بلاول بھٹو زرداری کو وزیرِ خارجہ کیوں بننا چاہئیے تھا


میرا شروع سے اس بات پر اصرار رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری صاحب کو وزیر اعظم میاں شہباز شریف صاحب کی کابینہ میں شامل بھی ہونا چاہیے اور بطور وزیر خارجہ ہی شامل ہونا چائے۔ میری نظر میں اس کی متعدد وجوہات ہیں۔

سب سے پہلے تو یہ کہ جب پاکستان پیپلز پارٹی نے عدم اعتماد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کے ہٹانے میں اپنا ممکن حد تک کردار ادا کیا ہے اور پیپلز پارٹی اس کا کریڈٹ بھی لے رہی ہے تو اب اسے چاہیے کہ حکومت بننے کے بعد ذمہ داری بھی شیئر کرے۔ اب جو پیپلز پارٹی حکومتی اتحاد کا حصہ بنی ہے تو پھر اسے چاہیے کہ سامنے آ کر براہ راست ذمہ داری بھی لے۔ اس حوالے سے چیرمین بلاول بھٹو زرداری کو خود سامنے آنا چاہیے۔

دوسرا جیسے کہ پچھلے پنج سالے میں تحریک انصاف کے احباب کو مشورہ دیا جاتا تھا کہ 2013 سے 2018 تک والے مسلم لیگ نون لیگ کے دور میں تحریک انصاف کے منتخب لوگ پارلیمنٹ اور بالخصوص اس کی مختلف ذیلی کمیٹیوں کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیں۔ یہ الگ بات کہ تحریک انصاف نے ایسے مشوروں کو در خور اعتناء نہ سمجھا اور اس بات پر کہ ہم چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے، پارلیمانی کارروائیوں سے دور رہ کر سرا سر اپنا ہی نقصان کیا۔

اگر وہ اس وقت پارلیمانی پراسس میں شامل رہتے اور پارلیمان اور اس کی کمیٹیوں کی کارروائی میں حصہ لیتے تو انہیں پتہ چلتا معاملات حکومت و سیاست کیسے چلتے ہوتے ہیں، مسائل اصل میں ہیں کیا اور ان مسائل کے حل کی باتیں کیا ہو رہی ہیں۔ اس طرح سے ایک اچھی لرننگ ہوتی ان کی۔ اور جب وہ 2018 میں حکومت میں آئے تھے تو سب کچھ ان کے لیے ایک سرپرائز نہ ہوتا۔ انہیں پہلے سے ہی بہت سے معاملات سے قریبی شناسائی ہوتی، مسائل اور ان کی سنگینی کی سوجھ بوجھ ہوتی اور اس طرح وہ کسی حد تک تجربہ حاصل کر چکے ہوتے جو ان کے بہت کام آتا۔

ایسے ہی بلاول صاحب نے اب جب سیاست کو اپنے لیے ایک کل وقتی پروفیشن چن ہی لیا ہے تو اب انہیں مسلسل سیکھنا چاہیے۔ اب انہیں بطور وزیر خارجہ اور کابینہ کے ایک کلیدی وزیر کی حیثیت سے کابینہ کی ساری کارروائیوں کا حصہ بن کے چیزوں کو اندر سے دیکھنے، سمجھنے اور سیکھنے کا موقع میسر آئے گا۔ انہیں پتہ چلے گا کہ معاملات حکومت و سلطنت اصل میں چلتے کیسے ہیں۔ ملک کو درپیش اصل مسائل اور چیلنج ہیں کیا اور ان کی سنگینی کیا ہے۔

اور بالخصوص بطور وزیر خارجہ انہیں یہ دیکھنے، سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا کہ ملکوں کے درمیان ڈپلومیٹک ریلیشن کیسے استوار ہوتے ہیں اور کیسے انہیں قائم رکھا جاتا ہے اور مضبوط کیا جاتا ہے، ڈپلومیسی کیسے کام کرتی ہے، الفاظ کا چناؤ کتنا اہم ہے ، لفاظی کیسے برتتے ہیں اور سیاسی نعروں سے ہٹ کر ملکوں کے درمیان معاملات اصل میں کس قدر سیاسی مہارت اور باریک بینی سے چلائے جاتے ہیں۔ اس لئے میری نظر میں تو بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی کا بلاول صاحب کو بطور وزیر خارجہ شہباز شریف صاحب کی کابینہ کا حصہ بنانا ایک بہتر اور قابل فہم سیاسی فیصلہ ہے۔

جہاں تک مخالف سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا تعلق ہے تو یہ تو انتہائی سطحی باتیں ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کو مسلم لیگ نون کی میاں شہباز شریف کی سربراہی میں بننے والی کابینہ میں بطور وزیر شامل نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اور اس سے پیپلز پارٹی کا نظریہ ختم ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

بھئی سیاسی مخالفین تو تنقید کریں گے ہی اور یہ ان کا سیاسی حق ہے۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو میں نہیں سمجھتا کہ جو لوگ پیپلز پارٹی کو بطور سیاسی جماعت سپورٹ کرتے ہیں وہ کبھی بھی پیپلز پارٹی کو محض اس لیے سپورٹ کریں گے کہ پیپلز پارٹی اینٹی مسلم لیگ نون سیاست کرے، میاں برادران کے خلاف نعرے لگائے اور ضیاء الحق کو ہر وقت مطعون کرتی رہے۔ بلکہ میرے خیال میں پیپلز پارٹی کو جو لوگ سپورٹ کرتے ہیں انہیں پیپلز پارٹی اس لیے بہتر لگتی ہے کہ پیپلز پارٹی ایک قدرے ماڈریٹ اور لبرل جماعت ہے، جو جمہوریت پسند ہے، جو پارلیمان کی سپر میسی کی بات ہی نہیں کرتی بلکہ اپنے اقدامات سے ثابت بھی کرتی ہے کہ وہ اس پر یقین رکھتی ہے، جو معاشرے کے پسے ہوئے طبقات خواتین، اقلیتوں اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کی بات ہی نہیں کرتی ہے بلکہ انہیں قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانون سازی بھی کرتی ہے اور جو باقی سیاسی جماعتوں سے زیادہ آئین اور صوبائی خود مختاری کو عزیز رکھنے والی سیاسی جماعت ہے۔ تو جب پیپلز پارٹی کو پسند کرنے کی وجوہات یہ ہیں تو پھر پیپلز پارٹی کے سپورٹران کے نظریے کو بلاول بھٹو کے شہباز شریف صاحب کی کابینہ میں شامل ہونے سے کہاں ٹھیس پہنچی ہے؟

کرنے کی بحث یہ نہیں تھی کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں بلاول صاحب کو وزارت لینی چاہیے یا نہیں۔ بلکہ پارٹی کے اکابرین اور سپورٹران کو سوچ بچار تو یہ کرنا تھی کہ چونکہ آنے والے دن سیاسی طور پر ہنگامہ خیز ثابت ہونے جا رہے ہیں تو آیا کہ ان حالات میں چیرمین پارٹی کو وزارت کی ذمہ داری لینی چاہیے یا اس کے بجائے پارٹی کے لیے ہر وقت موجود ہونا چاہیے۔ تو فیصلہ یہی کیا گیا ہو گا کہ پارٹی معاملات کو شریک چیرمین اور سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی دیکھتے رہیں گے اور چیرمین کو پارٹی کے تنظیمی امور پر مدد فراہم کرتے رہیں گے۔ یہ ہیں وہ کچھ وجوہات جن کی بنا پر میری رائے میں بلاول بھٹو زرداری کا بطور وزیر خارجہ شہباز شریف صاحب کی کابینہ میں شامل ہونا پیپلز پارٹی کا ایک بہتر سیاسی فیصلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments