چندہ الیون بمقابلہ عوامی الیون


وطن عزیز میں جب بھی اقتدار کی راج کماری کا سوئمبر عوامی امپائرز کی سربراہی میں منعقد ہوا ہے چیمپین شپ ٹرافی ہمیشہ سیاسی راجکمار جیت لایا ہے۔ اگرچہ دستور کے مطابق ایسے مقابلے ہر پانچ سال کے بعد منعقد ہونے چاہیے لیکن کل مختار الیون کی دخل اندازی اور طالع آزمائی کی وجہ سے اس کے انعقاد کے لئے سیاسی راج کماروں کو اکثر کئی برسوں تک قید و بند اور دار و رسن کے سائے میں پر آزمائش انتظار کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں سیاست کے موسم میں جمہوریت کی فصل کاشت کرنے کے لئے سخت مشقت آزمائشوں اور سانحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دستور کے مطابق جمہوریت کی سرزمیں پر کاشت کردہ اقتدار کی فصل صرف عوام کی ہوتی ہے، جس میں کسی کا حصہ ہوتا ہے نہ اس کا بٹوارہ ممکن ہے، لیکن تاریخی اسطورہ میں بات کی جائے تو گندم کی فصل جونہی تیار ہو جائے، اسی لمحے تلوار پہنے کوئی احمد شاہ اپنے لشکر کے ساتھ اس میں سے اپنا خراج وصول کرنے آ جاتا ہے۔ لشکر کے پیروں تلے روند جانے کے بعد پھر سیاست کی کھیت میں عشروں تک فصل کی بجائے صرف کانٹے اور بھوک اگتی ہے۔ جمہوریت کی راج کماری بوڑھی ہو کر بننا سنورنا چھوڑ جاتی ہے اور تماشبین بھول جاتے ہیں کہ ان کی ٹیم عوامی الیون ہے، کل مختار الیون نہیں۔

اس دوران جمہوریت کی راج کماری کے سوئمبر کے لئے نہ صرف یہ کہ عوامی الیون کے کھلاڑیوں کے انتخاب میں میں گھس بیٹھیے داخل کر کے گڑبڑ کردی جاتی ہے بلکہ کھیل کے قوانین بھی کل مختار الیون کے حق میں تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔

جب سے قومی کھیلوں کا بندوبست کرنے والی کمیٹی نے اپنی تنظیمی صلاحیت، منصوبہ بندی میں مہارت اور بے پایاں وسائل کی بنیاد پر سیاسی ٹیم کو سیلیکٹ کرنے کی اختیارات حاصل کی ہیں، تب سے ہر ٹورنامنٹ میں کل مختار الیون کا پلڑا عوامی الیون کے مقابلے میں بھاری رہا ہے۔ جس کی وجہ سے کل مختار الیون کئی عشروں تک بلاشرکت غیرے قومی چیمپین رہی ہے۔ جبکہ کئی دفعہ رنر اپ ہونے کے باوجود عوامی الیون کی نا اہلی عدم اتفاق، ٹیم ورک کی عدم موجودگی اور عالمی اولمپکس کمیٹی کی مداخلت کی وجہ سے اکثر سبقت لیتی رہی ہے

چندہ الیون کی حالیہ جیت، ایک پول میں کھیلنے والی شریف الیون اور بھٹو الیون کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت کی سزا تھی۔ ان دونوں ٹیموں کے علاوہ، میثاق جمہوریت کی حمایت کی پاداش میں باقی چھوٹی ٹیموں کو بھی مقابلے سے باہر کیا گیا تھا۔ کیوں کہ میثاق جمہوریت لوکل اور عالمی سلیکشن کمیٹیوں کے ناجائز اختیارات کے خلاف ایک کھلم کھلا بغاوت تھی۔ جس کی وجہ سے عالمی سلیکشن کمیٹی کی شہ پر قومی سطح پر کھیلوں کا بندوبست کرنے والی پاؤر فل کمیٹی نے چندہ الیون کی نئی ٹیم چند آزمودہ کھلاڑیوں سمیت میدان میں اتاری۔

میثاق جمہوریت پر دستخط کرنے والی ایک ٹیم کی کپتان کھیل میں شامل تشدد کی نظر کر دی گئی اور دوسرا تاحیات نا اہل کرا کر نہ صرف کھیل سے باہر کیا گیا بلکہ جیل میں بھی ڈالا گیا۔ جیل سے سیلیکشن کمیٹی پر تنقید کرنے کی پاداش میں بعد میں اسے دوسری دفعہ جلا وطن کر دیا گیا۔ لیکن اس دفعہ جلاوطنی کے دوران خاموش رہنے کی بجائے اس نے اپنی ٹیم (جمہوریت) کی حمایت اور سلیکشن کمیٹی کے خلاف ہوٹنگ جاری رکھی۔ دوسری طرف بھٹو الیون کو ماضی کی روشنی میں اس بار باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، کیونکہ پہلے بھی دونوں ٹیموں نے جلاوطنی کے دوران میثاق جمہوریت کی شکل میں سیلیکشن کمیٹی کے خلاف اتحاد کر لیا تھا۔

کھلا میدان ملنے کے باوجود چندہ الیون کا نا اہل کپتان وکٹ، رنز فیلڈنگ یا لیڈرشپ میں اپنی صلاحیتیں دکھانے کی بجائے کمنٹری کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتا رہا، جس کی وجہ سے تماشبین بور ہو کر سیلیکشن کمیٹی پر حرف زنی کرنے لگے۔ سیلیکشن کمیٹی کی تشویش بڑھی تو کچھ ممبران نے اننگز ڈکلیئر کرنا مناسب سمجھا اور کچھ کھیل کو اگلے ٹورنامنٹ تک جاری رکھنا چاہتے تھے۔ آخر کار فیصلہ کیا گیا کہ چندہ الیون کی سپانسر شپ منسوخ کردی جائے تاکہ وہ بقایا میچ اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے بل پر کھیلے یوں ان پر عوامی تنقید کا کسی حد تک سد باب ہو جائے گا۔

لیکن بد انتظامی نا اہلی اور خبط عظمت کی بیماری میں مبتلا کپتان پہلی گیند کھیلتے ہوئے کلین بولڈ ہو گیا، لیکن پچ چھوڑنے کی بجائے اس نے ’کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے‘ کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے قومی اور عالمی سلیکشن کمیٹیوں سمیت مخالف ٹیموں پر سازش کرنے کا الزام لگا کر گراؤنڈ میں ہلا گلا کرنا شروع کیا۔

گراؤنڈ کی بدترین صورتحال کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی جلدی بھٹو الیون اور شریف الیون کو واپس آنے کا موقع دیا گیا؟ جن کے سامنے ایک طرف مالی معاشی اور انتظامی مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف تماشبین اچھے کھیل اور گراؤنڈ میں خوراک کے ارزاں نرخوں پر موجودگی کی توقع کیے بیٹھے ہیں۔ یوں ایک طرف کمبائنڈ الیون کو عالمی تماشائیوں کو مطمئن کرنے کے لیے بلاؤل بھٹو کی شکل میں نوجوان خوبصورت خوش اطوار جانا پہچانا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ، پوسٹر بوائے مل گیا ہے جس کو گزشتہ حکومت کے پھیلائے ہوئے عالمی ناراضگی کو دوستانہ اور اچھے تعلقات میں میں تبدیل کرنا ہو گا، تو دوسری طرف قومی سطح پر یہ انتخاب میثاق جمہوریت سے بھی کئی پڑاؤ آگے کے سفر کا سنگ میل بنے گا۔

کیونکہ جن کو صرف کاغذ پر موجود میثاق جمہوریت اپنے ساتھ غداری اور سنگین شکست لگ رہی تھی، آج بلاؤل کو کمبائنڈ الیون میں کھیلتے دیکھ کر اپنا واٹرلو لگ رہا ہو گا۔ مستقبل میں زرداری صدر اور شریف وزیراعظم ہوں تو آنے والے سوئمبر میں پانی پت کے میدان سے چندہ الیون کی لاش اٹھانے والا ڈھونڈنا پڑے گا۔ کیونکہ اگر میثاق جمہوریت سیاسی دانش کے تاج کا کوہ نور ہے تو جمہوریت بہترین انتقام۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments