نالائے بلبل


ویسے تو ماہ رحمت رمضان المبارک کی ہر رات ہی اپنے دامن میں رحمتوں کا خزینہ لیے ہوئے ہے۔ بالخصوص ستائیسویں شب کی بات ہی نرالی ہے۔ ماہ صیام کی اس بابرکت شب میں چاروں طرف سے آنے والی کلام الہی کی پرکیف صدائیں سماعتوں کو معطر کرنے کے ساتھ ساتھ من کی دنیا کو بھی آباد کرتی ہیں۔ اس شب نور میں بندگان خدا اپنے رب کے حضور جس خشوع و خضوع سے حاضر ہوتے ہیں وہ بھی ایک فرحت بخش منظر ہوتا ہے۔ جب برقی قمقموں سے جگمگاتی ہوئی مساجد کو ساجدین اپنے سجدوں سے آباد کرتے ہیں تو یہ مساجد بہار نو کے مناظر پیش کرنے لگتی ہیں۔

پاکستانی ہونے کے ناتے ہمارا اس رات سے گہرا تعلق ہے۔ اس سے خاص نسبت یہ ہے کہ یہ شب، آزادی پاکستان کی شب ہے۔ 1947 ء بمطابق 1366 ہ کو اسی با برکت ماہ کی اس عظیم الشان رات میں ہمارا وطن معرض وجود میں آیا۔

جب کبھی تصوراتی دنیا میں گم ہو کر چند لمحوں کے لیے اپنی آنکھوں کو اس زمانے میں کھولتا ہوں کہ 1947 ء میں مسلمانان برصغیر صرف ایک اعلان سننے کے منتظر تھے کہ ”پاکستان قیام پذیر ہو چکا ہے“ ۔ تو ایسی مضطرب حالت میں وہ رمضان المبارک کے بابرکت لمحات میں اپنے رب سے دعائیں کرتے ہوئے اسلامی ریاست کے علاوہ اور کیا مانگتے ہوں گے۔ اور پھر جب اسی ماہ میں ان کو آزادی کا مژدہ جاں فزا سنایا گیا ہو گا تو وہ کس طرح اپنے رب کے حضور سر بسجود تشکر کے آنسو بہا رہے ہوں گے؟ اور جب یہ قافلے اپنے مختصر ساز و سامان مگر وافر ایمان کے ساتھ پاک سرزمین کی جانب روانہ ہوئے ہوں گے تو یقیناً قرون اولیٰ کے مجاہدین کی یاد تازہ ہوئی ہو گی۔ جو اپنا تن من دھن راہ خدا میں نثار کرنے کا جذبہ لیے اپنے وطن کو چھوڑ کر دیار غیر کی طرف عازم سفر ہوا کرتے تھے۔

جب یہ وارثان اسلاف آلات حرب و ضرب سے بے نیاز کفار کے خلاف برسر پیکار ہوئے ہوں گے تو قدسیان فلک کی آنکھوں کے سامنے غزوہ بدر کا منظر آ گیا ہو گا کہ جس طرح شمع رسالت کے ان پروانوں نے حالت روزہ میں کفار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تھیں۔ اسی جرات رندانہ کا مظاہرہ ان سرفروشان ملت نے بھی کیا۔

کیسے روحانی منظر ہوں گے کہ جب کوئی جام شہادت کے ساتھ اپنا روزہ افطار کر رہا تھا تو کسی کو یہ شربت حیات سحری میں میسر آیا۔ اور جب انہوں نے اس پاک سرزمین پر قدم رکھا ہو گا تو ان کی کیفیت قلبی بھی فاتح مکہ کے لشکر کی سی ہو گی۔

لیکن مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جس اسلامی و فلاحی ریاست کے لیے ہمارے بزرگوں نے ہجرت کی تھی وہ ابھی تک ہمیں ملی ہی نہیں ہمارا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔

حیف صد حیف! یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمیں ان قربانیوں کی قدر ہی نہیں۔

ان کی قدر پوچھنی ہے تو اس بچے سے پوچھو جس کو آزادی کی پہلی عید پر نئے کپڑے دلوانے والا کوئی بھی نہیں تھا اس کی وہی پوشاک جو اس کے اپنوں کے خون کے چھینٹوں سے رنگی ہوئی تھی اس کا لباس عید ٹھہری۔

یا اس بوڑھے سے پوچھو جس کے بچے ہر عید پر اس کا ہاتھ پکڑ کر عیدگاہ جایا کرتے تھے مگر آج نہ اس کے ہاتھ باقی تھے نہ ہاتھ پکڑنے والے۔

اس بیٹی سے پوچھو جو 30 برس بعد اپنی ماں سے ملی مگر ماں اپنی ذہنی حالت کی وجہ سے اس کو پہچان ہی نہ سکی۔

سات بھائیوں کی اس اکلوتی بہن سے پوچھو جس کے ساتوں ویر اس کی عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے اس جہاں سے رخصت ہوئے جب کہ گھر میں ہر شام وہ عید کے بعد ہونے والی اس کی رخصتی کی باتیں کیا کرتے تھے۔

پوچھو اس دختر اسلام سے جو پنجاب کے کسی نامعلوم گاؤں میں کسی وحشی کی کوٹھڑی کے فرش پر پڑی اپنی ٹوٹی چوڑیاں کو دیکھ رہی تھی جو اس پر ہوئے ظلم کی روداد سنا رہی تھیں۔ یہ وہی چوڑیاں تھیں جو پچھلی عید پر اس کے شوہر نے اس کو خود پہنائیں تھیں۔ لیکن اس خزاں رسیدہ باغ میں نالائے بلبل کون سنے گا۔

 

علی معراج عباسی
Latest posts by علی معراج عباسی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments