بہتان کی سیاسی فصل اور ہم


بہتان، دشنام، غداری اور سازش کے جس بیانیے کو اس وقت وطن عزیز میں مقبولیت حاصل ہے، کیا اس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے؟

سادہ ذہن شاید اس کا جواب ہاں میں دے مگر سچ یہ ہے کہ نفرت، بہتان اور حقائق کی توڑ مروڑ پر مبنی موجودہ بیانئے کا تعلق عمران خان سے صرف اتنا ہے جتنا تھریشر کے فصل کاٹنے سے ہوتا۔ ورنہ نفرت اور سازش کی یہ فصل بونے والے، اس کی نشوونما کرنے والے، سال ہا سال اس کی حفاظت کرنے والے کردار اصل میں کوئی اور تھے۔

اگر ہم پاکستانی سماج میں پیدا ہونے والی ڈیموگرافک تبدیلی کو دیکھیں تو نوے کی دہائی سے مڈل کلاس ایک سیاسی حقیقت کے طور پر سامنے آئی۔ اس سے پہلے زمین دار یا سرمایہ دار طبقہ ہوا کرتا تھا، یا پھر محنت مزدوری کرنے والا ہاری، کسان یا ملازمت پیشہ سفید پوش۔

وہ لوگ جو ستر کی دہائی میں بیرون ملک پیسہ کمانے گئے بنیادی طور پر پڑھے لکھے یا سکلڈ پروفیشنل نہیں تھے اس لئے ان کے ہاں آنے والی دولت نے ان کی سوچ اور سماجی اقدار میں کوئی خاص تبدیلی پیدا نہیں کی۔ معاشی حوالے سے ان کی آمدن انہیں مڈل کلاس میں تو شامل کرتی ہے مگر سیاسی اور سماجی حوالے سے وہ تب تک غریب ہی تصور کیے جائیں گے جب تک اکانوے کی معاشی اصطلاحات کے بعد پرائیویٹ سیکٹر نے بزنس، کامرس، بنکنگ، اور دیگر شعبوں میں لوگوں کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا نہیں کیے ۔

کارپوریٹ کلچر تبھی سے ملک میں متعارف ہوا جس سے تعلق رکھنے والے نوجوان تعلیم یافتہ، انگریزی زبان اور کلچر سے پوری طرح آگاہ تھے۔ یہ طبقہ بٹوارے سے پہلے کی اس اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتا تھا جسے برطانوی راج میں حکمران طبقے کی قربت حاصل تھی مگر اپنی رکھ رکھاؤ، یا کلچر کے اعتبار سے یہ کسی طرح زمین زادے یا سن آف دی سوئل بھی نہیں تھے۔ اسی کے اختتام اور نوے کی دہائی کا یہی وہ زمانہ تھا جب پنجاب میں پنجابی زبان کو باعث شرم مانتے ہوئے بچوں کو اردو کی جانب راغب کیا گیا۔

گلی گلی انگریزی میڈیم سکول کھلے اور ایک ایسا کلچر پیدا ہوا جس کی کوئی اصل، کوئی داخلی شناخت نہیں تھی۔ اسی زمانے میں پڑھے لکھے لوگوں سے متعلق یہ افواہ بھی بہت گرم تھی کہ سیاست شریف آدمی کے کرنے کا کام نہیں اور یہ ایک غلیظ، ناپسندیدہ کاروبار ہے۔ لوگ فخر سے بتاتے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کو ووٹ نہیں دیتے اور یہ کہ سیاستدان نا صرف نکمے، بلکہ بددیانت اور مالی معاملات میں بے ایمان بھی ہیں۔

جب مشرف نے آئین توڑ کر ملک پر قبضہ کیا تو اسی اور نوے کی دہائی کی بابو نسل کے بچے یعنی جنریشن ایم نے ایک ایسے پاکستان میں آنکھ کھولی جس میں سیاستدانوں کو گالی دینا فیشن تھا، کرپشن کی ایسی کہانیاں مقبول تھیں جن کے اعداد و شمار ملکی معیشت کے بنیادی اشاریوں سے میل ہی نہیں کھاتے تھے۔ مثال کے طور پر مشہور تھا کہ سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کا سینکڑوں ارب ڈالر رکھا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ملکی معیشت کا سائز اس قدر چھوٹا تھا کہ اٹھاسی سے ننانوے کے دس سالوں میں سینکڑوں ارب ڈالر کی کرپشن ممکن ہی نہیں تھی۔

جس نسل نے مشرف کے زمانے میں آنکھ کھولی ان کے نزدیک منتخب سیاسی قیادت کرپٹ تھی، نا اہل تھی، بددیانت تھی، بدنیت تھی۔ یہ وہ پراپیگنڈا تھا جو جنرل ضیاء کے جانے کے بعد پورے زور و شور سے شروع ہوا اور دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اس کی مقبولیت میں بھرپور حصہ لیا۔ دونوں نے بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے پر ایسے الزامات لگائے جنہوں نے دونوں کی کریڈیبلٹی کو ختم کر دیا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب کیبل ٹی وی، پرائیویٹ نیوز چینلز اور انٹرنیٹ نے مقبولیت اور رسائی حاصل کی۔ نئی نسل کو بہت جلد موبائل فون اور پھر انٹرنیٹ میسر آیا جس کے بعد کا سیاسی ماحول اس حقیقت کی وجہ بنا جسے عمران خان کی سیاست نے اقتدار تک پہنچنے کے لئے استعمال کیا۔

دو ہزار گیارہ کے مینار پاکستان جلسے میں جب عمران خان نے مشرف کے غلط فیصلوں کا پورا ملبہ سیاسی قیادت پر ڈالا اور پینتیس سالہ حکمرانی جیسا واقعاتی جھوٹ بولا، کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر عجیب و غریب فلسفے پیش کیے ، ایمانداری کو وزارت عظمی کی بنیادی شرط قرار دیا، اوپر سے نیچے، ٹریکل ڈاؤن کی ایسی سائنس سمجھائی جس کا انسانی تجربے اور تحقیق سے کوئی واسطہ نہیں تھا، سٹیٹس کو کے خاتمے اور تبدیلی کی بانسری بجائی تو نئی نسل کے لئے یہ سب کچھ ماننا بہت ہی آسان اور عین فطری تھا۔

اکیسویں صدی کی پہلی دہائی سے پہلے اور بعد کے پاکستان کا جوہری فرق انٹرنیٹ اور سوشل میڈیائی حقیقت ہے۔ اخبار اور سرکاری ٹی وی کے زمانے میں بولے جانے والے جھوٹ کو پوری قوم جھوٹ مانتی تھی۔ لوگوں کو اکہتر کے سانحے کے بعد علم تھا کہ ذرائع ابلاغ کے یہ دونوں ذریعے قابل بھروسا نہیں۔ تب تک اخبارات میں متبادل رائے بھی پڑھنے کو مل جاتی تھی مگر پرائیویٹ چینلز اور سوشل میڈیا نے ابلاغ کے پورے لینڈ سکیپ کو بدل دیا۔ تصویر اور ویڈیو کی طاقت کے سامنے کسی اور زاویے یا سچائی کا ٹھرنا ممکن نہیں تھا۔

جس طبقے نے میڈیا کے اس دور میں سب سے زیادہ اثر قبول کیا وہ شہری علاقوں کی مڈل کلاس تھی۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنی قابلیت اور تعلیم کی بنیاد پر معاشرے میں نام ایک مقام بنایا اور نوے کی دہائی تک ان کے ہاں سیاست کو گند سمجھا جاتا تھا۔ اب ان کے وہ بدلتی سیاسی حقیقتوں کے ایک سٹیک ہولڈر تھے۔ ان کے پاس انڈرائیڈ فون کی طاقت تھی، زبان اور بیان پر مہارت اور ان کے سیاسی خیالات خواہ جتنے بھی کچے پکے ہوں مگر ان کے پاس اپنے خیالات کے اظہار کا ایک موثر پلیٹ فارم تھا، یعنی سوشل میڈیا۔

عمران خان کی سیاسی اپیل اسی طبقے کے لئے تھی اور اسی نے عمران کے عجیب و غریب نظریات پر لبیک کہا۔ چونکہ معاشی اعتبار سے اس طبقے کو ڈیڑھ سو یا تین سو روپے لیٹر پیٹرول خریدنے میں کوئی مشکل نہیں، یہ میک ڈانلڈ سے چھ سات سو میں ایک وقت کا کھانا آسانی سے افورڈ کر سکتے۔ انہیں آلو، بینگن، آٹے دال کی قیمتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس لئے ایک طرف وہ لوگ جنہیں سوشل میڈیا پر گلیمرس فریم ورک کے اندر اپنا آپ دکھانا نہیں آتا، جن کے پاس زبان اور اظہار کے وہ فینسی طریقے موجود نہیں اور دوسری طرف یہ مڈل کلاس۔

عمران خان کے لئے اس طبقے کی محبت کو سمجھنا اس پورے پس منظر میں چنداں مشکل نہیں۔ اپنی انگریزی دانی اور اسی انگریزی کی مدد سے انگریزوں پر تنقید، مگر انہی انگریزوں کی روایات پر داد دینے جیسے کئی تضادات کو صرف یہی طبقہ ہضم کر سکتا تھا اور کر رہا ہے۔ جس طرح عمران خان کی سیاست تضادات اور جھوٹ سچ پر مبنی عجیب و غریب نظریات کا مجموعہ ہے ویسے ہی خیالات اس طبقے کے بھی ہیں۔ مثال کے طور پر تبدیلی کی لولی پاپ میں انہی کو سب سے زیادہ دلچسپی ہے۔

جب ان سے پوچھا جائے کہ بیس سال پہلے آپ کے گھر کی ماہانہ آمدن کیا تھی اور آج وہ سات ہزار ماہانہ سے ڈھائی لاکھ تک کیسے پہنچ گئی اگر تبدیلی نہیں ہوئی، اگر صرف کرپشن ہی ہوئی، اگر سب کچھ سیاستدان لوٹ کر کھا گئے، اگر یہ سچ ہے تو یاماہا موٹر سائیکل سے گیراج میں کھڑی دو دو ، تین تین گاڑیاں کہاں سے آئیں؟ ان کو افورڈ کرنے کی رقم کہاں سے آئی؟

سیاست میں ہمیشہ جماعت یا ہمارے جیسے ممالک میں لیڈر کانسٹی ٹواینسی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ حلقہ انتخاب ہو مگر لیڈر نا ہو، نمائندہ نا ہو۔ پاکستان کی سیاست میں احمقانہ نظریات رکھنے والا طبقہ موجود ہے، اس طبقے کے پاس سہولتیں، پیسہ اور اظہار کی طاقت موجود ہے، انہیں اپنے متضاد اور غیر منطقی رویوں اور خیالات کی نمائندگی کے لئے ایک نمائندہ چاہیے اور عمران خان ان کی فطری چوائس ہے۔ جب تک یہ مائنڈ سیٹ موجود ہے جسے سول اور ملٹری مقتدرہ نے پنپنے، گرو کرنے، مضبوط ہونے کا موقع دیا، تب تک عمران خان یا ایسے لیڈروں کی سیاست زندہ رہے گی۔ اگر ہم مستقبل میں کسی نازی پارٹی یا انداز سیاست کو حقیقت بننے سے روکنا چاہتے ہیں تو ہمیں وہ کانسٹی ٹواینسی، وہ حلقہ انتخاب ختم کرنا ہو گا جسے نازی نقطہ نظر کا لیڈر درکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments