کہاں گئے محمود و ایاز


محمود و ایاز کا ایک ہی صف میں کھڑا ہو جانا تو ہم غالباً ایک صدی سے سنتے آئے ہیں اور یہ راگ الاپتے بھی۔ سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا ایک صف میں کھڑا ہو جانا محض اتفاق ہے یا کچھ اور؟ لیکن ساتھ ہی دل و دماغ کی طرف سے گواہی آتی ہے کہ علامہ اقبال علیہ رحمہ کے تو ہر ہر مصرعے میں فلسفہ پنہاں ہے تو جہاں فلسفہ ہو وہاں محض اتفاق کیسے ہو سکتا ہے۔ تب سمجھ میں آتا ہے کہ محمود و ایاز کو بطور استعارہ علامہ نے استعمال کرتے ہوئے درحقیقت ہمیں مساوات کا فلسفہ سمجھانے کی کوشش کی ہے جس کا ادراک اگر ابتدائے انسانیت کے ساتھ ہی ہو گیا ہوتا تو شاید اس زمین کو پہلے قتل کا بوجھ برداشت نہ کرنا پڑتا۔ شخصی کردار کا حسین اور اہم جزو ہونے کے ساتھ ساتھ یہ وہ آئینہ بھی ہے جو انسان کے بیشتر عیوب و نقائص کو ڈھانپ کر اس کی خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔ لفظ تو صرف ایک ہے لیکن اگر سمجھ میں آ جائے تو معاشرے کی موجودہ شکل مکمل طور پر تبدیل ہو سکتی ہے اور بڑی حد تک بہتر بھی۔

مساوات کا بنیادی مطلب ہے برابری لیکن اس کی عدم موجودگی ہی شاید موجودہ معاشرتی تناؤ کا سب سے بڑا سبب ہے۔ تاریخی حوالے سے اگر بات کی جائے تو جس عمدگی سے اسلامی تعلیمات میں مساوات کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے وہ کہیں اور نظر نہیں آتا جس کی واضح مثال خطبہ حجة الوداع ہے کہ جس میں ہمیں مساوات کا ایک ایک پہلو واضح نظر آتا ہے اور اگر سیرت نبوی کے آئینے میں دیکھنا ہو تو صفہ کی درسگاہ پر بلا امتیاز بیٹھے اور ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے علم حاصل کرتے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو دیکھ لیا جائے یا پھر اس منظر پر نظریں جما لی جائیں کہ دوران سفر سواری ایک ہے، سوار دو ہیں، لیکن سفر ایسے طے ہوتا ہے کہ آدھا راستہ آقا و سردار سواری کرتا ہوا جاتا ہے تو بقیہ آدھا سفر غلام کو کہا جاتا ہے کہ تم سوار ہو جاؤ اور میں تمہاری سواری کی لگام تھامے چلا آ رہا ہوں۔

آج کون سا معاشرہ ایسا ہے جو اس منظر کو دوبارہ ہماری آنکھوں کے سامنے لا سکے۔ یہ فہم تو ہمیں اسلام نے دیا تھا اور اس وقت دیا تھا جب برابری کی سوچ نے بھی اپنے چہرے کو سات پردوں سے ڈھانپ رکھا تھا۔ یہ درس ہمیں تب دیا گیا کہ جب عورت کی توقیر کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے۔ اسلام نے تو آتے ہی معاشرے کے ہر ہر فرد کو حقیقی معنوں میں عزت بھی دی اور باہمی تفرقات بھی مٹا دیے لیکن آج ہم نے پھر سے معاشرے میں باہمی انتشار کے بت تراشنا شروع کر دیے ہیں جو ہمیں زوال کی طرف دھکیلتے ہوئے تباہی کے دہانے تک لے آئے ہیں اور اب لمحہ فکریہ ہے۔

نفسیاتی طور پر اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس چیز کا اثر کسی شخصیت کے کردار پر دیر پا ہوتا ہے جس کو ہم عملی طور پر کسی کے سامنے کر کے دکھاتے ہیں اور اس میں بھی اگر عمدہ اخلاق کا عنصر غالب ہو تو نتائج بہتر سے بہترین ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک شخصیت کا قول ہے کہ ”لوگ کانوں سے نہیں بلکہ آنکھوں سے بنتے ہیں۔“ تاریخ ہند میں تبلیغ اسلام بھی اس بات کی شاہد ہے کہ یہاں خانقاہوں پر آنے والوں سے ان کا مذہب یا دھرم نہیں پوچھا جاتا تھا بلکہ ایک ہی دسترخوان ہوا کرتا تھا جس پر برہمن بھی بیٹھا ہے اور شودر بھی۔

اس حسین برابری کے تصور نے اسلام کی تبلیغ میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور یہی وجہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ان خانقاہ نشینوں کی تعلیمات بڑی کارگر ثابت ہوئیں اور لوگ تیزی سے دائرہ اسلام میں آتے گئے۔ یہاں سے ایک اور بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ تلواروں کے زور سے ظاہری بادشاہتیں تو قائم ہو جاتی ہیں لیکن دلوں پر حکومت کرنے کے لئے تلواروں کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ اس کے اور ضابطے ہوا کرتے ہیں، دلوں کی حکومت جب قائم ہو جائے تو پھر وہ زوال آشنا نہیں ہوتی۔

برطانوی راج کے خلاف تحریک آزادیٴ ہند کی ایک سرگرم کارکن ”سروجنی نائیڈو“ کہتی ہیں کہ میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ”اسلام ایسا واحد مذہب ہے جو مساوات کو فلسفیانہ بحث سے نکال کر نماز کی صفوں میں لا کھڑا کرتا ہے اور پھر اسے احرام کی چادریں پہنا کر عالمگیر بنا دیتا ہے۔“ بلاشبہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دن میں پانچ مرتبہ ایک ہی جگہ پر ایک ہی وقت پر پہنچ کر ایک ہی صف میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو جانا اور پھر ایک ساتھ قادر مطلق کے سامنے جھکنا اور سر زمین پر رکھ کر گویا اس قدر عاجزی کا یہ منظر ہے کہ باہمی تفریق کا پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تیزی سے جدیدیت کی طرف بڑھتے اس معاشرے میں ہمیں بہت سے ایسے نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں جو برابری کا تصور دیتے ہیں، کارل مارکس کا نظریہ اشتراکیت بھی اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔

بنیادی طور پر جس چیز کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے وہ یہ کہ ہمیں تو صدیوں پہلے سرمایہ دارانہ نظام سے بچنے اور برابری کے درس کو فروغ دینے کا حکم دیا گیا۔ وہ تو ہم ہی تھے جنہوں نے ان تعلیمات کو فراموش کیا ورنہ جو ضوابط ہمیں پہلے دن دیے جا چکے تھے وہ ایک کامیاب قوم بننے کے لئے انتہائی اہم تھے۔ ہم نے ان کو چھوڑ کر دیگر ذرائع ڈھونڈنے کی کوشش کی اور غلامانہ سوچ نے اغیار کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا۔ جن کے کردار سے صداقت کی مہک آتی تھی اور جن کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جایا کرتے تھے انہوں نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

مگر قصوروار تو پھر بھی ہمیں ٹھہرتے ہیں نا جنہوں نے اسلاف کی بھی نہ مانی اور ان تعلیمات کو بھی بھلا دیا۔ ضرورت بس اسی بات کی ہے کہ ہمیں اپنے مرکز سے ربط قائم کرنا ہے کیونکہ وہاں سے ہمیں ایک مضبوط قوم بننے کے لئے تمام ضوابط بھی ملتے ہیں اور راہیں بھی سجھائی دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments