شاری کی سرشاری اور خوں خواری


پاکستان جیسے ملک اور بلوچستان جیسے پسماندہ اور کیچ جیسے دور افتادہ علاقے میں رہنے والی خاتون کو اور کیا چاہیے۔ پڑھے لکھے، تہذیب یافتہ اور کامیاب والدین، باپ ایک بڑے ادارے میں ڈائریکٹر ہے۔ بھائی کالج میں لیکچرار، خود ایک سکول ٹیچر ایم فل کی طالبہ، شوہر دنیا میں سب سے معتبر سمجھے جانے والے شعبے سے وابستہ اور دو ننھے منے اور معصوم سے بچے۔ گھر میں تو کجا خاندان میں دور دور تک نہ کوئی لاپتہ فرد نہ کسی پر ریاستی ظلم ہوا ہے۔

یہ زندگی کروڑوں پاکستانیوں کے لیے قابل رشک اور لاکھوں کے لیے مثالی ہے۔ پھر شاری بلوچ نے کیا سوچ کر اپنی زندگی کے لہلہاتے ہوئے گلشن کو نذر آتش کر دیا۔ خود بھی نفرت کی آگ میں بھسم ہو گئی، شوہر کی باقی زندگی کو بھی جہنم بنا دیا، پھول سے نرم و نازک بچوں پر بھی عرصۂ حیات تنگ کر دیا اور ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بلوچ طلبہ و طالبات کے لیے بھی بے پناہ مشکلات کھڑی کر دیں۔

یہاں ان تجزیہ نگاروں، لکھاریوں اور کالم نگاروں کا ذکر بہت ضروری ہے جو شاری کے خود کش حملے کو بلوچستان کے احساس محرومی سے جوڑ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر شاری کے اقدام کو سند جواز عطا کرنے کے لیے عجیب و غریب اور غیر منطقی جواز گھڑے جار ہے ہیں۔ ایک پڑھی لکھی، خوشحال اور باشعور خاتون آخر کون سے جذبے کے زیر اثر اتنا بڑا اور ہولناک فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے؟ بی ایل اے کے ٹریننگ کیمپ میں جنگی وردی پہن کر اور اسلحہ ہاتھوں میں تھام کر جب وہ فدائی حملہ کرنے کا حلف دیتی ہے تو آخر اس کے سامنے کون سے اہداف تھے؟ ہمارے تعلیمی ادارے اس کو اپنے ارادے سے باز رکھنے میں کیونکر ناکام ہوئے؟

قوم پرستی کا جذبہ ہو، علاقائیت کا جنون ہو، مذہب و مسلک پرستی کا رجحان ہو، انتقام کی جلتی آگ ہو یا اپنی محرومیوں کا بدلا چکانے کا شدید میلان ہو; کیا اس طرح کی خوں ریزی، سفاکی اور فتنہ پروری کا جواز پیش کیا جاسکتا ہے؟ وہ بھی ایک اعلٰی تعلیم یافتہ خاتون کی طرف سے؟ شاری کی اندھی سرشاری نے کئی سال تک درس و تدریس کے نام پر نونہالان قوم کے نوزائیدہ اور نوخیز ذہنوں اور دلوں میں نفرت اور انتقام کی کیسی آگ بھڑکائی ہوگی؟ اہل مدرسہ کو پھر ایک حرف طعن مل گیا کہ اگر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سوتے مدرسوں کی گھٹن زدہ فضاوٴں سے پھوٹتے ہیں تو شاری کی خون خواری اور مارا ماری کس کھاتے میں ڈالی جائے گی، جس کی تعلیم و تربیت روشن خیالی اور فارغ البالی کے ماحول میں ہوئی تھی؟

اس واقعے کے بعد بی ایل اے کے عسکری ونگ کی طرف سے جاری کیے جانے والے ویڈیو پیغام میں تو کوئی اور ہی بھاشا بولی جا رہی ہے۔ بلوچستان بلوچوں کا ہے مگر اس کے ساتھ یہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بھی ہے۔ بلوچستان میں اگر گوادر اور سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبوں کے ذریعے ترقی و خوشحالی کو فروغ ملے گا تو کیا اس طرح بلوچیوں کے احساس محرومی میں کمی نہیں ہوگی؟ نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار کے مواقعے پیدا نہیں ہوں گے؟ سیاسی شعور کی آبیاری نہیں ہوگی؟ بلوچیوں کو ان کے حقوق نہیں ملیں گے؟

مگر یہ ویڈیو پیغام تو صاف بتا رہا ہے کہ نجی عسکری جتھوں کو دشمن کے خفیہ ہاتھوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ ریاستی پالیسیوں سے نالاں چند سر پھرے بلوچ نوجوانوں کی مضطربانہ کارروائیاں نہیں ہیں بلکہ ملک کے خلاف ہونے والی ایک منظم اور گھناوٴنی سازش کی خوفناک کہانی ہے۔ اس ملک دشمن گروہ نے سر عام ریاست کی رٹ کو للکارا ہے۔ یہ فساد فی الارض کی بد ترین صورت ہے۔ بی ایل اے کے نعرے ملک دشمنی کو ہوا دے رہے ہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ ملک کی سالمیت کے لیے سنگین خطرہ بننے والے سرکش اور باغی عناصر سے سختی سے نمٹا جائے۔ احساس محرومی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وقتی ردعمل اور احتجاجی مظاہروں میں اور ملک دشمنی اور باغیانہ سرگرمیوں میں واضح فرق ہوتا ہے۔

بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ آئے دن ویرانوں سے ملنے والی مسخ شدہ لاشیں بھی بہت سنگین معاملہ ہے۔ بلوچستان کی پسماندگی، درماندگی اور غربت و افلاس کا مداوا بھی بہت ضروری ہے۔ وہاں کے احساس محرومی کا خاتمہ بھی لازمی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں بر سر پیکار ایسے عسکری باغی جتھوں کی بیخ کنی بھی ضروری ہے۔ ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کی سیاسی مساعی اپنی جگہ مگر شاری جیسے عناصر کی سرشاری اور خوں خواری کو ختم کرنے کا بھی کوئی طریقہ ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments