ترازو کا نام سنتے ہیں اکثر بے چینی سی ہوتی ہے کیونکہ ترازو میں وہ صورت اور امید نظر نہیں آتی جو ریاست، قوم، معاشرے کے وقار اور عزت کے لئے ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ترازو کو مدتوں سے کسی نے ہاتھ نہیں لگایا اور اس سے وہ بدبو دار کیڑے نمودار ہو رہے ہیں۔ یہ نیچر کا قاعدہ ہے جب پانی ایک جگہ کھڑا رہے تو آہستہ آہستہ اس میں بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے، انسانی جسم مردہ اور لاوارث ہو جائے تو وہ بھی بدبو چھوڑنا شروع کر دیتا ہے۔ لاوارث جسم کی تصویر دیکھنی ہو تو آتے جاتے سڑک کے کنارے نشئی اور بھیک مانگنے والوں کو دیکھ لیں۔ ان کے جسم پر مکھیاں آوازیں کس رہی ہوتی ہیں بد بو نے ڈیرے جمائے ہوتے ہیں۔

کوئی ان کی طرف نگاہ کرنا پسند نہیں کرتا، اس کی وجہ وہ لاوارث اور مردہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ بالکل یہی صورت حال آج کل ہماری عدالتوں کے باہر لگے ترازو جو مدتوں سے لاوارث پڑے ہیں اب ان کے ہاں بھی وہی صورتحال نظر آ رہی ہے۔ کیونکہ اس کو بھی پوچھنے والا کوئی نہیں اور اس ( نشئی اور بھیک مانگنے ) کو بھی نہیں۔

نتیجہ دونوں کا ایک جیسا ہی ہے صبح سے لے کر شام تک، جنوری سے لے کر دسمبر تک مسلسل سڑک کنارے بیٹھا لاوارث ترازو جو صرف اپنا ظاہری جسم لے کر بیٹھا ہے مگر اس کی اندرونی بات جاننے کے لیے اور سننے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ گہرائی کی آواز کوئی سننے کو تیار نہیں لوگ اسے مسلسل اگنور کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ ترازو کے آگے اور پیچھے لگا ہوا ہے۔ آواز تو بلند کرتا ہے آتے، جاتے صبح، شام جنوری سے دسمبر تک اپنی صدا بلند کرنے کی کوشش کر رہا تھا مگر لوگ اس پر توجہ مرکوز نہیں کرتے۔ اس صورتحال کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے، یعنی ترازو لا وارث ہو کر رہ گیا ہے اس کی صدا کو ہمیشہ کے لئے فراموش کر کے بے ضمیری کا لبادہ اوڑھ لیا گیا ہے۔ بطور ثبوت،

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 25 اپریل 2022، ایک کیس میں ریمارکس کرتے ہوئے کہا:
” پاکستان میں انصاف بڑی بولی دینے والے کے لئے بک رہا ہے۔“

اس بے ضمیری کا اثر معاشرے کی ایک ایک گلی، ایک ایک فرد پر مفصل اثر انداز ہو کر ریاست میں موجود اشرافیہ، جاگیرداری، لاقانونیت اور نا انصافی کو فروغ دے رہا ہے۔ اس بے ضمیری اور لاوارث ترازو ہونے کا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ سویڈن کی عدالت صرف آٹھ گھنٹے کام کر کے دنیا کے پہلے نمبر پر ہے مگر ہماری عدالتوں کے بقول 24 گھنٹے کام کرتے ہیں پھر بھی دنیا کے 128 نمبر پر ہے۔ یہ ترازو کو لاوارث کرنے کا ردعمل ہے، اس ترازو کو رشتہ داری، بدعنوانی، ذاتی مفاد پرستی، جھوٹوں اور اشرافیہ کی چاپلوسی کرنے کی نظر ہو چکا ہے۔

عام آدمی جس پر ایف آئی آر درج ہو وہ سرکاری نوکری کے اہل نہیں ہے مگر جن پر مقدمات کے ڈھیر، بے گناہوں کا خون لگا ہوا ہے وہ برسراقتدار آ کر دوسروں کو بیوقوف بنانے میں مگن ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ماضی میں نعرے اور دعوے کرتے تھے کہ میں نے ان کو لاڑکانہ کی سڑکوں پر نہ گھسیٹا تو میرا نام بدل دینا۔ جب پٹرول گیس بجلی مہنگی ہو تو سمجھ جاؤ حکمران چور ہے۔ آج ایک میز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی تعریف کرنے میں مصروف عمل یہ سب کچھ رشتہ داری، جاگیرداری کا بول بالا بلند کیے ہوئے ہیں۔

کیوں کہ اس وقت ترازو لاوارث ہے۔ اگر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے ہمیشہ سے کوچ باہر کے ممالک سے منگوایا جا سکتا ہے تو اس ترازو کو لاوارث ہونے سے بچانے کے لیے بھی چند سالوں کے لئے کوچ/ نگران باہر کے ممالک سے بلوائے جا سکتے ہیں۔ بڑی بڑی ڈگری اور تعلیم حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے تعلیم کے ساتھ تربیت کا ہونا بے حد ضروری ہے ورنہ بیکار ہے۔ اگر لندن، برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک میں دیگر مذاہب سے اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے میئر بن سکتے ہیں تو یہاں کس بات کی پابندی ہے۔ جس کے کان ہوں وہ سن لیں، جس کی آنکھ ہے وہ دیکھ لیں۔