کھل کر ماہواری کیوں نہیں آتی؟


”‎میری عمر چھتیس سال ہے سات سال ہوئے شادی کو۔ پچھلے تین چار سال سے ماہواری بہت کم ہو گئی ہے۔ تاریخ ریگولر ہے ہمیشہ وقت پہ ہوتی ہے لیکن بلیڈنگ بہت کم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے پیٹ بہت بڑھ رہا ہے اور سخت بھی ہو گیا ہے۔ ‎جب ماہواری آتی ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے بلیڈنگ کھل کے نہیں ہوتی۔ کریمپس ہوتے رہتے ہیں جیسے اندر بہت کچھ رہ گیا ہو۔ کچھ ایسا بتائیں یہ کھل کے ہو جائے“

ایک بیٹی کی یہ شکایت یہ سن کر گزشتہ برسوں میں بے شمار مریضوں سے بارہا سنے ہوئے جملے پھر سے یاد آ گئے۔

جب تک کھل کر ماہواری کر ماہواری نہ آئے، طبعیت نڈھال رہتی ہے۔
جب خون کھل کر آ جائے، جسم ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔
اندر سے گندا خون کھل کے نہیں نکلتا۔

تیس برس میں بے شمار ہسپتالوں میں کام کر کے اور ایک ہی طرز کا بیانیہ سن کر ایسا لگتا ہے کہ ان سب شکایات کی جڑ ایک ہی سوچ ہے۔ وہ سوچ جس کے مطابق ماہواری کا خون گندا ہے اور اس کا اخراج عورت کی صحت کے لیے لازم۔ چلیے اس حد تک ہم یہ بات مانے لیتے ہیں کہ ماہواری مہینے کے مہینے باقاعدگی سے آنا ہی صحت ہے لیکن اس کے علاوہ باقی باتیں ہمارے پلے نہیں پڑتیں۔

ماہواری کا خون پر نالے کی مانند بہنا چاہیے۔
ماہواری لازمی سات دن آنی چاہیے۔
ماہواری کھل کر آنی چاہیے۔
ماہواری کا خون گندا ہوتا ہے جو جسم سے نکل جانا چاہیے۔
یہ سب وہ فرضی خیالات ہیں جن کی بنیاد سائنس پر نہیں، توہمات پر رکھی گئی ہے۔

بات صرف اتنی ہے کہ ماہواری کا نظام ہر عورت کے لیے ویسے ہی مخصوص ہے جیسے اس کی ناک، ہونٹ اور آنکھیں۔ آٹھ دس خواتین کو اکٹھے بیٹھا دیکھ لیجیے کسی کا چہرہ دوسری سے مشابہ نہیں ہو گا۔

اس کا سائنسی پہلو یہ ہے کہ ہر انسان کے جسم کے بنیادی اعضا ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن ان اعضا کی ساخت ان کے جسم کے لحاظ سے مخصوص اور ان کی اپنی ہوتی ہے۔ ایک گھر میں پیدا ہونے والوں کے نین نقش پر یہی فارمولا لاگو آتا ہے اور اس فارمولے کو جسم کے اندرونی نظام پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ ہر عورت کے جسم کا اپنا نظام اور اس کے مطابق اس کی ماہواری ترتیب دی گئی ہے۔

لیکن ماہواری کے کچھ اپنے اصول ہیں جن کا ہر عورت کو علم ہونا چاہیے۔

پہلا اصول یہ ہے کہ ماہواری مہینے کے مہینے آنی چاہیے۔ وقت پر آنے کا مسئلہ بھی سمجھ لیجیے کہ اگر ہر ماہواری کا پہلا دن بائیس دن سے پینتیس دن کے ٹائم فریم کے اندر ہے تو یقین کر لیجیے کہ آپ صحت مند ہیں۔ اس ٹائم فریم سے نکلنے پر آپ کو تشویش ہونی چاہیے۔

کھل کر خون آنا بڑی بوڑھیوں کی بنائی ہوئی وہ کہانیاں ہیں جو سینہ بہ سینہ چلتی آتی ہیں اور انہیں مستند بھی مانا جاتا ہے۔ زیادہ خون آنا ہر گز صحت کی نشانی نہیں بلکہ اس سے خواتین خون کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ اتنا خون بنتا نہیں، جتنا نکل جاتا ہے۔ مزاج میں چڑچڑا پن اور تھکاوٹ خون کی کمی کی علامات ہیں۔ اوسطا ایک مہینے کی ماہواری میں اسی ملی لیٹر خون نکلتا ہے۔ ایک چھوٹے جوس کے ڈبے میں دو سو پچیس ملی لیٹر جوس ہوتا ہے۔ اس کا تیسرا حصہ ماپ لیجیے، اتنی ہونی چاہیے ماہواری، اس سے زیادہ ہر گز نہیں۔

ماہواری کا خون ہر گز گندا نہیں ہوتا۔ ہمیں تو لفظ گندا سن کر ایسا لگتا ہے کہ کہیں گندا نالہ بہہ رہا ہے اور گندے نالی کی صفائی ہونی ضروری ہے۔ عورت کو کمتر ثابت کرنے کے لیے ایسی بہت سی اصطلاحات موجود ہیں۔

ماہواری کا خون وہی خون ہے جو شریانوں اور دل سے ہوتا ہوا بچے دانی تک پہنچتا ہے۔ یہ وہی خون ہے جس پہ پیٹ میں بچہ پلتا ہے اور یہی خون بچے کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ اب خود ہی فیصلہ کر لیجیے کہ آپ کا نور نظر، لخت جگر صاف خون سے بنا ہے یا گندے خون سے۔

ماہواری کا خون اندر کہیں جمع نہیں ہو سکتا۔ بچے دانی الٹی ناشپاتی کی طرح ویجائنا میں لٹکی ہوتی ہے۔ بچے دانی سے خون ہر حال میں نیچے کی طرف بہتا ہوا باہر ہی آئے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ بچے دانی کو یہ خون اپنے اندر روک کر رکھنے میں قطعی دل چسپی نہیں۔ اس کا کام ہے ہر ماہ اس خون کو باہر پھینک کر اگلے مہینے کی تیاری کرنا۔ بچے دانی فطرت کے اس انتظام سے روگردانی نہیں کر سکتی۔

ماہواری کے نظام میں بگڑنے کا ہر مسئلہ ہارمونز سے جڑا ہے۔ جب بھی ہارمونز میں اتھل پتھل ہو گی، ماہواری آپ کو بتائے گی کہ کہیں کچھ گڑ بڑ ہے۔

ماہواری کے دوران اور زچگی کے فوراً بعد نہانے دھونے کی قطعی ممانعت نہیں بلکہ کئی ہسپتالوں میں بچہ پیدا ہونے کے بعد زچہ کو نہلوانے کا خاص انتظام کیا جاتا ہے۔ ماہواری کے دوران روزانہ نہانا صحت مند ماہواری کی ضمانت ہے۔

جان لیجیے کہ ماہواری محض ایک اشارہ ہے تولیدی نظام اور اس کی صحت کو سمجھنے اور پرکھنے کا، اور اشاروں کی یہ زبان جاننا اور سمجھنا ہر عورت کی بقا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments