روزہ کے مسائل


ابا حضور بتاتے ہیں کہ ان کے بچپن میں جب ان کی عمر کوئی چار پانچ برس کی ہوگی تو رمضان عین جون جولائی میں آیا تھا اور چند جُہلا نے ابا کو اس عمر میں فقط اس لئے روزہ رکھوا دیا کہ بچے کا نام اور تصویر اخبار میں دیویں گے اور بلے بلے ہووے گی۔ پہاڑ جیسا دن اور ننھی سی جان۔
ابا کہتا ہے دوپہر دس بجے تک تو مجھے کوئی خاص پتا نہ چلا مگر اس کے بعد ہوش ٹھکانے آنا شروع ہوگئے۔ ہونٹ خشک ہونے لگے۔ بھوک پیاس سے جان جانے لگی۔ ظہر کے وقت تک میں چلنے پھرنے سے بھی رہ گیا۔ اب ایک نے گود میں اٹھایا۔ جب وہ تھک گیا تو دوسرے کی گود میں دے دیا۔
“بس بس اب تو تھوڑا سا وقت رہ گیا۔ جہاں اتنا وقت گزار لیا بچے تھوڑا سا اور صبر کر لے۔”
ابا کہتا ہے عصر کے وقت میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ۔ مگر مجھے سختی سے منع کیا گیا تھا کہ پانی نہیں پینا بس مغرب کی اذان ہونے والی ہے۔ میں بار بار ٹھنڈے پانی کے گھڑے کے پاس جاتا مگر اپنے اوپر کھڑی اتنی ساری فوج کی موجودگی میں پانی نہ پی سکتا تھا۔
کہتے ہیں پیاس کی شدت سے میں نے گھڑے کو جپھی ڈال لی تھی۔ گھر کے قریب ایک نہر تھی۔ گھر والے مجھے بہلانے کے لئے نہر پر لے گئے۔ میں کنارے پر گردن تک پانی میں ڈبو کر بیٹھ گیا۔ میرا جی نہ چاہتا تھا کہ میں باہر نکلوں۔
خیر روزہ کھلا۔ روزہ کھلتے ہی میری حالت غیر ہوگئی۔ یکدم بے تحاشا پانی پیا تو الٹیاں لگ گئیں۔ مگر اخبار میں فوٹو آگئی۔ جسے ان کے بزرگ فخر سے لوگوں کو دکھاتے پھرے۔

” ہمارے چھوٹے سے بچے نے روزہ رکھا۔”

اس اخبار کی کئی کاپیوں میں سے یہ تراشے کاٹ کاٹ کر محفوظ کئے گئے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئیں۔
جہالت کا الٹرا میکس لیول چیک کر رہے ہیں آپ۔؟
کس قدر ظلم ابا کے ساتھ کیا گیا؟
اسی طرح ایک دن ابا حضور اپنی دادی کے متعلق بیٹھے باتیں کرتے تھے۔ ہم نے پوچھا آپ کی دادی کیسے فوت ہوئیں تھی؟
فرمایا “یار ڈاکٹر انہیں ایکیوٹ کڈنی فیلیئر ہوگیا تھا اور دونوں گردے 99 فی صد کام چھوڑ چکے تھے۔ ٹرانسپلانٹ اس وقت ہوتا نہیں تھا اور ڈایالسز کی نوبت ہی نہ آئی اور ان کی جان نکل گئی۔”

“او یار ابا کیسے فیل ہوگئے ۔ کیا وجہ بنی؟ تم کسی بڑے ہسپتال میں لے کر کیوں نہ گئے۔”

“یار وہ روزے رکھ رہی تھیں۔ گرمیوں کے روزے تھے۔ ہم نے بڑا سمجھایا کہ آپ کا گردوں کا مسئلہ ہے۔ فدیہ دے دینا ۔
بڑھیا نے ایک نہ سنی ۔ اور رجنی کانت کی طرح فیصلہ سنایا کہ روزے سال میں ایک بار آتے ہیں۔ اگلے سال کیا پتا ہم میں سے کون ہو کون نہ ہو لہذا میں کسی قیمت پر روزہ نہ چھوڑوں گی۔
میں نے کہا اماں ابھی ڈی ہائیڈریشن کا مسئلہ ہے جون جولائی چل رہا ہے۔ اس طرح کرتے ہیں یہ دسمبر میں پورے کر لینا۔
پڑدادی کہنے لگی ہرگز نہیں۔ رمضان شریف کے ایک روزے کا اجر ساری زندگی مسلسل روزے رکھ کر بھی پورا نہیں کیا جاسکتا ہے۔پتا نہیں اگلے سال کون ہوگا کون نہیں۔

بس پھر اگلے سال سارے موجود تھے سوائے پڑدادی کے۔

ایک صاحب میٹنگ میں شامل تھے۔ اتفاقاً کرسی میرے ساتھ تھی۔ سرگوشی میں کوئی بات میرے کان میں کہنے لگے تو بدبو کے بھبھوکے میرے نتھنوں سے ٹکرائے اور بھک سے میرا دماغ اڑ گیا۔
ابے کوٹھڑی کے ! پیسٹ نہیں کرتا تُو؟

“یار روزہ دار کے منہ کی بُو اللہ رب العزت کو مشک و عنبر سے زیادہ محبوب ہے۔”
اس نے پیلے پیلے چڑیل ایسے دانت نکالتے ہوئے کہا۔

پائی اللہ کو محبوب ہے تو بندوں کا کیا قصور ہے؟ انہیں کیوں بے ہوش کرتے ہو؟

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ بُو کے چکر میں پیسٹ ہی نہیں کر رہے۔ اور مغالطہ یہ کہ روزے کی حالت میں پیسٹ کریں گے تو مکروہ ہوجائے گا یا ٹوٹ جائے گا۔ عجیب روزہ ہے ۔

دنیا میں جہاں کہیں بھی چلے جائیں رمضان کے مہینے میں معمول کے مطابق سب کچھ چلتا رہتا ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں سر عام کھانے پینے کو  Taboo بنا دیا گیا ہے۔
ہائے اللہ ! لوگ کیا کہیں گے۔ اس نے روزہ نہیں رکھا۔
روزہ دیگر کئی معاملات کی طرح انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ اسے انسان تک محدود رہنے دیا جانا چاہیئے۔ ہر انسان اپنا جواب دہ ہے۔ اس قسم کی حرکتیں کر کے آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟
کل دوپہر کے وقت ایک جوس اور کولڈ ڈرنک کی دکان پر ایک بڑا سارا سٹیکر اور دو پلے کارڈ چسپاں دیکھے ۔ صرف پانچ سے سات سال کے بچوں کے لئے جوس اور بوتل دستیاب ہے۔ دکاندار نے عُمر بھی خود ہی متعین کر لی تھی۔ ہمارے سامنے دو عورتیں گرمی میں ہانپتی منرل واٹر کی بوتلیں لینے آئیں تو اس نے انکار کر دیا۔

یہ چند متفرق خیالات تھے۔ نتائج آپ خود اخذ فرما لیجیئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments