنا کا سہارا لیتے ہیں۔ اسی قسم کی ایک بد ترین مثال دو ہزار گیارہ میں میمو گیٹ سکینڈل کے وقت آصف علی زرداری دور کا بھی ہمارے سامنے ہے۔

آئیے ذیل کے پیراگراف میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ ملک میں جو موجودہ سیاسی و آئینی بحران پیدا ہوا ہے یہ آئین میں موجود خامیوں ابہام اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرتا ہے یا پھر سیاسی اشرافیہ نے اپنے آپ کو عوام سے بالاتر بنانے اور قانون کی گرفت سے بچانے کے لئے یہ دفعات شامل کیں ہیں۔ گزشتہ صرف ایک مہینے کے دوران درجہ ذیل سیاسی و آئینی واقعات رونما ہوئے۔ ابہام کی وجہ سے فریقین کی من مانی تشریحات نے قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ خلیج مزید بڑھ رہا ہے۔

مثلاً۔ عدم اعتماد کی تحریک جمع ہونے کے بعد چودہ روز میں قومی یا صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی پابندی۔ پی ٹی آئی نے موقف اختیار کیا کہ اجلاس بلانا ضروری ہے (یعنی صرف نوٹیفیکیشن کرنا) منعقد کرنا ضروری نہیں۔

مثلاً۔ عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد تین دن بحث اور سات دن میں ووٹنگ ضروری ہے، مگر سابق سپیکر اسد قیصر نے اس کی پابندی بھی ضروری نہیں سمجھی۔

مثلاً۔ سپیکر کی رولنگ کو کسی بھی عدالت میں چیلینج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (کیا صدارتی استثنا کی طرح اس کے بھی کوئی حدود و قیود ہے یا نہیں ) مثلاً اگر سپیکر قومی اسمبلی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے رولنگ دے کہ فلاں ممبر وزیر اعظم پر بے جا تنقید کرتا ہے لہذا اسے ایک سال کے لئے جیل میں ڈال دیا جائے۔ یا کسی بھی سرکاری عہدیدار کو نوکری سے برخواست کردے تو کیا اس قسم کے اقدامات یا رولنگ کو بھی استثنا حاصل ہو گا؟

مثلاً۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے استعفی پارٹی قائد وزیر اعظم عمران خان کے نام لکھا۔ وزیر اعظم نے اپنے گورنر کو بھیجا اور فوری طور پر منظور بھی کروایا۔ منظوری میں تھوڑی سی تاخیر پر گورنر (چودھری سرور) تک کو برطرف کیا۔ مگر اب اسی پارٹی کا دوسرا گورنر سوال اٹھاتا ہے کہ یہ استعفی تو منظور ہی نہیں ہوا ہے۔ اب اگر یہ سب کچھ غیر قانونی ہوا ہے تو اس کے ذمہ دار کون ہیں؟

مثلاً۔ سپیکر پنجاب اسمبلی اپنے عہدے سے استعفی دیے بغیر وزارت اعلی کا امیدوار بنتا ہے۔ اور یہ منصب حاصل کرنے کے لئے اپنے سپیکر ہونے کے بے تحاشا اختیارات استعمال کرتے ہیں۔ آئین و قانون میں دیے گئے واضح احکامات کو پاؤں تلے روندتا ہے۔ وزارت اعلی کی ووٹنگ کے لئے بلائے گئے اجلاس کو بہانہ بنا کر طویل مدت کے لئے ملتوی کرتا ہے۔ عدالتی احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ یہی رویہ گورنر پنجاب اور حتی کہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے روا رکھا ہے۔ سیاسی رہنما کہنے کو تو کہتے ہیں کہ قانون اپنا رستہ خود بناتا ہے مگر یہاں قانون اور آئین سب خاموش تماشائی ہیں۔ کیا یہ آئینی سقم ہیں یا حکمرانوں کے غیر آئینی اقدامات؟ اگر یہ حکمرانوں کے غیر آئینی اقدامات ہیں تو کیا آئین میں اس کی سزا مقرر ہے؟

مثلاً سیاسی رہنماؤں کی ایک اور من مانی ملاحظہ ہو کہ کوئی بھی عام شہری ایک حلقے کی بجائے دوسرے حلقے میں ووٹ نہیں ڈال سکتا ہے دو یا تین جگہ ووٹ ڈالنا تو ممکن ہی نہیں مگر سیاسی رہنماؤں کو بیک وقت چار چار پانچ پانچ حلقوں سے انتخابات لڑنے کی اجازت ہے۔ منتخب ہونے کے بعد اضافی سیٹوں سے اسی وقت استعفی دیتا ہے۔ خود تو اسمبلی میں پہنچ جاتا ہے مگر عام انتخابات کے بعد اسی طرح خالی کی گئی پندرہ بیس حلقوں میں دوبارہ ضمنی انتخابات پر غریب عوام کا کتنا پیسہ اور وقت ضائع ہوتا ہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔

مثلاً۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گورنر پنجاب کو برطرف کر کے نوٹیفیکیشن کے لئے صدر کو بھجوا دیا ہے۔ مگر صدر مملکت اس میں تاخیر کرنے کا آئینی حق رکھتا ہے خواہ اس تاخیر سے پنجاب جیسا بڑا صوبہ چار ہفتے سے وزیر اعلی کے بغیر ہی کیوں نہ ہو۔

مختصر یہ کہ عمران خان اور اس کے ساتھی عہدیداروں نے جاتے جاتے جو اقدامات اٹھائے ہیں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں قانون موم کی ناک ہوتی ہے اس کو حکمران جس طرف موڑنا چاہے اس کی گنجائش موجود ہے۔ اس لئے مستقبل قریب میں اس قسم کے سیاسی و آئینی بحرانوں سے بچنے کے لئے نہ صرف ان آئینی اشکالات کو دور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف باقاعدہ سخت سزائیں بھی مقرر ہو، تاکہ آئین سے کھلواڑ کرنے والے ذرا سوچ کر قدم اٹھائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments