بادشاہ اورنگزیب بالمقابل عمران خان


جو لوگ تاریخ سے شغف رکھتے ہیں وہ عین ممکن ہے کہ اس عنوان کی بنا پر تھوڑی پریشانی میں مبتلا ہوں۔ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اور عمران خان کی شخصیت کا ویسے تو آپس میں موازنہ بنتا نہیں مگر چند باتیں جو مماثلت رکھتی ہیں۔ بعض تاریخ دانوں کے مطابق اورنگزیب عالمگیر ہندوستان کے تخت پر براجمان ہونے والے آخری با اثر بادشاہ تصور کیے جاتے ہیں۔ لگ بھگ پچاس سال کا عرصہ انہوں نے حکومت کی اور نہ صرف ملکی سرحدوں میں وسعت کی بلکہ ہندوستان کو معاشی طور پر اس وقت بہت ترقی دی یا شاید یوں کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بنا دیا تھا۔ یورپ اور چین بھی اس وقت کی معاشی دور میں ہندوستان سے پیچھے تصور کیے جاتے۔ اور دوسری جانب خان صاحب کی حکومت جو چار سال سے بھی کم عرصے پر محیط رہی ہے ان کی حکومت میں سودی قرضہ لینے کا تاریخی ریکارڈ بنا ہے۔ جو کہ ہمارے ملک میں حکومت کرنے کا روایتی عمل رہا ہے۔ مگر خان صاحب نے آنے سے پہلے اس قرضہ لینے کے خلاف ایک عرصے مہم روا رکھی تو قوم میں امیدوں کے چراغ جلا دیے اور حکومت میں آتے ہی ان چراغوں میں اور تیل ڈالتے رہے۔ مگر ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ یہ امیدوں کے چراغ بجھنا شروع ہو گئے اور ہماری قوم مزید سودی قرض میں دھنستی چلی گئی۔

بادشاہ اورنگزیب نے ایک مذہبی ریاست کا قیام چاہا اور اسلامی احکامات کا نفاذ بھی ان کی حکومت میں ہوا۔ بہت سے حرام کاموں پر پابندی عائد کردی گئیں تھی۔ جب کہ اس دور میں بھی بہت سے ذہن ایسے تھے جو مذہبی پابندیوں کے خلاف تھے مگر اورنگزیب نے جو کرنا تھا جو کام رب نے ان سے لینا تھا لیا۔ دوسری جانب خان صاحب بھی خود کو ایک اسلامی نظام کے حامی گردانتے نظر آتے ہیں مگر جو حال ان کے جلسوں اور دھرنوں میں ہوتا ہے وہ اسلامی اور ہمارے اخلاقی ادوار سے بھی بہت دور ہے۔

یہ بات بھی بجا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ان ہی چیزوں کے سحر میں مبتلا ہے یہی اب ان کی پسند ہے۔ شاید یہ بھی ایک بڑی وجہ ہو کہ خان صاحب کے جلسوں میں اتنا ہجوم اکٹھا ہوتا ہے۔ ویسے یہ بات تعجب انگیز ہے کہ اگر کہا جائے کہ خان صاحب ان سب باتوں سے لا علم ہیں کیوں کہ اس بات کا علم تو اب میرے غالب گمان کے مطابق سرحدوں پار بھی ہو گا تو خان صاحب کیسے لا علم رہے ہیں؟

اورنگزیب اپنی تمام تر شجاعت کے باوجود بھی اپنے والد شاہجہاں کے اتنے چہیتے نہیں تھے جتنے ان کے بڑے بھائی دارا تھے۔ بلکہ ایک وقت تو شاہجہاں نے اورنگزیب کو ان کے عہدے سے بھی برطرف کر دیا تھا جس کی عام طور پر دو وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنے والد بادشاہ ہند کا حکم بجا لینے میں دیر کی تھی۔ اور دوسری وجہ یہ کہ ان کی طبیعت مذہبی دلچسپی کی وجہ سے دنیا کی چیزوں کی طرف اتنا زیادہ مائل نہیں تھی۔ یہاں اگر دیکھا جائے تو خان صاحب بھی اپنے بارے میں ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے قریبی لوگ بھی کہ وہ مہنگی چیزوں کی طرف مائل نہیں ہوتے اور سیاست میں بھی لوگوں کی خدمت کے لیے آئے ہیں۔ خیر میں یا کوئی بھی اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہے دل کا حال تو رب ہی جانے۔ مگر خان صاحب خود اکثر اپنے شوکت خانم ہسپتال بنانے اور مفت علاج فراہم کرنے کا بھی ذکر کرتے ہیں جو کہ واقع ایک قابل ستائش عمل ہے۔

اورنگزیب اپنے بھائی مراد کے ساتھ مل کے اپنے بڑے بھائی دارا کے خلاف اقتدار کے حصول کے لیے جنگ کرتے ہیں اور آخر میں ان کو شکست دے کر دنیائے فانی سے روانہ بھی کر دیتے ہیں۔ جیت ملنے کے بعد اپنے والد کو نظر بند کر دیتے ہیں اور اپنے بھائی مراد جس سے اتحاد اس شرط پر کیا تھا کہ جیت کے بعد سلطنت دونوں میں تقسیم ہوگی اس کو بھی ایک دیوان کے قتل کے مقدمے میں قتل کر کے اپنے لیے پوری سلطنت پر بنا شراکت کے حکومت کا راستہ صاف کرتے ہیں۔ اور تخت ہندوستان پر براجمان ہو جاتے ہیں۔

اورنگزیب کے بھائی مراد کے بارے میں لکھتے ہوئے مجھے چاہتے نہ چاہتے سابقہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی یاد آ گئی۔ جو پہلے پنجاب کی ترقی کے لئے نہ صرف امید بلکہ ضروری سمجھے جاتے تھے ان کو خان صاحب نے اپنی حکومت بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تخت پنجاب سے اتار کر ان کی جگہ ایک ایسے شخص کو نامزد کر دیا جو اقتدار ملنے سے قبل ان کے لیے چور تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ قدم انہوں نے وفاق میں اپنی کرسی بچانے اور مسلم لیگ ق کے لگ بھگ پانچ مگر قیمتی ووٹ کے اپنے حق میں حصول کے لیے کیا۔ یہ ان ووٹوں کی اہمیت تھی کہ چودھری صاحب کے دھمکانے میں اتنا اثر پیدا ہوا کہ پنجاب کا تخت خالی ہو گیا۔ اور خان صاحب کا پسندیدہ وزیر اعلی بھی خان صاحب کے حکم سے اپنے عہدے سے فارغ ہو گیا۔

خان صاحب اکثر لوگوں سے یہ پوچھتے نظر آتے ہیں کہ مجھے کیا ضرورت تھی کہ میں سیاست میں آیا میرے پاس تو سب کچھ تھا۔ تو اس کا جواب ہمیں تاریخ سے ملتا ہے اور اس جواب کے لیے بادشاہ اورنگزیب کی شخصیت میرے ذہن میں موضوع قرار پائی۔ اورنگزیب کے پاس سب کچھ تھا یہاں تک کے گورنری کا عہدہ بھی تھا۔ طبیعت بھی تاریخ دانوں کے مطابق درویشانہ سامنے آتی ہے جب کہ اس بات میں تاریخ دانوں کا اختلاف عین ممکن ہے۔ مگر پھر بھی اقتدار کے حصول کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ یہ تخت کا نشہ ہی تو تھا کہ باپ نظر بند اور بھائیوں کا خون تک بہا دیا گیا۔ اور جو بات سمجھ آتی ہے اس بنا پر اپنے بھائی سے کیے عہد و پیماں کو بھی بالائے طاق رکھا بلکہ ان کا قلع قمع کر دیا گیا۔ تو جناب نشہ تب کے تخت کا ہو یا آج کی کرسی کا ان کا نشہ اتنا سر چڑھ کر بولتا ہے کہ اکثر سب کچھ بھی کچھ نہیں لگتا۔ اقتدار کی پیاس اس کے حصول پر ہی بھیجتی ہے۔ امید ہے کہ یہ جواب کفایت کر جائے اور اس جواب کا مقصد خان صاحب کی نیت پر شک کرنا یا نہ کرنا نہیں بلکہ محض آگاہ کرنا ہے خاص کر کہ ہماری غلو میں ڈوبی قوم کو جو آج کل عقل کا ترازو چھوڑے بیٹھی ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments