محبت اور پسند کی شادی کے نام پر کھیلا جانے والا کھیل


بعدالت جناب علاقہ مجسٹریٹ صاحب تھانہ محمود کوٹ،

مسماۃ فلاں دختر فلاں بذریعہ کونسل حسب ذیل عارض ہے کہ قریب دو ماہ قبل میں نے فلاں ولد فلاں سے محبت کی شادی کی اور اب مطمئن ازدواجی زندگی گزار رہی ہوں۔ من سائلہ کے بھائی اور والد، من سائلہ اور خاوند ان کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ استدعا ہے کہ دارالامان بھجوایا جاوے اور ایس ایچ او تھانہ محمود کوٹ کو قانونی تحفظ دینے کا حکم صادر فرمایا جاوے۔

اظہار و ابلاغ کا دور ہے۔ خود نمائی اور خود ستائی کا زمانہ ہے، خود پرستی اور خود لذتی کا چلن ہے۔ انسان نے خواہش نفس کو معبود بنا لیا اور نئی تشریحات کا ہاتھ تھام کر ”انا الحق“ کے منصب پر فائز ہو گیا۔ ہر شش جہت سے میں میں میں اور باں باں باں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ نفسی نفسی کا شور دنیا میں اتنا بلند ہے تو خدا معلوم شور محشر کا عالم کیا ہو گا۔ ننگے نہاؤ اور ننگے کھاؤ کا رواج چل نکلا ہے تو ننگا بولنے میں کیا شرم؟

محسن و مربی سئیں شاکر مہروی نے کہا تھا میں جانتا ہوں کہ تمہاری دو ٹانگوں کے بیچ میں کیا چیز ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ تم نکال کر دکھا دو۔ زندہ ہوتا تو دیکھتا کہ دنیا نے دو ٹانگوں کے بیچ والی چیز بھی نمائش میں رکھ دی اور تماش بین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ”یہ چیز“ ۔ اچھا ہوا شاکر مر گیا کہ ع اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا۔

رسول کریم نے کہا تھا دو جبڑوں اور دو ٹانگوں کے درمیان کی حفاظت کرو میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔ مگر دنیا نے زبانیں بے لگام اور شرم گاہیں کھلی چھوڑ دیں اور کھاؤ پیو اور مر جاؤ کے سنہری اصول پر عمل پیرا ہو گئی۔ ابھی خیر ہے کہ زلزلے اور سیلاب آرہے ہیں، ابھی امن ہے کہ دشمن کی فوجیں گلے کاٹنے میں مصروف ہیں، ع میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ پتھر برسیں۔ انتظار کرو اس دن کا جب کھیت بیابان ہو جائیں، اور کنوؤں کا پانی اتر جائے۔ گاڑیاں ہم نے بنائی ہیں، سو اور اچھی بنا لیں گے، جہاز ہم نے اڑائے ہیں سو اور اونچا اڑا لیں گے، چاند پر جا پہنچے ہیں تو سورج بھی تسخیر کر لیں گے مگر ذرا بتانا کہ زیر زمین صاف پانی کا ذخیرہ کس منصوبے کا حصہ ہے؟ پیٹرول، ڈیزل اور نیچرل گیس کے ذخائر کس نے مہیا کیے ہیں؟ لوہا، سونا، چاندی، ہیرے جواہرات اور ہزاروں معدنیات کون سی صنعت میں پیدا ہو رہے ہیں؟ سکائی سکریپرز تمہارے دست حرفت کا کمال ہوں گے مگر یہ فلک بوس پربت کس نے زمین کی چھاتی پر گاڑ دیے؟ جنتیں، دودھ اور شہد کی نہریں جھوٹ ہوں گی مگر یہ دریا، یہ آبشاریں، یہ خوشخبری دینے والی ہوائیں کس کے حسن اظہار کی تمثیل پیش کرتے ہیں؟ ضرور کھاؤ پیو اور عیش کرو مگر ایک ذرا سوچو کہ اجناس کو ذوق نمو کس نے بخشا ہے؟ کس نے خوشۂ گندم کی جیب موتیوں سے بھر دی ہے؟ کون بیج کو مٹی کی تاریکی میں پالتا ہے؟ کون دریاؤں کی موجوں سے سحاب اٹھاتا ہے؟

گلی کے موڑ پر کھڑا ہوا کوئی انجان آدمی نظر آ جائے تو ایک ہی سانس میں پوچھتے ہو کہ اجنبی کون ہو اور کہاں سے آئے ہو، کس سے ملنا ہے اور کیا کام ہے؟ دنیا میں آئے ہو تو لو کر لو مگر خود پر کون؟ کیوں، کیا اور کیسے کے سوالات بھی اٹھاؤ۔

اسلامیوں کے خدا، صلیبیوں کے یسوع مسیح اور ہندوؤں کے رام کو دنیا سے نکال دو اور دعویٰ کر دو کہ یہ انسانیت کے قاتل ہیں۔ کلیساؤں، مسجدوں اور مندروں کی بنیادیں تک کھود ڈالو کہ یہ ساری قتل و غارت انہی معبدوں کی اوٹ میں ہو رہی ہے۔ میں بھی کدال لے کر حاضر آؤں گا اگر مجھے یقین دلا دیا جائے کہ خدا کا تصور اور جوابدہی کا احساس منہا کر کے بھی کسی انسانی معاشرے کی تشکیل ممکن ہے۔ خدا نہیں ہے تو جو دل چاہے کرو۔ وفا کیسی اور کہاں کا عشق؟ سر پھوڑنا ٹھہرا ہے تو پھر محبوب کا سنگ آستاں ہی کیوں؟ کیسا دوست اور کیسا محبوب؟ بقول جون، ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم؟ تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم؟

کسی یار طرح دار کی پیٹھ میں چھرا گھونپو اور جب وہ حیرت سے پھٹتی ہوئی آنکھیں دیکھے اور پوچھے کہ ”یو ٹو بروٹس؟“ تو بے حیائی سے جواب دو کہ ”یس می ٹو“

خدا کا تصور نفی ہوتے ہی لغت کا دامن عزت، غیرت اور شرم و حیا جیسے الفاظ سے تہی رہ جاتا ہے۔ ماں، بہن اور بیٹی جیسے الفاظ بے روح اور بے معانی ہو جاتے ہیں۔ کیا محرم اور کیا نا محرم؟ کیا حلال اور کیا حرام؟ قحط پڑے تو شیر خوار بچوں کو ذبح کر کے کھا جاؤ کون پوچھتا ہے؟ پانی میسر نہ آئے تو کسی کی شہ رگ پر دانت گاڑ دو۔ زندہ رہنے کے لئے پروٹین چاہیے جیسے بھی ملے۔

مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی ساری افراتفری، انتشار اور مصیبتوں کی جڑ یہی لادینیت ہے۔ سب کچھ ختم ہو جانے کا احساس سب کچھ سمیٹ لینے کی ہوس پیدا کرتا ہے۔ دل سوز سے خالی ہو اور نگہ پاک نہ ہو تو، بربریت جنم لیتی ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی غارت گری ہو رہی ہے، لادینیت سرگرم ہے۔ سیاست حسن معاشرت ہے مگر دین سے جدا ہو تو بقول اقبال پیچھے چنگیزی رہ جاتی ہے۔ فرد کا فرد سے رشتہ مفاد پر قائم ہے، سو ریاست کا ریاست سے انسانیت کا رشتہ کیسے استوار ہو سکتا ہے؟ مندروں، کلیساؤں اور مسجدوں میں خشیت ایزدی سے لرزتے ہوئے دلوں اور روتی ہوئی آنکھوں والے قاتل نہیں ہو سکتے۔ پیروں پر پٹیاں باندھ کر چلنے والے بدھ بھکشو انسانیت کا خون نہیں بہا سکتے۔ یہ سیاسی دماغ ہیں جو مذہب کا استحصال کر رہے ہیں۔ ریاستوں نے کہیں داڑھیاں رکھ لیں تو کہیں عمامے باندھ لئے اور کہیں مندروں کی گھنٹیاں گلے میں ڈال لیں۔ ع آدمی کا کوئی وکیل نہیں۔ ایجنسیاں اور حکومتیں نہ مسلمان ہیں نہ ہندو اور نہ عیسائی۔ یہ لادین گروہ ہیں جو انسانیت کا خون بہانے میں مصروف ہیں، ع کہیں بہ حیلۂ مذہب کہیں بنام وطن۔

بہتر ہو گا کہ ہم جزو پر بات کریں، قطرہ قطرہ دریا ہوتا ہے۔ فرد کا کردار بلند نہیں ہو گا تو بہتر اور پر امن معاشرے کی تشکیل ادھورا خواب ہی رہے گا۔

عدالتی پیادے نے آواز لگائی،
مسماۃ فلاں بنام ایس ایچ اوووووووووووووووووو!

میں، مسماۃ فلاں اور اس کا وکیل عدالت پیش ہو گئے۔ وکیل مضمون درخواست کی تائید میں عرض گزار ہوا کہ میری مؤکلہ کو پولیس پروٹیکشن میں دارالامان بھجوایا جاوے۔ مؤکلہ جو قریب چودہ سال کی بچی ہوگی پہلے حیران ہوئی پھر پریشان اور پھر اشکبار ہو گئی۔ جج نے پوچھا بیٹا آپ نے کہاں جانا ہے؟ وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی میں نے دارالامان نہیں جانا، مجھے خاوند کے ساتھ یا پھر میری بہن کے گھر بھیجیں۔ جج نے وکیل کی طرف دیکھا تو وہ بغلیں جھانکنے لگا، مگر بغل میں کوئی ہوتا تو نظر بھی آتا۔ وہ معذرت کر کے چلتا بنا تو پیچھے ملازمان سرکار یعنی میں اور جج میدان میں باقی رہ گئے۔

صاحب جلیس نے ذمہ داری میرے کندھوں پر بوجھ کر دی۔ بچی جمہوری سے معلوم ہوا کہ چند ماہ قبل ”فصل کماد“ میں محبت پروان چڑھی اور ابھی فصل کی برداشت بھی شروع نہ ہوئی تھی کہ معاملات محبت کی برداشت سے باہر ہو گئے۔ چنانچہ پیار کی گاڑی چھم چھم چلتی کراچی جا پہنچی۔ گھر میں بچی کے سفید ریش والد نے ایک نظر سات آسمانوں پر ڈالی اور معاملہ خدا کی عدالت میں پیش کر دیا۔ اس کی جیب وطن عزیز کے فوری اور سستے نظام انصاف کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھی۔

ادھر وصال کی مسلسل راتوں نے عاشق صادق کے ہوش ٹھکانے لگا دیے۔ آخر وہ صبح وصال بھی آ گئی جب عشق کی لہریں بحریں ہاکس بے پر سر ٹکرا ٹکرا کر جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔ چنانچہ اب وہ محبوبہ کو دارالامان بھجوا کر فرض محبت سے سبکدوش ہونے آیا تھا۔ ع اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا۔

لاوارث لاشیں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 174 کے تحت دفن کی جاتی ہیں۔ یہ مرتی ہوئی قدروں کی نعش تھی، پتہ نہیں ضابطہ کیا کہتا ہے مگر عام طور پر یہ لاشیں بے گور و کفن چھوڑ دی جاتی ہیں جنہیں روشن خیالی کی چیلیں نوچ نوچ کر کھاتی ہیں۔

ہم نے لڑکی کو اس کے حرماں نصیب والد کے سپرد کر کے اغواء اور زنا کا پرچہ درج رجسٹر کر لیا ہے، اب دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے!

سنا ہے کہ ایک نواسی نے پوچھا کہ نانو یہ محبت کیا ہوتی ہے؟ جہاندیدہ نانی نے تہذیب نوی کے منہ پر گویا طمانچہ رسید کیا کہ ”بیٹا محبت مفت کھیتوں میں لے جانے اور چلے جانے کا نام ہے“ ۔ یاد رہے کہ نانو کے اصل الفاظ کچھ اور تھے، رقم کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اور اس دور میں شرم کرنے کی داد میں خدا سے چاہتا ہوں۔

نئی تہذیب کا دامن خوف خدا سے خالی ہے، سو غیرت باقی رہی ہے نہ شرم و حیا۔ محبت اور پسند کی شادی کے نام پر شہوت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ ٹیکو کہتا ہے کہ مسلمانوں کے دو ہی شوق ہیں گوشت کھانا اور گوشت لڑانا۔ گوشت کی نمائش ہو گی تو شوقین متوجہ ہوں گے، عاشقین و صالحین نہیں۔ چوری کھانے والے مجنوں کا دل، پیٹ سے پہلے بھر جاتا ہے۔ جوہر دکھاؤ، جسم نہیں کہ انسان چاند پر کولہے مٹکاتا، کمر لچکاتا اور کیٹ واک کرتا ہوا نہیں پہنچا۔ رقص کرو تو مور حیران ہو کر دیکھیں، گیت گاؤ تو تلاوتیں آفرین کہیں، محبت کی پینگیں بڑھاؤ تو قوس قزح کے رنگ فضاؤں میں بکھر جائیں۔ محبت اہل ایمان کا خاصا ہے، شہوت پرستوں کا شغل نہیں۔ محبت کو شغل مت بناؤ ورنہ ہم گزرتے ہوئے زمانے کے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ

اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں۔
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments